غیر خونی انقلاب

انسان انقلاب چاہتا ہے ۔ اسی کے ساتھ وہ چاہتا ہے کہ یہ انقلاب غیر خونی طور پر آئے ۔ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی بھی شخص غیر خونی انقلاب لانے پر قادر نہ ہو سکا۔ تمام معلوم انقلابات قتل اور خون کے جنگل کو پار کر کے ہی ظہور میں آئے ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا انقلاب تمام معلوم تاریخ کا واحد انقلاب ہے جو حقیقی معنوں میں غیر خونی انقلاب (bloodless revolution) ہے ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر تاریخ سے حذف کر دیا جائے تو نہ صرف غیر خونی انقلاب کی یہ بات افسانہ بن کر رہ جاتی ہے بلکہ اس کے بعد کوئی ایسی عملی مثال باقی نہیں رہتی جس کی روشنی میں کوئی انسان بعد کے زمانوں میں غیر خونی انقلاب کی بات سوچ سکے۔

فرانس میں جدید جمہوری انقلاب آیا۔ اس میں عوام اور شاہی نظام کے درمیان جو مقابلے ہوئے ان میں مرنے والوں کی تعداد  ۱۰ لاکھ تک پہنچ گئی۔ بیسویں صدی میں روس میں اشتراکی انقلاب آیا ۔ اس میں جو لوگ مرے اور مارے گئے ان کی حقیقی تعد اد لا معلوم ہے۔ تاہم اندازہ ہے کہ ان کی تعداد کسی حال میں ایک کروڑ سے کم نہیں۔ امریکی انقلاب (۱۷۸۳-۱۷۷۵ ) میں نسبتاً کم آدمی مرے ، تاہم اس میں بھی مقتولین کی تعداد  ۵۰  ہزار تک پہنچ گئی ۔ عالمی جنگوں کا معاملہ اس سے بھی آگے ہے۔ چنانچہ پہلی عالمی جنگ میں مختلف ملکوں کے ۷۵ لاکھ آدمی مارے گئے۔ اور دوسری عالمی جنگ میں چھ کروڑ سے زیادہ آدمی ہلاک ہوئے۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے گئے تو ایک پورے ملک میں زبر دست فکری اور اخلاقی انقلاب آچکا تھا۔ بوقت وفات  ۱۲  لاکھ مربع میل کے رقبہ پر آپ کی حکومت قائم تھی۔ مگر اس پورے عمل میں صرف ۱۰۱۸ آدمی ہلاک ہوئے ۔ جن میں مسلم مقتول ۲۵۹ تھے اور غیر مسلم مقتول ۷۵۹۔ یہ تعداد واقعہ کی نسبت سے اتنی کم ہے کہ وہ تقریباً نہیں کے برابر ہے۔ آپ کے لائے ہوئے انقلاب کو بلاشبہ پورے معنوں میں غیر خونی انقلاب کہا جا سکتا ہے۔

ہر قائد غیر خونی انقلاب لانے کا دعوی ٰکرتا ہے۔ مگر کوئی قائد غیر خونی انقلاب لانے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں غیر خونی انقلاب لانے کے لیے    خود اپنے آپ کا  خون کرنا پڑتا ہے۔ اور یہی وہ قیمت ہے جس کو دینے کے لیے    کوئی شخص تیار نہیں۔ خونی انقلاب ٹکراؤکی زمین پر آتے ہیں، اور غیر خونی انقلاب صبر کی زمین پر ۔ اور صبر سے زیادہ مشکل کوئی کام اس دنیا میں ایک انسان کے لیے    نہیں۔

صبر کی حقیقت جھٹکے کو اپنے آپ پر لینا ہے ، دوسروں پر انڈیلنے کے بجائے اپنے آپ پر سہنا ہے۔ حقیقت ہے کہ لڑائی کے بغیر بھی جیت ہوتی ہے۔ مگر لڑائی کے بغیر جیتنے کے لیے    اپنے آپ سے لڑنا پڑتا ہے ، لوگ اپنے آپ سے لڑ نہیں پاتے، اس لیے    وہ لڑائی کے بغیر لڑائی جیتنے والے بھی نہیں بنتے۔

 محمد صلی اللہ علیہ وسلم غیر خونی انقلاب لانے میں کس طرح کامیاب ہوئے۔ اس کا اندازہ آپ کے حالات زندگی کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔ مکہ میں ۱۳ سال تک آپ کے مخالفوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو ہر قسم کی تکلیفیں پہنچائیں۔ انھوں نے الفاظ کی چوٹ بھی دی اور پتھر اور نیزے کی چوٹ بھی۔ مگر اس طرح کے بے شمار واقعات پیش آنے کے با وجود محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار بھی جوابی   ردّ  عمل   ظاہر نہیں کیا۔ اور نہ کسی سے کوئی لڑائی کی۔ آپ مخالفوں کے ہر وار کو یک طرفہ طور پر سہتے رہ ہے۔ ان کی طرف سے ہر قسم کے اشتعال کے باوجود کبھی مشتعل نہیں ہوئے۔

اس کے بعد آپ نے یہ کیا کہ مکہ کو چھوڑ کر خاموشی کے ساتھ مدینہ چلے گئے۔ آپ نے نہ اس کے خلاف فریاد کی کہ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو اپنے وطن اور اپنی جائداد کو چھوڑنا پڑ رہا ہے اور نہ اس کی پروا کی کہ اس طرح وطن چھوڑ کر جانے کی بنا پر لوگ آپ پر بزدلی اور فرار کا الزام لگائیں گے۔

مدینہ چلے جانے کے بعد مکہ کے لوگوں نے آپ کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ اس وقت بھی آپ کی پالیسی یہ رہی کہ حتی الامکان جنگ سے اعراض کیا جائے۔ مثال کے طور پر احزاب کے موقع پر آپ نے خندق کھود کر اپنے اور دشمنوں کے درمیان آڑ قائم کر دی۔ آپ نے صرف دفاع میں جنگ کی اور وہ بھی اس وقت جب کہ مڈ بھیڑ کے سوا کوئی اور صورت باقی نہ رہ گئی ہو۔ ایسی باقاعدہ جنگیں صرف تین ہیں جن میں آپ خود شریک رہے ہوں (بدر، احد اور حنین ) آپ کے ز مانہ میں موتہ کی جنگ بھی ہوئی۔ مگر اس میں آپ خود شریک نہ تھے ۔

آپ کو عرب میں جو غلبہ حاصل ہوا وہ جنگ کے ذریعہ نہیں ہوا ، بلکہ اس" صلح"کے ذریعہ ہو اس کو قرآن میں فتح مبین (ا لفتح: ۱) کہا گیا ہے۔ صلح حدیبیہ کا واقعہ غیر خونی انقلاب لانے کے لیے    اپنے آپ کا خون کرنے سے کم نہ تھا۔ آپ نے اپنی ذات کا خون کرنا گوارہ کیا تاکہ باہر کی دنیا میں خون نہ بہایا جائے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کوعرب میں جو غلبہ حاصل ہوا وہ جنگ کے ذریعہ نہیں ہوا بلکہ دعوت کے ذریعہ ہوا۔ اسی دعوت کے بند دروازوں کو کھولنے کے لیے    آپ نے یہ کیا کہ دشمن سے اس کی اپنی شرائط کی بنیاد پر صلح کرلی۔یہ  صلح حدیبیہ تھی جس کو قرآن میں کھلی فتح   إِنَّا ‌فَتَحۡنَا لَكَ فَتۡحٗا مُّبِينٗا [الفتح: 1]کہا گیا ہے۔ صلح حدیبیہ اس بات کا ایک تاریخی ثبوت ہے کہ جنگ کے مقابلہ میں امن کی طاقت بہت زیادہ ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کی ایک طرفہ صلح کے ذریعہ اس عظیم حقیقت کا عملی مظاہرہ فرمایا ، تاہم یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اس قسم کے ایک واقعہ کو ظہور میں لانے کے لیے صبر کی ضرورت ہے ، اور اس دنیا میں بلاشبہ صبر سے زیادہ مشکل قربانی اور کوئی نہیں۔               

'Introduction to Islam'

Series

                                                    1. The Way to Find God

                                                    2. The Teachings of Islam

                                                    3. The Good Life

                                                    4. The Garden of Paradise

                                                    5. The Fire of Hell

The series provides the general public with an accurate and comprehensive picture of Islam-the true religion of submission to God. The first pamphlet shows that the true path is the path that God has revealed to man through His prophets. The second pamphlet is an introduction to various aspects of the Islamic life under forty-five sepa- rate headings. Qur'anic teachings have been summarized in the third pamphlet in words taken from the Qur'an itself. In the fourth pamphlet the life that makes man worthy of Paradise has been described and in the last pamphlet the life that will condemn him to Hell-fire.

Maktaba Al-Risala

C-29 Nizamuddin West New Delhi 110013

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom