حکمتِ کلام
رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ بولے تو بھلی بات بولے ورنہ چپ رہے (مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ)( صحيح البخاري، 5785)
لا برویر (Jean de La Bruyere) ایک فرانسیسی مصنف ہے ۔ وہ ۱۶۴۵ میں پیدا ہوا اور ۱۶۹۶ میں اس کی وفات ہوئی ۔ اس نے یہی بات ان لفظوں میں کہی کہ یہ بڑی بد بختی کی بات ہے کہ آدمی کے اندر نہ اتنی سمجھ ہو کہ وہ اچھا بولے، اور نہ اتنی قوتِ فیصلہ ہو کہ وہ چپ رہے:
It is a great misery not to have enough wit to speak well, nor enough judgment to keep quiet.
بولنے کی صلاحیت ناقابلِ بیان حد تک ایک عظیم صلاحیت ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کوعطا فرمائی ہے۔ بولنے کی صلاحیت کو اگر درست طور پر استعمال کیا جائے تو وہ نعمت ہے ، اور اگر بولنے کی صلاحیت کا بے جا استعمال کیا جائے تو وہ اتنی ہی بڑی مصیبت بن جاتی ہے۔
بولنے کی صلاحیت کا صحیح استعمال یہ ہے کہ آدمی بولنے سے پہلے سوچے ۔ خود کہنے سے پہلے وہ دوسروں کی سنے ۔ جو لفظ بھی وہ منہ سے نکالے یہ سوچ کر نکالے کہ اس کو اپنے بولے ہوئے ایک ایک لفظ کا جواب اللہ تعالیٰ کے یہاں دینا ہے ، جس کے پاس بولنے کے لیے ہو ، اس کے باوجود وہ چپ رہنے کو پسند کرے ۔ جو ذمہ داری کے احساس کے تحت بولے نہ کہ شوق گفتگو کے جذبے کے تحت ۔
اس کے بر عکس بولنے کی صلاحیت کا غلط استعمال یہ ہے کہ آدمی سوچے بغیر بولے ۔ اس کو صرف سنانے کا شوق ہو، سننے سے اسے کوئی دل چسپی نہ ہو ۔ معاملات کو گہرائی کے ساتھ سمجھے بغیروہ معاملات پر تقریر کرنے کے لیے کھڑا ہو جائے ۔ اس کا بولنا خود نمائی کے لیے ہو نہ کہ اظہار حقیقت کے لیے۔ بولنا سب سے بڑا ثواب ہے ، اور بولنا سب سے بڑا گناہ بھی ۔ جو آدمی اس حقیقت کو جان لے ، اس کا بولنا بھی با معنی ہوگا اور اس کا چپ رہنا بھی با معنی ۔