ٹارچ کے بغیر
گاؤں کا ایک شخص اندھیری رات میں چل رہا تھا۔ کھیتوں کی پگڈنڈی پار کرتے ہوئے اچانک اس کو محسوس ہوا کہ کوئی چیز اس کے پیروں میں پھنس رہی ہے۔ اس نے حیرت اور خوف کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ چھلانگ لگائی۔ اگلے لمحہ اس کی انگلیاں ٹارچ کے سوئچ پر پہونچ چکی تھیں۔ ٹارچ روشن ہوئی تو نظر آیا کہ اس کے دائیں طرف ایک سانپ خشمگیں نظروں سے اس کو دیکھ رہا ہے۔
آدمی کے پاس ٹارچ تھی ۔ مگر وہ اس کو جلائے بغیر اپنا سفر طے کر رہا تھا۔ اس بنا پر اس کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا ۔ ٹارچ اگر روشن ہوتی تو راستہ میں سانپ کی موجودگی کا اس کو پہلے ہی علم ہو جاتا۔ مگر ٹارچ روشن نہ کرنے کی وجہ سے سانپ کی موجودگی کا علم اس کو صرف اس وقت ہوا جب کہ وہ اس کو کاٹ چکا تھا ۔
یہی حالت ایک اور اعتبار سے موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی ہے ۔ مسلمانوں کے پاس خدا کی کتاب ہے مگر وہ اس سے اپنے معاملات میں ہدایت حاصل نہیں کرتے۔ وہ خدائی ٹارچ کو روشن کیے بغیر زندگی کا راستہ طے کر رہے ہیں۔ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ قدم قدم پر ٹھوکروں سے دو چار ہوتے ہیں۔
مثلاً خوف کی ایک صورت مسلمانوں کے سامنے آتی ہے ۔ مسلمان اس کو اغیار کا مسئلہ سمجھ کر ان کے خلاف لا حاصل شور و غل شروع کر دیتے ہیں۔ اگر وہ قرآن کی ٹارچ جلائے ہوئے ہوں تو انھیں فوراً یہ معلوم ہو جائے گا کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ان کو اغیار کی خشیت سے محفوظ کردیا ہے ۔ اب ان کے لیے صرف خشیت ِخداوندی کا مسئلہ ہے نہ کہ خشیت انسانی کا ۔ (المائدہ ۳)
اسی طرح ایک گروہ مسلمانوں کے خلاف فساد کرتا ہے اور ان کو نقصان پہونچاتا ہے۔ یہاں بھی مسلمان یہی کرتے ہیں کہ دوسروں کے خلاف تیز و تند الفاظ بول کر اپنے دل کی بھڑاس نکالنے لگتے ہیں ۔ اگر وہ قرآن کی ٹارچ روشن کر کے دیکھیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ اس قسم کا شور و غل بے فائدہ ہے۔ کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ اپنا داخلی جائزہ لیا جائے اور اپنی اندرونی کمزوریوں کا پتہ کر کےان کی اصلاح کی جائے ( آل عمران: ۱۵۲، التوبہ:۲۵)