ترتیب کار
صحیح بخاری(باب تالیف القرآن) میں حضرت عائشہ کی ایک روایت نقل ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ قرآن میں پہلے وہ آیتیں اتریں جن میں جنت اور جہنم کا ذکر ہے ۔ یہاں تک کہ جب لوگوں کے ذہن اسلامی قانون کے لیے تیار ہو گئے ، اس وقت قرآن میں حلال و حرام کی آیتیں اتریں۔ اگر قرآن میں پہلے ہی یہ اتر تاکہ شراب نہ پیو تو لوگ کہتے کہ ہم کبھی شراب نہ چھوڑیں گے۔ اور اگرپہلے ہی یہ اترتا کہ زنانہ کرو تو یقیناً لوگ کہتے کہ ہم زنا نہ چھوڑیں گے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی تحریک کے دو بڑے مرحلے ہیں ۔ ایک ، مرحلۂ دعوت ۔ اور دوسرا مرحلہ ٔنفاذِ احکام - اسلامی عمل کی ترتیب یہ ہے کہ پہلے دعوتی جدو جہد کے ذریعہ لوگوں کا ذہن بنایا جائے ۔ ان کے دلوں میں آمادگی پیدا کی جائے۔ جب یہ ابتدائی کام ہو چکا ہو اس وقت انھیں حلال و حرام کے عملی احکام سنائے جائیں اور حسبِ مقدور ان کی تعمیل کی جائے۔
اسلامی عمل کی یہ ترتیب غیر مسلم اقوام کے لیے بھی مطلوب ہے اور مسلم معاشروں کے لیےبھی۔ غیرمسلم اقوام تک اسلام کا پیغام پہنچانا فرض کے درجہ میں مطلوب ہے ۔ مگر یہ ایک مرحلہ وار کام ہے نہ کہ کوئی یکبارگی عمل ۔ اولاً اسلام کی بنیادی تعلیمات کو ان کے سامنے موثر انداز میں پیش کیا جائے گا۔ جب یہ کام قابل لحاظ حد تک انجام پا جائے ، اس کے بعد وہ اسلام کے عملی قوانین کے مخاطب بنائے جائیں گے ۔
یہی معاملہ مسلمانوں کا بھی ہے۔ تاریخی تجربہ بتا تا ہے اور قرآن سے ثابت ہے کہ مسلمانوں کی بعد کی نسلیں ایمانی کمزوری ، یا قرآن کے لفظ میں قساوت (الحدید ۱۶) کا شکار ہو جاتی ہیں ۔ اس وقت مسلمانوں میں از سرِ نو اسلامی زندگی پیدا کرنے کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ ان پر دوبارہ وہی عمل کیا جائے جو دور ِاول میں کیا گیا تھا۔ یعنی پہلے ان کے اندر دعوتی جدو جہد کے ذریعہ اسلامی ذہن بنانا ، اس کے بعد حالات کے مطابق ان کے اوپر اسلام کے عملی قوانین کا نفاذ۔
اس ترتیب و تدریج کے بغیر کوئی بھی نتیجہ خیز کام نہیں کیا جاسکتا ۔