إن شاء الله

اسلام کی تعلیمات میں سے ایک تعلیم یہ ہے کہ آدمی جب کسی کام کے بارے میں اپنے ارادہ کا اظہار کرے تو اس کے ساتھ ان شاء اللہ(اگر اللہ نے چاہا) بھی ضرور کہے۔ مثلاً ایک شخص دہلی سے بمبئی جانے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس طرح نہ کہے کہ کل میں بمبئی جاؤں گا ، بلکہ یوں کہے کہ ان شاء اللہ کل میں بمبئی جاؤں گا ۔

یہ کلمہ گویا اس حقیقت واقعہ کا اعتراف ہے کہ میری چاہ صرف اس وقت پوری ہوگی جب کہ اللہ کی چاہ بھی اس میں شامل ہو جائے ۔ یہ اپنے چاہنے میں اللہ کے چاہنے کو ملانا ہے، اپنےارادے کے ساتھ اللہ کے ارادے کو شامل کرنا ہے۔

اصل یہ ہے کہ انسان ارادہ کرتا ہے اور اس کے مطابق کوشش کرتا ہے ۔ مگر کسی کوشش کی تکمیل صرف اس وقت ممکن ہوتی ہے جب کہ اس کے ساتھ اللہ کی رضا مندی بھی شامل ہو جائے۔ اسی کو عربی میں اس طرح کہا گیا ہے کہ کوشش میری طرف سے ہے اور اس کی تکمیل اللہ کی طرف سے(السعى منّى و الإتمام من الله)

اس اعتبار سے خدا اور بندے کا معاملہ گویا دندانہ دار پہیہ Cog wheel کا معاملہ ہے۔ ایک پہیہ خدا کا ہے اور دوسرا پہیہ انسان کا ۔ جب دونوں کے دندانے ایک دوسرے میں مل جاتے ہیں ، اس کے بعد زندگی کی مشین چل پڑتی ہے۔ انسان اگر ایسا کرے کہ خدا کے پہیہ سے الگ ہو کر اپنا پہیہ چلانا چاہے تو بظا ہر حرکت کے باوجود وہ بے فائدہ ہوگا۔ کیوں کہ پوری مشین کے چلنے کے لیے ضروری تھا کہ خدا کے پہیہ کا دندانہ بھی انسان کے پہیہ کے ساتھ شامل ہو ۔

ان شاء اللہ کا کلمہ ، باعتبار ِحقیقت ، ایک دُعا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے کام کا آغاز کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتا ہے کہ وہ انسان کے کاگ میں اپنا کاگ ملا دے تاکہ زندگی کی مشین چل پڑے اور اپنے مطلوبہ انجام تک پہونچے۔ ان شاء اللہ کہنا گویا زندگی کے سفر میں مالکِ کائنات کو اپنے ساتھ لینا ہے۔ اور جس آدمی کا یہ حال ہو کہ خود مالک کائنات اس کا ہم سفرہو جائے۔ اس کو منزل تک پہونچنے سے کون روک سکتا ہے ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom