خبر نامہ اسلامی مرکز - ۵۶
۱۔ پانچ جنیہ ہندی کا مشہور ہفتہ وار پرچہ ہے ۔ اس کے نمائندہ مسٹر موکیش کو شک ۸ ستمبر ۱۹۸۹ کو مرکز میں آئے اور اپنے پرچہ کے لیے صدر اسلامی مرکز کا مفصل انٹرویو لیا ۔ سوالات زیادہ تر ہندستانی مسلمانوں کے مسائل اور مسلم لیڈرشپ کے بارے میں تھے ۔
۲۔مدینہ ایجو کیشن سنٹر، پبلک اسکول، جو نئر بوائز کا لج وہاسٹل ، حیدر آباد کی جانب سے ایک مضمون "ذرا غور کیجئے " کے عنوان سے مختلف اخبارات میں شائع کیا گیا ہے۔ وہ مضمون یہ ہے : "مرکز اسلامی ہند نے ، اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت کے مقصد کے تحت ، حمایت نگر حیدر آباد میں دو منزلہ عمارت خرید کر اس کی ذمہ داری ایک مولانا کو سونپ دی تھی۔ مگر ہائے افسوس وہی مولانا ، اشاعتی کا موں کو ٹھپ اور عمارت میں قانونی پیچیدگیاں پیدا کر کے پہلی منزل پر خود مولانا کا قیام اور نچلی منزل میں شراب کا گودام، اور اکابرین خاموش" ۔ یہ مضمون حسب ذیل انگریزی اور اردو اخبارات میں شائع ہوا ہے ––– دکن کرانیکل ، سکندر آباد ، ۳ ستمبر ۱۹۸۹۔ منصف ، حیدر آباد، ۳ ستمبر ۱۹۸۹رہنمائے دکن ویکلی ، حیدر آباد ، ۴ – ۱۰ ستمبر ۱۹۸۹ ۔
۳۔قطر (عرب امارات) سے عمر اسماعیل صاحب لکھتے ہیں : آپ کا رسالہ کچھ ماہ پہلے نظروں سے گزرا۔ میری ۴۵ سالہ زندگی میں پہلی بار محسوس کیا کہ اسلامی لٹریچر میں پڑھنے جیسی کوئی چیز ہے ۔ ورنہ مولاناؤں کے اسلام نے کم سے کم مجھے بغاوت پر اتر وایا۔ میں اپنی زندگی کے دس سال غیر مسلموں کے ماحول میں بتا چکا تھا جہاں ہر غیر مسلم مجھے مسلم سے اچھا لگا، بھلا لگا۔ اور آہستہ آہستہ میرے خیالات اور جذبات ہر مسلم ملّا کے خلاف ہوتے گئے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ آپ کا رسالہ نظروں سے گزرا اور آپ حضرات کی ہستی نے مجھےکفر کرتے کرتے بچا دیا ۔
۴۔نئی دہلی (انڈیا انٹرنیشنل سنٹر )میں ٹائمس آف انڈیا گروپ کی طرف سے" آنکھ کا عطیہ اور مذہب "کے موضوع پر سیمنار ہوا تھا ۔ اس موقع پر صدر اسلامی مرکز نے ایک پیپر پیش کیا جس کا عنوان تھا :
(Eye Donation and Islam)
ٹائمس آف انڈیا ، ستمبر ۱۹۸۹ (صفحہ ۳) پر اس کی مفصل رپورٹ شائع ہوئی۔ اس میں سب سے زیادہ کو ریج صدر اسلامی مرکز کی تقریر کو دیا گیا ہے ۔ اس سیمنار میں مختلف مذاہب کے چالیس اہل علم اور اسکالر شریک ہوئے تھے ۔ یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم علماءاگر ایسے اجتماعات میں شریک ہوں تو اس سے اسلامی دعوت کو کتنا زیادہ فائدہ ہو ۔ مگر موجودہ صورت حال یہ ہے کہ سارے ملک میں کوئی بھی عالم نہیں جو مشترک اجتماعات یا مختلف مذاہب کانفرنسوں میں شرکت کر تا ہو ۔ صدر اسلامی مرکز تنہا عالم ہیں جو ہندستان اور ہندستان کے باہر اس قسم کے مواقع پر شرکت کرتے ہیں اور بین مذاہب اجتماعات میں اسلامی دعوت پیش کر رہے ہیں ۔
۵۔مرکز کی دوکتا بیں، سچا راستہ اور دینی تعلیم اس سے پہلے تلگو زبان میں شائع کی گئی تھیں۔ اب "سچا راستہ" کاتلگو ترجمہ دوبارہ زیادہ اہتمام کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ اس کوحاصل کرنے کا پتہ یہ ہے :
الرسالہ اکیڈمی ، ۷۸۰/۱۹/۲ - ۵ - ۳ ، اعظم منزل، کنگ کو ٹھی، حیدر آباد
۶۔جناب ولی محمد صاحب انصاری (دھولیہ) نے جینت بابورا و شمپی صاحب کو انگریزی کتاب گاڈ ارائزز پڑھنے کے لیے دی ۔ جناب شمپی صاحب کو پڑھنے کے بعد یہ کتاب پسند آئی اور انھوں نے مرہٹی زبان میں اس کا ترجمہ کرنے کی پیش کش کی ۔ چنانچہ اب انھوں نے پوری کتاب کا مرہٹی ترجمہ مکمل کر لیا ہے ، جناب جینت بابو راؤ شمپی صاحب نے یہ پورا ترجمہ رضا کارانہ طور پر کیا ہے۔
۷۔ہندستان سے مسلم قانون دانوں کا ایک وفد ما ریشش گیا جو وہاں کی سپریم کورٹ میں مسلم پرسنل لاء کے ایک مقدمہ میں مسلمانوں کی طرف سے بیان اور شہادت دے۔ یہ سماعت اکتوبر ۱۹۸۹ کے پہلے ہفتہ میں ہوئی۔ اس وفد میں انگریزی داں عالم کی حیثیت سے صدر اسلامی مرکز کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی ۔ مگر انھیں دنوں ایک اور بیرونی سفر پیش آنے کی وجہ سے موصوف اس وفد میں شرکت کی دعوت قبول نہ کر سکے ۔
۸۔ایک صاحب لکھتے ہیں : ماہ نومبر ۱۹۸۸ میں پہلی بار خاتون اسلام نظر سے گزری۔ اس سے کافی قبل الرسالہ کے ذریعہ آپ کا تعارف ہو چکا تھا۔ چوں کہ دین کی طرف دل چسپی کم تھی ۔ اس لیے پہلے کوئی خاص توجہ نہ دی ۔ خاتون اسلام کے پڑھنے کے بعد آپ کے لٹریچر پڑھنے کا شوق پیدا ہوا ۔ خاتون اسلام کے بعدپرانے رسالوں کا مطالعہ شروع کیا۔ میرا شوق دن بدن بڑھتا گیا۔ جیوں جیوں مطالعہ کرتا تیوں تیوں آپ سے ملنے کی خواہش بڑھتی گئی۔ اور ساتھ ساتھ یہ خواہش تھی کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو الرسالہ کے ذریعہ آپ کا تعارف کراؤں جب میں دعوت دیتا تھا تو کئی پڑھے لکھے لوگوں نے کہا کہ مولانا مسلمانوں کو بزدلی سکھلاتے ہیں ۔ میری کم علمی یا کم عقلی سمجھئے کہ میں بھی اس مرض کا شکار ہو گیا تھا۔ اللہ تعالٰی کا لا کھ شکر ہے کہ ۲۵ مئی کو آپ سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ نے میری غلط فہمی کو دور کیا ۔ اور ساتھ ہی ساتھ آپ کی کتاب " حل یہاں ہے" پڑھنے کا مشورہ دیا۔ جس کا میں بہت مشکور ہوں ۔ میں مطالعہ کے بعد اس نتیجہ پر پہونچا ہوں کہ آپ جو کچھ پیش کرتے ہیں قرآن اور حدیث کی روشنی میں پیش کرتے ہیں پھر بھی بہت سے لوگ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ میرے خیال میں لوگ سنی سنائی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں ، اور میری طرح اس قسم کے لوگ آپ کے لڑیچر کے مطالعہ سے کورے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ حق کی بات کرنے والوں کی ہمیشہ مخالفت کی گئی ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا ۔ حق ہمیشہ باطل پر غالب رہا ہے اور رہے گا۔ (حمید اللہ خاں ، کلکتہ)۔
۹۔ ایک صاحب لکھتے ہیں : ماہنامہ الرسالہ ہمارے یہاں آتا ہے ۔ میں برابر اس کو پڑھتا ہوں ۔ ہر ماہ الرسالہ کا بے چینی کے ساتھ انتظار رہتا ہے ۔ ماشاء اللہ بہت اچھا رسالہ ہے ۔ میرے پاس جب دو چار الرسالہ جمع ہو جاتے ہیں تو ان کو میں جناب ابراہیم یوسف بادا کو انگلینڈ بھیج دیتا ہوں۔ بادا صاحب انگلینڈ میں رہتے ہیں اور وہاں ادارہ اشاعت الاسلام کے نام سے ایک ادارہ چلاتے ہیں ۔ با دا صاحب نے اپنے خط میں الرسالہ کی ہر لحاظ سے کافی تعریف کی ہے۔ (سید مجیب الرحمن ، دہلی)۔