دعوت اور عمل

کوئی داعی اس وقت اللہ کی نظر میں داعی ہے جب کہ وہ داعی ہونے کے ساتھ عامل بھی ہو ۔ آدمی جب کسی دوسرے شخص کو نیکی کی تلقین کرے تو سنجیدگی کا تقاضہ ہے کہ وہ خود بھی اس پر کار بند ہو۔ حضرت شعیب نے اپنی قوم سے فرمایا کہ میں نہیں چاہتا کہ میں خود وہی کام کروں جس سے میں تم کو روک رہا ہوں (ہود ۸۸)

مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ عمل ، دعوت کی شرط ہے ۔ دعوت تبلیغ  کا کام ہر حال میں جاری رکھا جائے گا خواہ داعی عامل ہو یا نہ ہو۔ مفسر ابن کثیر نے سورۃ البقرہ (آیت ۴۴) کے تحت لکھا ہے : فَكُلٌّ مِنَ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَفِعْلِهِ وَاجِبٌ، لَا يَسْقُطُ أَحَدُهُمَا بِتَرْكِ الْآخَرِ عَلَى أَصَحِّ قَوْلَيِ الْعُلَمَاءِ مِنَ السَّلَفِ وَالْخَلَفِ. وَذَهَبَ بَعْضُهُمْ إِلَى أَنَّ مُرْتَكِبَ الْمَعَاصِي لَا يَنْهَى غَيْرَهُ عَنْهَا، وَهَذَا ضَعِيفٌ، وَأَضْعَفُ مِنْهُ تَمَسُّكُهُمْ بِهَذِهِ الْآيَةِ؛ فَإِنَّهُ لَا حُجَّةَ لَهُمْ فِيهَا. وَالصَّحِيحُ أَنَّ الْعَالِمَ يَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ، وَإِنْ لَمْ يَفْعَلْهُ، وَيَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ وَإِنِ ارْتَكَبَهُ، [قَالَ مَالِكٌ عَنْ رَبِيعَةَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ يَقُولُ لَهُ: ‌لَوْ ‌كَانَ ‌الْمَرْءُ ‌لَا ‌يَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا يَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ حَتَّى لَا يَكُونَ فِيهِ شَيْءٌ مَا أَمَرَ أَحَدٌ بِمَعْرُوفٍ وَلَا نَهَى عَنْ مُنْكَرٍ. وَقَالَ مَالِكٌ: وَصَدَقَ مَنْ ذَا الَّذِي لَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ ( تفسیر ابن کثیر، الجزءالاول ، صفحہ ۸۵(

پس معروف کی تلقین کرنا اور اس پر عمل کرنا دونوں ہی واجب ہیں، ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے ترک سے ساقط نہیں ہوتا۔ علماء ِسلف اور علما ءخلف کا صحیح ترین قول یہی ہے ۔ ان میں سے بعض اس طرف گئے   ہیں کہ جو شخص گناہوں کا مرتکب ہو وہ دوسرے کو انھیں گناہوں سے نہ رو کے۔ مگر یہ قول ضعیف ہے ۔ اور اس سے بھی زیادہ ضعیف بات یہ ہے کہ اس کو سورۃ البقرہ کی آیت ۔أَتَأۡمُرُونَ ٱلنَّاسَ ‌بِٱلۡبِرِّ وَتَنسَوۡنَ أَنفُسَكُمۡ [البقرة: 44] سے نکالا جائے ، کیوں کہ اس میں ان کے لیے کوئی دلیل نہیں ۔

صحیح بات یہ ہے کہ عالم معروف کی تلقین کرے گا اگر چہ وہ اس پر عمل نہ کرتا ہو اور وہ منکر سے روکے گا اگر چہ وہ خود اس کا مرتکب ہو ۔ مالک نے ربیعہ سے نقل کیا ہے ، انھوں نے کہا کہ میں نے سعید بن جُبیر کو یہ کہتے ہو ئے سنا کہ اگر ایسا ہوتا کہ آدمی صرف اس وقت معروف کی تلقین کرے اور منکر سے رو کے جب کہ اس کے اندر کوئی چیز پائی نہ جارہی ہو تو کسی شخص نے بھی معروف کی تلقین نہ کی ہوتی اور نہ وہ منکر سے روکتا۔ امام مالک نے کہا اور سچ کہاکہ کون شخص ہے جس کےاندر کوئی چیز نہیں ۔

اس معاملہ میں علماء اسلام کا اتفاق اس لیے ہے کہ یہ ایک اصول کا مسئلہ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ دعوت کے لیے عمل کی شرط دعوت کو ہمیشہ کے لیے نا قابلِ عمل بنا دیتی ہے ۔ کیوں کہ ایک سچا عامل اور صالح انسان اللہ سے ڈرنے والا انسان ہوتا ہے۔ ایسا آدمی آخرت کے احساس سے کا نپتا رہتا ہے۔ اس کا احساسِ احتساب اتنا بڑھ جاتا ہے کہ وہ اپنے بظا ہر عمل کو بھی بے عمل سمجھنے لگتا ہے۔ ایسی حالت میں کون ہو گا جو اپنے صالح اور با عمل ہونے کا یقین کرے اور اس کےبعد وہ دعوت اسلامی کا آغاز کرے۔

اصل یہ ہے کہ دعوت احساس ِذمہ داری کے تحت ظاہر ہونے والا عمل ہے نہ کہ احساسِ صالحیت کے تحت ۔ مدعو بھی جب اپنے دین کو چھوڑ کر اسلام کو اختیار کر تا ہے تو وہ اسلام کی اپنی صداقت کی بنا پر ایسا اقدام کرتا ہے نہ کہ  مسلمانوں کے با عمل ہونے کو دیکھ کر ۔ اگر داعی کے باعمل ہونے کو دیکھ کر لوگ حق  کو قبول کرتے تو تمام انبیاء کے گرد انسانوں کی بھیڑ دکھائی دیتی۔ مگر معلوم ہے کہ آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی بھی پیغمبر کے گرد انسانوں کی کوئی بڑی جماعت اکھٹا نہیں ہوئی ۔ صحیح بات یہ ہے کہ دعوت ہر حال میں دینا ہے اور ہر شخص کو دینا ہے ، اس کےلیے مذکورہ قسم کی کوئی شرط نہیں لگائی جاسکتی۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom