عمر بن عبد العزيز

مجلہ ا لبحوث الاسلامیہ (ریاض) ایک علمی مجلہ ہے۔ اس کے شمارہ ۲۳ (۱۴۰۸ھ) میں خلیفہ عمر بن عبد العزیز کے بارے میں ایک مفصل مقالہ شائع ہوا ہے ۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے ۔

 عمربن عبدالعزیز نے اسلامی دعوت کو پھیلانے کی کافی کوشش کی ۔ اور لوگوں کے درمیان اسلام کی تبلیغ کے لیے اپنی توجہ صرف کی۔ انھوں نے بڑے بڑے سرداروں اور حکمرانوں کو اسلام کی طرف دعوت دی۔ اور علماء کو بھیجا کہ وہ اسلام کی سچی تعلیمات اور دین توحید سے انھیں باخبر کریں۔

ان کی ان کوششوں نے پھل دیا اور لوگ بڑی تعداد میں اسلام میں داخل ہوئے ۔ عمر بن عبد العزیز نے ان لوگوں کا جزیہ معاف کر دیا جو اسلام لائے تھے۔ یہ لوگوں کے لیے اسلام میں داخل ہونے کا مزید سبب بنا، جب انھوں نے جانا کہ اسلام میں داخل ہونے سے ان کے حقوق کم نہیں ہوتے بلکہ اور زیادہ ہو جاتے ہیں ۔

ان کے گورنروں میں سے ایک گورنر نے انھیں جزیہ ساقط کرنے کے طریقہ پر ملامت کی ۔ عمر بن عبدالعزیز نے فیصلہ کن لہجہ میں اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جو اسلام قبول کرے اس کا جز یہ ساقط کر دو۔ تمہاری یہ رائے بہت بری ہے۔ کیوں کہ اللہ نے محمد کو ہدایت دینے والا بناکر بھیجا، اس نے انھیں ٹیکس وصول کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا۔ اور میری جان کی قسم ، عمر اس سے زیادہ شقی ہے کہ سارے لوگ اس کے ہاتھ پر اسلام میں داخل ہو جائیں ۔

خراسان میں بعض لوگ اپنی ذاتی مصلحت کی بنا پر کثرت سے لوگوں کے داخل اسلام ہونےپرمتردد ہوئے۔ انھوں نے وہاں کے گورنر الجراح سے کہا کہ وہ نو مسلموں کی آزمائش کریں اور انہیں ختنہ کرنے کا حکم دیں تاکہ یہ ظاہر ہو سکے کہ کیا وہ حقیقی رغبت کی وجہ سے مسلمان ہوئے ہیں۔ الجراح نے اس بارے میں عمر بن عبد العزیز کو لکھا۔ انھوں نے سخت جواب دیتے ہوئے کہا کہ اللہ نے محمدؐ کو دعوت دینے والا بنا کر بھیجا ، اس نے آپ کو ختنہ کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا۔ اسی طرح بصرہ کے گورنر نے انھیں لکھا کہ لوگ بہت زیادہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں اور مجھے اندیشہ ہے کہ خراج کی رقم کم ہو جائے گی۔ عمر بن عبد العزیز نے جواب دیا کہ جو کچھ تم نے لکھا ہے اس کو میں نے جانا۔ خدا کی قسم مجھے یہ پسند ہے کہ تمام لوگ اسلام قبول کر لیں اور میں اور تم ہل چلانے والے بن جائیں، اور اپنے ہاتھ کی محنت سے اپنی معاش حاصل کریں ۔

عمر بن عبدالعزیز نے وسیع دائرہ میں اسلام کی دعوت پھیلائی۔ انھوں نے تمام بادشاہوں کے نام خط لکھے اور انھیں اسلام میں داخل ہونے کی طرف بلایا ۔ مثلاً ہندستان اور ماوراء النہر وغیرہ۔ اس کے بعد بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا ۔ عمر بن عبد العزیز کے گورنروں نے جب خلیفہ میں دعوتی رغبت دیکھی ، تو انھوں نے بھی اس میدان میں کافی سرگرمی دکھائی۔ یہاں تک کہ کہا جاتاہے کہ خراسان کے گورنر الجراح کے ہاتھ پر ۴ ہزار سے زیادہ افراد مسلمان ہوئے ۔

عمر بن عبد العزیز غالباً  اسلامی تاریخ کے آخری معلوم شخص ہیں جن کے اندر دعوت کاشعور پوری طرح زندہ تھا جو کامل طو پر جانتے تھے کہ دعوت کیا ہے اور دعوت کیا نہیں ہے۔ وہ اس راز سے واقف تھے کہ اسلام میں سب سے زیادہ قابل لحاظ چیز دعوت ہے۔ جب دعوت کی مصلحت اور دوسری مصلحتوں کے درمیان ٹکراؤ ہو تو دعوت کی مصلحت کو ترجیح دی جائے گی اور دوسری تمام مصلحتوں کو نظر انداز کر دیا جائے گا، خواہ بظاہر وہ کتنی ہی زیادہ اہم نظر آتی ہوں۔

موجودہ زمانہ میں، کم از کم معروف مسلمانوں کے درمیان ، دعوت کا شعور مکمل طور پرختم ہو چکا ہے۔ حتی کہ ان میں سے جو لوگ دعوت کا نام لیتے ہیں ، وہ بھی دعوت کی حقیقت سے اتنے ہی بے خبر ہیں جتنا کہ نام نہ لینے والے لوگ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک طرف دعوت کا نام لیتے ہیں اور دوسری طرف ایسی باتیں کرتے ہیں جو دعوت کے لیے زہر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ داعی کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں، بغیر اس کے کہ انھوں نے دعوت کو سمجھا ہو، بغیر اس کے کہ انھوں نے اپنے آپ کو داعیانہ ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے تیار کیا ہو۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom