چپ رہیے
قرآن میں ہے کہ کان اور آنکھ اور دل ، ہر چیز کے بارے میں انسان سے پوچھ ہو گی (بنی اسرائیل ۳۶) حدیث میں آیا ہے کہ تم میں جو شخص فتویٰ دینے میں زیادہ جری ہے وہ جہنم کے اوپر زیادہ جری ہے(أَجْرَؤُكُمْ عَلَى الفتوى أَجْرَؤُكُمْ عَلَى النَّارِ)
اس بنا پر صحابہ کرام فتوی دینے میں انتہائی احتیاط برتتے تھے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ عبداللہ ترازو میں اُحد پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی ہیں۔( عبد الله أثقل في الميزان من أُحد ) اس کے باوجود ان کا یہ حال تھا کہ وہ کو فہ میں تھے ۔ ان سے ایک معاملہ میں پوچھا گیا تو انھوں نے جواب نہیں دیا۔ لوگ ان سے مہینہ بھر پوچھتے رہے ۔ یہاں تک کہا کہ اگر آپ ہی فتوی نہ دیں تو ہم کس سے پوچھیں ۔ پھر بھی انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا (فی سنن أبی داؤد أن ابن مسعود كان في الكوفة فسُئل عن أمر فلم يُجب - فاختلفوا إليه شهراً ولم يجب۔ وفي رواية : من نسأل إذا لم تُفتنا)
حضرت عبداللہ بن عمر ہمیشہ فتوی دینے سے پر ہیز کرتے تھے ۔ لوگ جب زیادہ اصرار کرتے توکہتے کہ ہماری پیٹھ کو جہنم کے لیے سواری نہ بناؤ ( لا تجعلوا ظهورَنا مطايا إلى جهنم)
ان روایات میں فتوی سے مراد کوئی محدود فتوی نہیں ہے۔ اس کا تعلق ان تمام امور سے ہے جو مسلمانوں کو پیش آتے ہیں اور جن میں وہ اپنے علماء اور اپنے رہنماؤں سے رائے پوچھتے ہیں۔ ایسے امور میں علماء اور رہنماؤں کا فرض ہے کہ وہ بولنے سے زیادہ سوچیں۔ وہ اس وقت تک کوئی بیان نہ دیں جب تک اس معاملہ میں مشورہ اور مطالعہ اور غور وفکر کی تمام شرطوں کو آخری حد تک پورا نہ کر چکے ہوں ۔ ایسے امور میں نہ بولنا اس سے بہتر ہے کہ آدمی غیر ذمہ دارانہ طور پر بولنے لگے ۔
اجتماعی معاملات میں رائے دینا انتہائی نازک ذمہ داری ہے ، کیوں کہ اگر رائے غلط ہو تو لوگوں کو نامعلوم مدت تک اس کا نقصان بھگتنا پڑتا ہے ۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ اگروہ بولنا چاہتا ہے تو پہلےاس کی تمام شرطوں کو پورا کرے ، اس کے بعد اپنی رائے کا اظہار کرے۔