قومی اتحاد
بھارت و کاس پریشد (نئی دہلی) ۱۹۶۹ میں قائم ہوئی۔ یہ ایک تعلیمی اور ثقافتی ادارہ ہے۔ اس کے موجودہ سرپرست ڈاکٹر ایل ایم سنگھوی اور صدر جسٹس ایچ آرکھنہ ہیں۔ ۱۱-۱۲ فروری ۱۹۸۸ میں اس کی طرف سے ایک آل انڈیا سمینار ہوا۔ سمینار کی کارروائیاں کانسٹی ٹیوشن کلب (نئی دہلی )میں انجام پائیں۔ ۱۲ فروری کی شام کو" کلوزنگ سیشن "میں میرا پیپر رکھا گیا تھا۔ اس کے تحت مذکورہ سمینار میں شرکت ہوئی ۔ اس سمینار کا موضوع تھا قومی اتحاد اور ہندستان کی مذہبی اقلیتیں :
National unity and religious minorities in India
۸۹-۱۹۸۸ کے درمیان مجھے اس قسم کے کئی سمیناروں میں شرکت کا اتفاق ہوا ہے۔ ان کا مختصر ذکر الرسالہ میں"خبر نامہ اسلامی مرکز"کے تحت دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ تمام سمینار راجدھانی دہلی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندؤوں کی طرف سے کیے گئے تھے۔ اور ان میں بڑے بڑے ہندو د ماغ شریک تھے۔ لوگوں کی تقریریں سننے کے بعد میرا احساس یہ تھا کہ" ہندو دماغ "ملک کی موجودہ صورت حال پر سخت تشویش میں مبتلا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ملک میں فرقہ واریت کا مسئلہ ختم ہو ۔ ملک میں قومی اتحاد آئے۔ تمام فرقے اور گروہ یک جہتی کے ساتھ مثبت عمل کی راہ پر لگ جائیں کیوں کہ اس کے بغیر ملک کی حقیقی ترقی ممکن نہیں ۔
فکری سادگی
تاہم ان اجتماعات کو سننے اور دیکھنے کے بعد میرا مشترک احساس یہ تھا کہ فرقہ وارانہ مسئلہ کا احساس تو ضرور لوگوں کے اندرشدید طور پر پیدا ہوا ہے ، مگر فرقہ وارانہ مسئلہ کا حل کیا ہو، اس کے بارے میں ان کا ذہن ابھی تک واضح نہیں ہے۔ زیادہ تر لوگ سسٹم یا قانون میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر مذکورہ سمینار میں یہ تجویز کیا گیا کہ ہندوستان کے دستور میں جہاں اقلیتی حق (Minority right) کا لفظ لکھا ہوا ہے ، وہاں اس کو بدل کر انسانی حق (Human right)کا لفظ لکھ دیا جائے ۔ اقلیتی کمیشن کو ختم کر کے اس کی جگہ انسانی کمیشن مقرر کیا جائے ، وغیرہ ۔
اس قسم کی تجویزوں کے پیچھے یہ ذہن ہے کہ ملک میں جو گروہ بندی اور فرقہ وارانہ امتیاز ہے،وہ اس لیے ہے کہ ہمارا دستور" اقلیتوں "کے حقوق کا لفظ بولتا ہے۔ وہ ملک میں کئی گروہ تسلیم کر کے ان کے الگ الگ حقوق مقر رکرتا ہے۔ اس سے علاحدگی کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر دستور میں " انسانی حقوق" کا لفظ درج کر دیا جائے تو ملک کے تمام لوگ ایک ہی نوع (انسان) نظر آئیں گے۔ اس کے بعد اپنے آپ علاحدگی کا ماحول ختم ہو کر یگانگت کا ماحول قائم ہو جائے گا۔
مگر یہ اصل معاملہ کو بہت سادہ سمجھنا (Oversimplification) ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل مسئلہ امر واقعہ کو بدلنے کا ہے نہ کہ کسی لفظ کو بدلنے کا۔ درخت کی دنیا میں اگر پھول کے ساتھ کانٹے بھی ہیں تو آپ کا نٹوں کے مسئلہ کو اس طرح ختم نہیں کر سکتے کہ اپنی درخت کی ڈکشنری سے کانٹے کا لفظ نکال دیں، اور ہر جگہ صرف پھول ہی پھول لکھ دیں۔ درخت میں کانٹے کا مسئلہ ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ اورایک حقیقی مسئلہ کو حقیقی سطح پر عمل کر کے حل کیا جا سکتا ہے نہ کہ لفظی سطح پر عمل کر کے ۔
مذکورہ فکر کا خلاصہ یہ ہے کہ" اقلیت" اور" اکثریت "کا لفظ امتیاز اور علاحدگی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس سے سماج میں طبقات پیدا ہوتے ہیں ، اس کے برعکس اگر دستور میں "انسان" کا لفظ لکھ دیا جائے تو امتیاز کا تصور ختم ہو جائے گا اور سماج میں طبقاتی علاحد گی ختم ہو کر طبقاتی یکسانیت کا دور آجائے گا۔
مگر اس قسم کی سوچ سادہ لوحی (Naive thinking) کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندستانی سماج اور اسی طرح تمام ملکوں کے سماج میں مختلف نسلی اور مذہبی طبقات پائے جاتے ہیں۔ یہ فرق موجود ہیں اور موجود رہیں گے۔ ان کو اس طرح ختم نہیں کیا جاسکتاکہ قانون میں ایک لفظ کی جگہ دوسرا لفظ لکھ دیا جائے۔
اس کی ایک عملی مثال ہر یجن کا مسئلہ ہے ۔ ہر یجنوں کے سلسلہ میں وہ چیز عملاً حاصل کی جاچکی ہے جس کا مطالبہ اقلیتوں کے سلسلہ میں کیا جارہا ہے۔ قدیم تصور کے مطابق، ہندو اونچی ذات کے لوگ ہیں اور ہریجن (شُدر) نیچی ذات کے لوگ۔ آزادی کے بعد جو قانون سازی ہوئی ہے ، اس میں دونوں کو لفظی طور پر ایک کر دیا گیا ہے ، چنانچہ ہمارا موجودہ دستور دونوں کو یکساں طور پرہند و قرار دیتا ہے ۔
مگر کیا اس لفظی یکسانیت کی وجہ سے ہندو (اونچی ذات) اور ہریجن (نیچی ذات) کا فرق ختم ہو گیا۔ ہر آدمی جانتا ہے کہ ایسا نہیں ہوا ۔لفظی یکسانیت پیدا کرنے کے باوجود دونوں میں سماجی یکسانیت نہیں آئی، دونوں کے درمیان سابقہ تفریق بدستور پوری طرح باقی ہے۔
سبق آموز مثال
جو لوگ فرقہ وارانہ مسئلہ پر گفتگو کرتے ہیں ، وہ ہمیشہ ایک بنیادی غلطی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ وہ شمالی ہندستان کو کل ہندستان سمجھ لیتے ہیں۔ اس بنا پر ان کا تجزیہ بھی نا درست ہوتا ہے اور ان کا پیش کردہ حل بھی نا درست ۔
زیر بحث مسئلہ کا ایک اہم ترین عملی پہلویہ ہے کہ یہ ملک دو مختلف حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک شمالی ہند، اور دوسرے جنوبی ہند ۔ پچھلی نصف صدی کی تاریخ بتاتی ہے کہ جتنے بھی فرقہ وارانہ جھگڑے ہوتے ہیں، وہ سب کے سب شمالی ہند میں ہوتے ہیں۔ جنوبی ہند میں اس قسم کا کوئی جھگڑا نہیں ہوتا۔ اگر کبھی اتفاق سے کوئی فرقہ وارانہ جھگڑا جنوب کے علاقہ میں ہوا ہے ، تو وہ شمالی ہند کے لوگوں ہی کا پیدا کردہ تھا جو کسی وجہ سے وہاں پہنچے گئے۔ خود جنوبی ہند کے لوگوں نے کبھی اس قسم کا کوئی جھگڑا بر پا نہیں کیا۔ جب کہ وہ تمام فرقے جنوبی ہند میں بھی موجود ہیں جو شمالی ہند میں موجود ہیں۔ اور وہ تمام گروہی فرق وہاں بھی پائے جاتے ہیں ، جو یہاں پائے جاتے ہیں ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ شمالی ہند میں ہم جس مسئلہ کو حل کرنے کی باتیں کرتے ہیں، وہ جنوبی ہند میں عملاً حل شدہ ہے، جب ایسا ہے تو سب سے پہلے ہمیں ملک کے دونوں علاقوں کے فرق کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ موجودہ صورت حال میں ہمیں اس کے سوا اور کچھ نہیں کرنا ہے کہ جنوبی ہند کو شمالی ہند تک وسیع کر دیں۔ جو کچھ ملک کے ایک حصہ میں جاری ہے ، اس کو ملک کے دوسرے حصہ میں جاری کر دیں۔
راقم الحروف نے جنوبی ہند کے کئی سفر کیے ہیں اور اس مسئلہ کو تفصیل کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ میرا حاصل مطالعہ یہ ہے کہ اس فرق کی وجہ بالکل سادہ ہے۔ جنوبی ہند کے لوگوں میں تحمل (Tolerance) ہے ، جب کہ شمالی ہند کے لوگوں میں تحمل نہیں۔ جنوبی ہند کے لوگ اختلاف کے باوجود ایک دوسرے سے ٹکراؤ نہیں کرتے۔ جب کہ شمالی ہند کے لوگوں کا حال ہے کہ اختلاف کا کوئی واقعہ سامنے آتے ہی وہ فورا ًٹکراؤ کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جنوبی ہند کا مزاج تحمل ہے ، اور شمالی ہند کا مزاج عدم تحمل ۔ یہی وہ فرق ہے جس نے دونوں علاقوں کے درمیان یہ فرق پیدا کر دیا ہے کہ شمالی ہند میں فرقہ وارانہ جھگڑے زندگی کا معمول بن گئے ہیں ، جب کہ جنوبی ہند میں فرقہ وارانہ جھگڑوں کا سرے سے کوئی وجود نہیں۔
اوپر کی مثال ایک عملی واقعہ کی صورت میں بتاتی ہے کہ فرقہ وارانہ مسئلہ کا حل کیا ہے۔ وہ حل یہ ہے کہ لوگوں کے اندر یہ مزاج بنایا جائے کہ وہ فرقہ وارانہ اختلاف کے باوجود فرقہ وارانہ اتحاد کے ساتھ زندگی گزاریں ۔ جو صورت حال آج بھی ملک کے ایک حصہ میں قائم ہے ، وہی صورت حال ملک کے دوسرےحصہ میں قائم کر دی جائے ۔
حقیقت یہ ہے کہ فرقہ وار انہ مسئلہ کا حقیقی اور پائدار حل صرف ایک ہے ۔ اور وہ یہ کہ لوگوں کی سوچ کو درست کیا جائے ۔ ہمارے ملک کا یا دوسرے لفظوں میں شمالی ہند کا ، اصل مسئلہ یہ ہے کہ مختلف اسباب سے یہاں کے لوگوں کی سوچ بگڑ گئی ہے ۔ یہی جڑ کی بات ہے ۔ اور اس جڑ پر عمل کر کے ہی فرقہ وارانہ مسئلہ اور دوسرے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔
کسی سماج میں مختلف فرقوں کا ہونا بالکل فطری بات ہے ، وہ ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ باقی رہیں گے۔ ہمارے موجودہ سماج کی اصل برائی خود فرقوں کی موجودگی نہیں ، بلکہ مختلف فرقوں کے در میان تحمل (Tolerance) کی غیر موجودگی ہے۔ فرقہ واریت کا مسئلہ عدم تحمل کا پیدا کردہ ہے، نہ کہ خود فرقوں کی موجودگی کا پیدا کردہ ۔
برداشت کی ضرورت
سماج میں مختلف سطحوں پر فرق اور اختلاف کا ہونا بالکل لازمی ہے۔ آپ سماج کے اوپریکسانیت کا بلڈوزر نہیں چلا سکتے۔ روسی ڈکٹیٹر اسٹالن نے اپنے ملک میں بے طبقاتی سماج (Classless society) قائم کرنے کے لیے ۲۵ ملین انسانوں کو پیس ڈالا۔ پھر بھی وہ بے طبقاتی سماج بنانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ پھر آپ اس ناممکن کام کو کس طرح ممکن بنا سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلہ کا قابلِ عمل حل صرف یہ ہے کہ لوگوں کے اندر تحمل کا مزاج اور ایک دوسرے کو برداشت کرنےکا جذبہ پیدا کیا جائے۔ انھیں اختلاف میں اتحاد (Unity in diversity) کا سبق دیا جائے۔ قومی اتحاد ہم کو اختلاف کے باوجود قائم کرناہے نہ کہ اختلاف کے بغیر۔ کیونکہ وہ ممکن ہی نہیں ۔
قوم کے افراد کے اندر تحمل کا مطلوبہ مزاج پیدا کرنے کے لیے ہمیں وہی عمل کرنا ہے جس کو فیبین سوسائٹی نے نفوذ کرنے (Permeation) سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی شعور کو بدلنے کی مہم جاری کر کے لوگوں کے ذہنوں میں گھسنا اور ان کو اندر سے اس طرح بدل دینا کہ ان کے سوچنے کا ڈھنگ وہ ہو جائے جو کہ دراصل ہونا چاہیے ۔
قومی اتحاد اور قومی یک جہتی کا لفظ تو اس ملک میں پچھلی نصف صدی سے بولا جارہا ہے ،اگر اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کوئی حقیقی کام مطلق نہیں کیا گیا۔ یہ یقینی ہے کہ کانفرنس کرنا، یا پلے کارڈ لے کر سڑکوں پر مارچ کرنا وہ کام نہیں جس سے یہ مقصد حاصل ہو سکتا ہو۔ اس کام کے لیے شعور کی تربیت کی ایک طویل اور مسلسل مہم درکار ہے ، مگر قومی اتحاد کا نعرہ لگانے والوں میں سے کوئی بھی اب تک اپنے آپ کو اس کام کے لیے فارغ نہ کر سکا۔
مثال کے طور پر صحافت اس ذہنی انقلاب کو لانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ آج ہمارے ملک میں ہزاروں کی تعداد میں اخبار اور رسالے نکل رہے ہیں۔ مگر ان میں سے کوئی ایک بھی اخبار یا رسالہ نہیں جو اس مقصد کے لیے وقف ہو۔ ہمارے تمام اخبار حقیقۃً سیاسی اخبار ہیں۔ اس کے بعد جو ہفت روزه ، پندرہ روزہ یا ماہنامے ہیں وہ سنسنی خیز مضامین چھاپ کر سستی تجارت کرنے کے سوا کچھ اور نہیں جانتے۔ شعور سازی کے اداروں کا جب یہ حال ہو تو وقتی اپیل جاری کرنے سے کیا فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
راقم الحروف پچھلے ۲۵ سال سے اپنے آپ کو تعمیری صحافت کو وجود میں لانے کے لیے وقف کیے ہوئے ہے۔ ماہنامہ الرسالہ (اُردو اور انگریزی میں) ملک کا واحد ماہنامہ ہے جو تعمیرِ شعور کا کام کر رہا ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ کام اس سے زیادہ بڑا ہے کہ ایک یا دو ما ہنا مہ اس کو انجام دے سکے۔
رہنماؤں کی ذمہ داری
حقیقت یہ ہے کہ عوام کو بدلنے کے لیے سب سے پہلے عوام کے رہنماؤں کو بدلنا ہے۔ ہماری قوم کے جو لکھنے اور بولنے والے ہیں ، جن کو سن کر اور پڑھ کر لوگ اپنی رائیں بناتے ہیں، ان کی ایک فی صد تعداد بھی اگر اس قربانی پر آمادہ ہو جائے جو پہلی عالمی جنگ اور دوسری عالمی جنگ کے درمیان انگلینڈ کے فیبین لوگوں نے دی تھی۔ تو یقینی طور پر ہمارے ملک کا نقشہ بدل سکتا ہے۔
یہ لوگ یہ طے کر لیں کہ وہ سستی شہرت اور سستی تجارت کے راستہ کو چھوڑ کر خاموش تعمیری کام میں اپنے آپ کو وقف کریں گے۔ وہ قوم کے اندر مثبت ذہن اور تعمیری مزاج بنانے میں اپنے زبان و قلم کی ساری طاقت خرچ کر دیں گے۔ اور اس کام کو مسلسل جاری رکھیں گے ، یہاں تک کہ اسی پر ان کی موت آجائے۔ اگر ہماری قوم کے ذہین طبقہ کا ایک فی صد حصہ بھی یہ عزم کرلے تومجھے یقین ہے کہ اس کا عزم ہمارے ملک کی تاریخ کو بدل سکتا ہے۔
پنڈت موتی لال نہرو سے کسی نے ایک بار پوچھا کہ جس آزادی کے لیے آپ کوشش کر رہے ہیں ، وہ آزادی کب آئے گی۔ انھوں نے جواب دیا کہ میں آزادی کا وقت تو نہیں جانتا، مگر میں یہ جانتا ہوں کہ اگر میں نے اس راہ میں اپنی جان دے دی تو میری لاش پر آزادی کا محل تعمیر ہو کر رہے گا۔
میں کہوں گا کہ ہمارے ملک کا دانشور طبقہ اگر تربیت ِشعور (Consciousness raising) کی مہم میں اپنے کو فنا کرنے کا عزم کر لے تو ہو سکتا ہے کہ وہ خود اپنے لیے کچھ نہ پاسکے، مگریہ یقینی ہے کہ اس کی قربانی قوم کو نئی زندگی دینے کا سبب بن جائے گی۔
چھوٹا کام
تعمیرِ قوم کا کام تعمیرِ ذہن سے شروع ہوتا ہے، یہ ایک نہایت واضح بات ہے۔ یہ اتنی کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ اس کو سمجھنا کسی کے لیےمشکل نہیں ہو سکتا۔ اس کے با وجود کیا وجہ ہے کہ آج کوئی شخص نہیں جو اس اہم ترین کام میں اپنے آپ کو مصروف کیے ہوئے ہو ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرے کام جن میں لوگ مصروف ہیں، وہ کہنے اور سننے میں بڑے کام معلوم ہوتے ہیں۔ وہ فوراً اخبار میں چھپتے ہیں۔ ان کے ذریعہ صبح و شام میں آدمی کو شہرت و مقبولیت حاصل ہو جاتی ہے۔ یہی خاص وجہ ہے جس کی بنا پر تمام حوصلہ مند افراد جوق در جوق ان کاموں کی طرف دوڑے چلے جارہے ہیں۔ اور تعمیرِ شعور کا میدان بالکل خالی پڑا ہوا ہے۔
تعمیر شعور کا کام بظاہر ایک چھوٹا کام معلوم ہوتا ہے۔ وہ اخباروں میں نمایاں نہیں ہو تا۔ اس کے نام پر بھیڑ جمع نہیں ہوتی۔ اس کی اپیل پر بڑے بڑے چندے نہیں ملتے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اس کام کی اہمیت کو جانتے ہوئے بھی اس کی طرف راغب نہیں ہوتے ۔
اگر قوم کے اندر چند ایسے افراد پیدا ہو جائیں جو اعلیٰ صلاحیت رکھتے ہوں، اور اسی کے ساتھ وہ اس بات کا ثبوت دیں کہ وہ چھوٹے کام کو بڑا کام سمجھنے کا حوصلہ ر کھتے ہیں تو اس کے فوراً بعدملک و قوم کے مستقبل کی تعمیر کاکام شروع ہو جائے گا، اور جب ایک صحیح کام شروع ہو جائے تو وہ لازماً اپنی منزل پر پہنچ کر رہتا ہے۔ راستہ کی کوئی بھی چیز اس کو روکنے والی نہیں ۔
احتساب غیر، احتساب خویش
آج ہمارے تمام اخبارات اور تمام جلسے ، خواہ وہ ہندوؤں کے ہوں یا مسلمانوں کے ،سیاسی باتوں سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے لوگوں کو سیاسی موضوعات کے سوا کسی اورموضوع پر کچھ کہنا آتا ہی نہیں۔
یہ صورت حال در اصل خود لکھنے اور بولنے والوں کی اپنی کمزوری پر مبنی ہے۔ سیاست کے موضوع پر کلام کرنا گویا دوسروں کے خلاف کلام کرنا ہے، اور تعمیر کے موضوع پر کام کرنا خود اپنے خلاف کام کرنا۔ سیاسی موضوعات میں خارجی پارٹیاں ، خارجی شخصیتیں ، خارجی واقعات زیر ِبحث آتے ہیں۔ اس کے برعکس تعمیری موضوعات میں داخلی مسائل اور اندرونی کمزوریاں زیر بحث لائی جاتی ہیں۔ سیاسی موضوع پر بولنا دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانا ہے ، تعمیری موضوع پر بولنا اپنے آپ کو ذمہ دار ٹھہرانا۔ ایک لفظ میں، سیاست دوسروں کا احتساب ہے اور تعمیر خود اپنا احتساب ۔ اور یہ معلوم بات ہے کہ دوسروں کا احتساب آدمی کے لیے سب سے زیادہ محبوب چیز ہے اور اپنا احتساب آدمی کے لیے سب سے زیادہ مبغوض چیز۔
لیکن اگر ملک کو ترقی کی طرف لے جانا ہے تو ہمارے لکھنے اور بولنے والوں کو لازما ً یہی مبغوض کام کرنا پڑے گا۔ اس کے سوا مستقبل کی تعمیر کی کوئی اور صورت ممکن نہیں۔