جنگ اور امن اسلامی نقطہ ٔنظر سے

قرآن میں ہے کہ تم یکسو ہو کر اپنا رخ اس دین کی طرف کر لو ، اللہ کی فطرت جس پر اس نے لوگوں کو بنایا ہے ، اس کے بنانے کو بدلنا نہیں ہے ، یہی سیدھا دین ہے (الروم ۳۰ )

یہی بات حدیث میں ان لفظوں میں کہی گئی ہے کہ ہر انسان جو اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے وہ صحیح فطرت پر پیدا ہوتا ہے ۔كُلُّ ‌مَوْلُودٍ ‌يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ(صحیح البخاری۔ 1385) وہ اس ابدی فطرت کے عین مطابق ہے جو ہر انسان کے اندر پیدائشی طور پر موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات میں اور عقلِ عام (Common sense) میں کوئی ٹکراؤ نہیں۔

انسان اپنی فطرت کے تقاضے کے تحت چاہتا ہے کہ دنیا میں امن ہو ۔ امن ہر آدمی کی پہلی خواہش ہے ۔ فطرت کی آواز امن کی آوازہے۔ کیوں کہ امن کے بغیر ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہر آدمی کو یکساں طور پر عمل کرنے کے مواقع حاصل ہوں۔ عقیدہ اور نظریہ کے اختلاف کے باوجود سوسائٹی میں پر امن  فضابرقرار رہے۔

انسانی فطرت کا یہ تقاضا اسلام کا تقاضا بھی ہے۔ اس معاملہ میں یہی اسلامی تعلیمات کا خلاصہ ہے ۔ قرآن میں ہے کہ خدا بے امنی کو پسند نہیں کرتا ( البقرہ ۲۰۵ ) خدا کو وہ لوگ پسند نہیں جو انسانی سماج کے اندر بگاڑ پیدا کرنے والے ہوں (المائدہ ۶۴)

فساد فی الأرض

اسلام کا تصورِ امن یہ ہے کہ زمین کا نظام ابتدائی مرحلہ میں خالق نے جس طرح قائم کیا ہے اس کو ویسا  ہی قائم رکھا جائے۔ اس میں کوئی فرق نہ کیا جائے۔ اس خدائی بندوبست میں گڑ بڑ کرنا، اسی کا نام فساد فی الارض ہے (ہو د:  ۱۱۶)

اس فساد فی الا رض کے دو خاص پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ زمین پر خدا نے تقسیمِ رزق کا جو نظام بنایا ہے اس میں کوئی فرق پیدا نہ کیا جائے۔ مثلاً ایک دریا جس وسیع رقبۂ زمین پر بہتا ہے ، اس رقبہ کے تمام لوگوں کو اس سے فائدہ اٹھانے کا یکساں حق حاصل ہے۔ اگر کچھ لوگ بند بنا کر پانی کو اپنے لیے     خاص کر لیں اور اسے دوسروں تک پہنچنے نہ دیں تو یہ فساد فی الأرض ہو گا۔ اسی طرح اگر ایک ایک اپنی صنعتی سرگرمیوں کے ذریعہ ہوا میں گیسوں کے تناسب کو بدل دے اور لوگوں کو سانس لینے کے لیے     ضروری مقدار میں آکسیجن نہ ملے تو یہ بھی فساد فی الارض ہو گا۔ اسی طرح ایسا اقتصادی نظام جو دولت کی گردش کو یک طرفہ کر دے یا اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کے نتیجہ میں مصنوعی قلت پیدا ہو جائے ، یا جنگی جنون کے نتیجہ میں زمین کی دولت کا بڑا حصہ انسانی تعمیر کے بجائے انسانی تخریب میں استعمال ہونے لگے ، تو یہ سب فساد فی الارض ہے، وغیرہ۔

عالمی نمونۂ عمل

اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسانی دنیا کے نظام کو طبیعی دنیا کے نظام کے مطابق ہونا چاہیے    ۔ طبیعی دنیا کا نظام براہ راست خدا کا مقرر کیا ہوا ہے۔ وہ ربانی معیار پر قائم ہے۔ دوسری طرف انسانی دنیا کا نظام خود انسان اپنے ارادہ سے قائم کر تا ہے ۔ یہاں انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنی زندگی کے نظام کو طبیعی دنیا کے نمونہ پر قائم کرے ۔ طبیعی دنیا کے نمونہ کی پیروی کا نام اصلاح ہے اور اس سے انحراف کا نام فساد ۔ اس کی ایک مثال ستاروں کا نظام ہے ۔ خلا میں بے شمار ستارے ہیں۔ وہ سب کے سب حرکت کر رہے ہیں۔ مگر یہ تمام ستارے ہمیشہ اپنے مدار پر حرکت کرتے ہیں۔ وہ اپنے دائرہ سے نکل کر دوسرے دائرہ میں داخل نہیں ہوتے۔ یہی وہ بات ہے جو قرآن میں ان لفظوں میں کہی گئی ہے کہ اور سورج ، وہ اپنی ٹھہری ہوئی راہ پر چلتا رہتا ہے۔ یہ عزیز و علیم کا باندھا ہوا اندازہ ہے۔ اور چاند کے لیے     ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں، یہاں تک کہ وہ ایسا رہ جاتا ہے جیسے کھجور کی پرانی شاخ ۔ نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو پکڑ لے اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے۔ اور سب ایک ایک دائرہ میں تیر رہے ہیں ۔ (سورہ یٰسٓ: ۳۸ - ۴۰)

خلا میں لاتعداد چھوٹے بڑے ستارے ہیں۔ مگر ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار (Orbit) پر گھومتا ہے۔ کوئی ستارہ دوسرے ستارہ کی حد میں مداخلت نہیں کرتا۔ یہ گویا خدا کی طرف سے مقرر کیا ہوا ایک نمونہ ٔعمل (Role-model) ہے ۔ انسان کو چاہیے     کہ وہ بھی اسی نمونہ پر عمل کرے۔ ایک انسان دوسرے انسان کی زندگی میں دخل اندازی کئے بغیر اپنی پوری زندگی کا سفر جاری رکھے۔

 یہی وہ بات ہے جو حدیث میں اس طرح کہی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ نے میری طرف وحی کی ہے کہ تم لوگ تواضع اختیار کرو۔ یہاں تک کہ ایک شخص دوسرے شخص پر فخر نہ کرے ، اور ایک شخص دوسرے شخص پر زیادتی نہ کرے (إِنَّ اللَّهَ أَوْحَى إِلَيَّ: ‌أَنْ ‌تَوَاضَعُوا ‌حَتَّى ‌لَا ‌يَفْخَرَ أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ وَلَا يبغيَ أحدٌ على أحد ، مشكوٰة المصابيح، 4898)

جبر و اکراہ نہیں

قرآن میں اجتماعی زندگی کے بارے   میں جو احکام دیے گئے ہیں ، ان میں سے ایک اہم حکم عدم  اکراہ ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی کسی پر جبر نہ کرے، کوئی کسی کو اس کی ناپسندیدہ چیز کو اختیار کرنے پر مجبور نہ کرے۔ قرآن میں اس سلسلے میں بنیادی اصول کے طور پر کہا گیا ہے کہ :لَآ ‌إِكۡرَاهَ فِي ٱلدِّينِۖ۔البقرة: 256 (دین کے معاملہ میں زبر دستی نہیں)

اکراہ نہ کرنے کا یہ اصول یک طرفہ نہیں ہے بلکہ دو طرفہ ہے ۔ یہی اصول داعی کے لیے     ہے ، اور یہی اصول مدعو کے لیے۔ اسی اصول کی پابندی ہر انسان کو کرنی ہے ، خواہ وہ ایک مذہب یا نظام سے تعلق رکھتا ہو یا دوسرے مذہب اور نظام سے ۔ اس کی تائید میں یہاں دومثالیں قرآن سے نقل کی جاتی ہیں۔

قرآن میں ایک پیغمبر( حضرت شعیبؑ )کی دعوتی مہم کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ان کی قوم نے ان کی دعوت کے جواب میں کس قسم کا ردِّعمل پیش کیا۔ ارشاد ہوا ہے کہ ان کی قوم کے بڑے ، جو متکبر تھے ، انھوں نے کہا کہ اے شعیب، ہم تم کو اور ان لوگوں کو جو تمہارے ساتھ ایمان لائے ہیں ، اپنی بستی سے نکال دیں گے ، یا تم ہماری ملت میں واپس آجاؤ ۔ شعیب نے کہا، کیا ہم اس کونا پسند کر تے ہوں تب بھی (الاعراف ۸۸)

پیغمبر کا یہ جواب بتاتا ہے کہ پیغمبر نے اصولاً اس کو درست نہیں قرار دیا کہ ان کی قوم کے لوگ انھیں اپنے دین (شرک ) کو اختیار کرنے پر مجبور کریں۔ پیغمبر اپنی قوم کو یہ حق دینے کے لیے     تیار تھا کہ وہ اس کے سامنے اپنا دین پیش کریں ، جس طرح خود پیغمبر اپنا دین ان کے سامنےپیش کر رہا تھا۔ مگر وہ انھیں یہ حق دینے کے لیے     تیار نہ تھا کہ وہ "تبلیغ "سے تجاوز کر کے "اکراہ "کے دائرہ میں داخل ہو جائیں ۔ وہ کہنے سننے سے آگے بڑھ کر ان پر جبر کرنے لگیں۔

اس معاملہ کا دوسرا پہلو وہ ہے جو حضرت نوح ؑکے تذکرہ کے ذیل میں بیان ہوا ہے۔ حضرت نوح نے اپنی قوم کے سامنے تو حید کی دعوت پیش کی۔ قوم کے بڑوں نے آپ کی دعوت کوماننے سے انکار کیا۔ اس کے بعد حضرت نوح نے کہا کہ اے میری قوم ، بتاؤ، اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل پر ہوں ۔ اور اس نے مجھ پر اپنے پاس سے رحمت بھیجی ہے ، مگر وہ تم کو نظر نہیں آتی تو کیا ہم تم کو اس پر مجبور کر سکتے ہیں ، جب کہ تم اس کو ناپسند کر رہے ہو (ہود ۲۸)

پیغمبر کا یہ جواب جو قرآن میں نقل کیا گیا ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اگرچہ اپنے آپ کو صد فی صد بر سرِحق سمجھتا تھا ، اس کے باوجود اس کے نزدیک یہ درست نہ تھا کہ وہ دوسروں کو اپنی بات ماننے پر مجبور کرے۔

قرآن کے مطابق اکراہ (مجبور کرنا) ہر حال میں قابل ترک ہے۔ نہ داعی اور مصلح کو یہ حق ہے کہ وہ مدعو کو اپنی بات ماننے پر مجبور کرے اور نہ مدعو یہ حق رکھتا ہے کہ وہ داعی کو اپنے جبر کا نشانہ بنائے ۔ دونوں فریقوں کے لیے     ایک ہی صحیح پالیسی ہے اور وہ رواداری (Tolerance) ہے۔ یعنی دونوں کو اپنی بات کے اظہار کا پوراحق ہے۔ مگر دونوں میں سے کسی کو بھی جبر کا کوئی حق نہیں۔ کوئی شخص اپنی بات کو منوانے کے لیے     اول و آخر جو چیز استعمال کر سکتا ہے وہ دلیل ہے نہ کہ عملی جبر یا دباؤ۔

جنگ برائے دفاع

اسلام میں جنگ کی صرف ایک قسم ہے ، اور وہ دفاع (Defense) ہے۔ جارحانہ جنگ کسی بھی حال میں اسلام کے اندر جائز نہیں۔ قرآن میں ہے کہ ––––––  وہ لوگ کہ جب ان پر چڑھائی ہوتی ہے تو وہ بدلہ لیتے ہیں۔ اور برائی کا بدلہ ہے ویسی ہی برائی ۔ پھر جس نے معاف کر دیا اور اصلاح کی تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔ بیشک وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ اور جو شخص اپنے مظلوم ہونے کے بعد بدلہ لے تو ایسے لوگوں کے اوپر کچھ الزام نہیں۔ الزام صرف ان پر ہے جو لوگوں کے اوپر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے     درد ناک عذاب ہے ۔ اور جس شخص نے صبر کیا اور معاف کر دیا تو بے شک یہ ہمت کے کام ہیں ( الشوری ۳۹ – ۴۳)

اسلام میں جنگ کی حیثیت ایک ناگزیربرائی Necessary evil)) کی ہے۔ دوسروں کی طرف سے جارحیت پیش آنے کے بعد بھی اگر صبر اور اعراض اور گفت و شنید کے ذریعہ امن قائم کرنے کی امید ہو تو جنگ کے بدلے جنگ نہیں کی جائے گی۔ بلکہ صبر و اعراض اور گفت و شنید کے ذریعہ منصفانہ حل تک پہنچنے کی کوشش کی جائے گی۔ اسلام میں جنگ صرف اس وقت ہے جب کہ جنگ کے سوا کوئی اور چارۂ کا رسرے سے باقی نہ رہے۔

پیغمبر اسلام کے زمانے میں آپ کے خلاف ہر قسم کی جارحیت کی گئی ۔ مگر آپ نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ جنگ کو اوائڈ (Avoid) کریں۔ آپ کی پوری قولی اور عملی زندگی اسی اصولِ اعراض(Principle of avoidance) کا نمونہ ہے۔

مثلاً  حدیبیہ (۶ ھ) کے سفر میں خالد بن الولید ایک فوج لے کر آپ سے لڑنے کے لیے     مکہ سے روانہ ہوئے۔ جب آپ کو یہ خبر معلوم ہوئی تو آپ نے اپنے ساتھیوں کو جوابی تیاری کا حکم نہیں دیا بلکہ سادہ طور پر اپنا راستہ بدل دیا تا کہ دونوں فریقوں کے درمیان ٹکراؤ کی نوبت ہی نہ آئے ۔ اسی طرح غزوۂ احزاب (۵ ھ ) کے موقع پر آپ کے مخالفین بہت بڑا لشکر لے کر آئے تاکہ مدینہ پر حملہ کریں۔ آپ کو دشمن کی روانگی کی خبرملی تو یہاں بھی آپ نے جوابی مقابلہ کا اہتمام نہیں کیا۔ اس کے برعکس آپ نے یہ کیا کہ مدینہ کی سرحدوں پر لمبی خندق کھود دی تاکہ آپ کے اور آپ کے دشمنوں کے درمیان ایک آڑقا ئم ہو جائے اور دونوں فریقوں کے درمیان جنگ کی نوبت نہ آئے۔ حدیبیہ (۶ھ) کے موقع پر آپ کے حریف قریش آپ سے لڑنے کے لیے     تیار تھے ۔ اس مقصد کے لیے     انھوں نے ہر قسم کی اشتعال انگیزی اور جارحیت کی۔ مگر آپ سب کچھ یک طرفہ طور پر برداشت کرتے رہے اور قریش پر کوئی جوابی حملہ نہیں کیا۔ آخر میں آپ نے خود قریش کی یک طرفہ شرائط کے تحت دس سالہ نا جنگ معاہدہ پر دستخط کر دیے۔

پیغمبر کا اسوہ

پیغمبرا سلام ۶۳  سال تک دنیا میں رہے ۔ آپ کی پیغمبرانہ عمر ۲۳ سال تھی ۔ اس مدت میں آپ کے خلاف مسلسل طور پر بدترین قسم کی اشتعال انگیزی اور جارحیت کی گئی ۔ مگر اس پوری مدت میں آپ نے ایک بار بھی اپنے مخالفین کے اوپر جارحانہ حملہ نہیں کیا۔ آپ نے اپنی پوری زندگی میں براہ راست طور پر صرف تین بار جنگ کی ہے، اور یہ تینوں جنگیں یقینی طور پر مدافعانہ تھیں  ––––––  بدر (۲ ھ ) اُحد (۳ھ) اور حُنین (۸ھ) صرف یہی تین جنگیں ہیں جن میں آپ نے براہِ راست شرکت فرمائی۔ مگر یہ تینوں جنگیں وہ تھیں جن میں خود آپ کے مخالفین آپ کے اوپر حملہ آورہوئے تھے۔ چوں کہ ان تینوں مواقع پر مدافعت کے سوا اور کوئی صورت نہ تھی اس لیے     آپ نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ان کا مقابلہ کیا۔

اسلام میں امن ہے مگر جنگ نہیں ،اسلام میں مدافعت ہے مگر جارحیت نہیں۔ اسلام میں رواداری ہے مگرتشدد نہیں۔ اسلام انسان کو دار السلام (سلامتی کے گھر )کی طرف لے جانا چاہتا ہے ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی : وَٱللَّهُ يَدۡعُوٓاْ إِلَىٰ ‌دَارِ ‌ٱلسَّلَٰمِ (یونس  ۲۵)

فطرت کے مطابق

ماسکو سے نکلنے والے انگریزی ماہنامہ اسپٹنک (Sputnik) کے شمارہ نومبر ۱۹۸۶ میں ایک مضمون چھپا ہے۔ اس میں ایک چھوٹے سے واقعہ کا ذکر ہے جو بہت سبق آموز ہے۔

 اس میں بتایا گیا ہے کہ سوویت یونین کے سابق پریسیڈنٹ یوری اینڈروپوف Yuri Andropove)) ۱۹۸۳ میں امریکہ گئے ۔ جب وہ وہاں ایر پورٹ پر اترے تو ان کا استقبال کرنے والوں میں ۱۱ سال کی ایک امریکی لڑکی بھی تھی ۔ اس کا نام سمنتھا اسمتھ (Samantha Smith) تھا۔ وہ اپنے والدین کے ساتھ ایر پورٹ پر پہنچی تھی۔ وہ روسی صدرسے ملی اور اپنے معصومانہ انداز میں ان سے کہا کہ آپ جنگ چاہتے ہیں یا امن :

Are you for war or peace?

روسی صدر پر چھوٹی بچی کے اس سادہ جملہ کا بہت اثر ہوا۔ واپس لوٹنے کے بعد بھی وہ اس کو بھلا نہ سکے۔ جلد ہی بعدسمنتھا اسمتھ کو روسی صدر کا ایک خط ملا جس میں اس کو حکومتِ روس کے مہمان کی حیثیت سے سوویت روس کا سفر کرنے کی دعوت دی گئی تھی ۔ اس کے مطابق جون ۱۹۸۳ میں سمنتھا اسمتھ نے سوویت روس کا سفر کیا۔ سوویت روس کے دو ہفتہ دورہ کے بعد سمنتھا  اسمتھ نے اپنا تاثر بیان کرتے ہوئے کہا کہ اب میں مطمئن ہوں کہ روسی جنگ نہیں چاہتے :

Now I'm sure-the Russians don't want war.

یہ چھوٹا سا واقعہ اپنے اندر ایک زبر دست سبق رکھتا ہے ۔ وہ بتاتا ہے انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے امن چاہتا ہے۔ ۱۱ سال کی ایک بچی جو ابھی اپنی ابتدائی فطرت پر تھی۔ جو ابھی مصنوعی تمدن کے اثرات سے آزاد تھی، اس کا مذکورہ سوال در حقیقت فطرت کا سوال تھا۔ اس کی فطرت ایک ایسی دنیا سے مطابقت نہیں کر پا رہی تھی جہاں جنگ کے نعرے ہوں، جہاں گولی کی منطق سے معاملات کا فیصلہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہو ۔ جہاں انسان اپنے جان و مال کو محفوظ نہ پاتا ہو ۔ اسی نفسیات کے تحت اس نے روسی صدر سے مذکورہ سوال کیا۔

 اسلام در حقیقت انسانی فطرت کی اسی پکار کا جواب ہے ۔ جس خدا نے انسان کےاندر امن پسند فطرت بنائی ہے ، اسی خدانے دین اسلام بھی اتارا ہے جو سراسر امن و سلامتی کا مذہب ہے۔ اسی حقیقت کو قرآن میں ان لفظوں میں بتایا گیا ہے کہ اللہ امن وسلامتی کےگھر کی طرف بلاتا ہے ۔

خدا یہ چاہتا ہے کہ انسان دنیا میں امن و سلامتی کے ساتھ زندگی گز ارے ، تاکہ آخرت میں اس کو ابدی امن وسلامتی کے باغوں میں بسایا جائے۔ آخرت کی پُر امن دنیا انھیں لوگوں کے لیے     ہے جنھوں نے موجودہ دنیا میں پر امن رہنے کا ثبوت دیا ہو۔ کسی مؤمن کے لیے     یہ سب سے بڑا محرک ہے جو اس کو مجبور کرتا ہے کہ وہ موجود ہ  دنیا میں لوگوں کے ساتھ پر امن بن کر رہے۔ وہ دوسروں کے لیے     مسئلہ پیدا کئے بغیر اپنا مسئلہ حل کرے۔

عُمَر وَنَشْرُ اَلدَّعْوَةِ اَلْإِسْلَامِيَّةِ

عَمِلَ عُمَرُ جُهْدَهُ وَصَرَفُ عِنَايَتَهُ عَلَى نَشْرِ اَلدَّعْوَةِ اَلْإِسْلَامِيَّةِ بِتَبْلِيغِهَا لِلنَّاسِ وَدَعْوَتِهِمْ إِلَيْهَا بِالْحُسْنَى ، فَصَارَ يُرْسِلُ إِلَى اَلْقَادَةِ وَإِلَى اَلْأُمَرَاءِ وَالْحُكُومَاتِ يَدْعُوهُمْ إِلَى اَلْإِسْلَامِ ، وَيُرْسِلُ اَلْفُقَهَاءَ لِدَعْوَةِ اَلنَّاسِ وَتَعْلِيمِهِمْ اَلدِّينَ اَلصَّحِيحَ وَحَقِيقَةَ اَلتَّوْحِيدَ ، وَقَدْ أَتَى ذَلِكَ ثِمَارَهُ وَدَخَلَ اَلنَّاسُ فِي دِينِ اَللَّهِ أَفْوَاجًا ، فَوَضَعَ عُمْرُ اَلْجِزْيَةَ عَمَّنْ أَسْلَمَ ، فَكَانَ ذَلِكَ دَافِعًا لِدُخُولِ اَلنَّاسِ فِي اَلدِّينِ اَلْجَدِيدِ حِينَ عَلِمُوا صَفَاءَهُ وَنَقَاءَهُ ، وَأَنَّهُ لَا يُرْهِقُ اَلنَّاسَ وَلَا يَبْخَسُهُمْ حَقَّهُمْ ، وَلَقَدْ لَامَهُ بَعْضُ عُمَّالِ اَلْأَقَالِيمِ عَلَى سِيَاسَةِ وَضْعِ اَلْجِزْيَةِ ، وَلَكِنَّ عُمَرَ يُجَابِهُهُ بِالْقَوْلِ اَلْفَصْلِ : " ضَعِ اَلْجِزْيَةَ عَمَّنْ أَسْلَمَ قَبَّحَ اَللَّهُ رَأْيَكَ ؛ فَإِنَّ اَللَّهَ إِنَّمَا بَعَثَ مُحَمَّدًا - صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - هادياً، ‌وَلَمْ ‌يَبْعَثْهُ جَابِيًا ، وَلَعَمْرِي لَعُمَرُ أَشْقَى مِنْ أَنْ يَدْخُلَ اَلنَّاس كُلُّهُمْ فِي اَلْإِسْلَامِ عَلَى يَدَيْهِ "

وَفِي خُرَاسَانَ أَقْلَقَ بَعْضُ مَنْ لَهُمْ مَصَالِحُ خَاصَّةٌ دُخُولَ اَلنَّاسِ بِكَثْرَةٍ فِي اَلْإِسْلَامِ ، فَتَقَدَّمُوا إِلَى اَلْجَرَّاحِ عَامِلِهَا أَنْ يَمْتَحِنَ هَؤُلَاءِ اَلنَّاسَ بِالْخِتَانِ ؛ لِيَعْرِفَ رَغْبَتَهُمْ اَلْحَقِيقِيَّةَ ، فَنَقَلَ اَلْجَرَّاحُ ذَلِكَ إِلَى عُمَرٍ . فَرَدَّ عَلَيْهِ رَدٌّ حَاسِمٌ قَاطِعٌ : " إِنَّ اَللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا - صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - دَاعِيًا وَلَمْ يَبْعَثْهُ خَاتِنا " . وَتَأْتِي إِلَيْهِ رِسَالَةُ عَامِلِہ عَلَى اَلْبَصرَةِ اَلَّتِي يَقُولُ فِيهَا : " اَلنَّاسُ قَدْ كَثُرُوا فِي اَلْإِسْلَامِ وَخِفتُ أَنْ يَقِلَّ اَلْخَرَاجُ " . فَيُجِيبُهُ عُمَرٌ : " فَهِمتُ كِتَابَكَ ، وَاَللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنَّ اَلنَّاسَ كُلُّهُمْ أَسْلَمُوا حَتَّى نَكُونَ أَنَا وَأَنْتُمْ حَارِثُونَ نَأْكُل مِنْ كَسْبِ أَيْدِينَا " . وَتَوَسَّعَ عُمَرُ فِي دَعْوَتِهِ فَأَرْسَلَ اَلرَّسَائِلَ إِلَى جَمِيعِ مُلُوكِ اَلْأَرْضِ يَدْعُوهُمْ إِلَى اَلدُّخُولِ فِي اَلْإِسْلَامِ ، فَأَرْسَلَ إِلَى اَلْهِنْدِ وَإِلَى مَا وَرَاءَ اَلنَّهْرِ ، فَاسْتَجَابَ لَهُ خَلْقٌ كَثِيرٌ ، وَنَشِطَ عُمَّالُ اَلْوِلَايَاتِ حِينَ رَأَوْا هَذِهِ اَلرَّغْبَةَ مِنْ عُمَرِ حَتَّى أَنَّهُ  لَيُقَالُ: إِنَّهُ قَدْ دَخَلَ عَلَى يَدِ اَلْجَرَّاحِ عَامِلِہ عَلَى خُرَاسَانَ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعَةِ آلَافِ شَخْصٍ فِي اَلْإِسْلَامِ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom