ایک سفر
شیو گنج ، راجستھان کا ایک تاریخی قصبہ ہے۔ یہاں کے لیے میرا پہلا سفر غالباً ۱۹۷۶ میں ہوا تھا۔ اس کی روداد لکھی نہ جاسکی۔ دوسرا سفر فروری ۱۹۷۸ میں ہوا۔ اس سفر کی روداد الرسالہ اپریل ۱۹۷۸ میں شائع ہو چکی ہے۔
پہلے سفر کا ایک واقعہ مجھے اب تک یاد ہے۔ میں نے وہاں اپنے میزبان سے کہا کہ میں بالکل سادہ کھانا پسند کہتا ہوں ۔ اس کے بعد جب دستر خوان بچھایا گیا تو حسب معمول تمام دعوتی کھانے موجود تھے۔ اسی کے ساتھ دستر خوان کے ایک طرف میرے لیے "سادہ کھانا " بھی رکھا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر میں نے میزبان سے کہا کہ یہ تو میں نے آپ کو دہری زحمت دے دی۔ انھوں نے کہا کہ آپ کے ساتھ دوسرے لوگ جو دسترخوان پر ہیں ان کی رعایت کی بنا پر ایسا کیا گیا ہے۔
اس طرح کے چند تجربات کے بعد میں نے اپنا یہ معمول بنا لیا کہ سفر کے موقع پر سادہ کھانےکے بارے میں اپنی پسند کا ذکر نہ کروں ۔ اس کے بجائے اب میں ایسا کرتا ہوں کہ دستر خوان پر جب چیزیں رکھی جائیں، تو ان میں جو چیز نسبتاً سادہ ہو اس کو لے کر خاموشی سے اسے کھالوں۔ کیونکہ موجودہ حالت میں سادہ کھانے کی فرمائش کرنا میزبان کو دہرا مشقت میں مبتلا کرنا ہے۔
شیو گنج کے لیے میر اتیسر اسفر موجودہ سفر ہے جو جولائی ۱۹۸۹ کے آخری ہفتہ میں ہوا۔ اس سفر میں راجستھان کے کئی مقامات دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اور بہت سے مقامات کے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ اس طرح اس سفر کے دوران تقریباً پورے راجستھان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا موقع ملا۔
۲۷ جولائی ۱۹۸۹ کی شام کو دہلی سے روانگی ہوئی "آشرم سپر فاسٹ اکسپریس ۶ بج کر ۱۰ منٹ پر پلیٹ فارم نمبر ۱۷ سے روانہ ہوگی "اسٹیشن کے لاؤڈ اسپیکر سے اعلان ہوا۔ جیسے ہی گھڑی کی ایک سوئی ۶ پر تھی اور دوسری سوئی۱۰ ،پر حرکت شروع ہوئی اور گاڑی چلنے لگی۔ اب جو سوار تھا وہ اتر نہیں سکتا تھا، اور جو سوار نہیں تھا وہ چڑھ نہیں سکتا تھا۔
یہی وسیع تر زندگی کا معاملہ ہے۔ کبھی ایک شخص پیچھے لوٹنا چاہتا ہے، مگر وہ لوٹ نہیں سکتاکیوں کہ زمانہ کی رفتار آگے جا چکی۔ اسی طرح کبھی ایک شخص آگے جانا چاہتا ہے ، مگر وہ نہیں جاسکتا۔کیوں کہ وہ زمانےسے پیچھے رہ گیا۔
گاڑی تیزی کے ساتھ لوہے کی پٹڑی پر دوڑ رہی تھی ۔ میں نے سوچا کہ یہ پٹڑیاں اگرمٹی کی ہوں ، کیا تب بھی گاڑی اسی طرح دوڑے گی ۔ دل نے کہا کہ نہیں۔ پھر میری نظر دونوں طرف پھیلے ہوئے سرسبز درختوں کی طرف گئی۔ میں نے سوچا کہ ان درختوں کی جڑوں میں اگر مٹی کے بجائے لوہا ہو ، تب بھی کیا یہ درخت اسی طرح ہرے بھرے ہو کر کھڑے رہیں گے۔ دل نے دوبارہ کہا کہ نہیں ۔ گاڑی مٹی پر نہیں چل سکتی ۔ درخت لوہے پر نہیں اگ سکتا۔
یہ اس دنیا کے لیے خدا کا قانون ہے ۔ یہاں وہی شخص اپنی گاڑی تیز دوڑا سکتا ہے جس نے اس کےنیچے لوہے کی پٹڑیاں بچھائی ہوں۔ اسی طرح یہاں وہی شخص ہرے بھرے باغ کا مالک بن سکتا ہے جس نے اپنے درخت کو نرم مٹی میں اگایا ہو۔ اس دنیا میں ہر چیز کا ایک قانون ہے۔ یہاں وہی شخص کسی چیز کو پاتا ہے جس نے اس کے لیے مخصوص قانون کے مطابق اس کو پانے کی کوشش کی ہو۔
ٹرین تیزی کے ساتھ دہلی سے راجستھان کی طرف دوڑ رہی تھی۔ میں نے کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھا تو سورج افق کے نیچے جار ہا تھا تا کہ کچھ دیر کے بعد غروب ہو جائے ۔ بظاہر یہ دونوں الگ الگ واقعات تھے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دونوں ایک تھے۔ دونوں خود ٹرین کے دو سفروں کو بتا رہے تھے۔ ٹرین اپنے انجن کے زور پر دہلی سے راجستھان کی طرف دوڑ رہی تھی۔ دوسری طرف زمین کی گردش کے تحت اس کا دوسرا سفر جاری تھا۔ یہ سفر اس کو دن سے رات کی طرف لے جا رہا تھا۔ ٹرین ایک اعتبار سے دہلی سے راجستھان کی طرف جارہی تھی اور دوسرے اعتبار سے دن سےرات کی طرف ۔
اس دنیا میں آدمی کا ایک سفر وہ ہے جو وہ اپنے ارادہ سے کرتا ہے۔ دوسرا سفر وہ ہے جو قضا و قدر کے حکم کے تحت جاری ہے۔ اسی سے جبروقدر کے معاملہ کو سمجھا جاسکتا ہے۔ اس دنیا میں آدمی جبر و اختیار کے درمیان ہے۔ ایک اعتبار سے وہ آزاد ہے کہ وہ جدھر چاہے جائے ۔ دوسرے اعتبار سےوہ مجبور ہے کہ وہ اسی انجام کو پہنچے جو خدا نے اس کے لیے مقدر کر دیا ہے۔
موجودہ سفر میری زندگی کا بڑا عجیب سفر تھا۔ دہلی میں ۲۲ جولائی کو میرے لڑکے ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کا ایکسڈنٹ ہو گیا۔ وہ ایک بھاری گاڑی کے نیچے آگئے۔ ان کو سخت زخم آئے اور ان کے دائیں پاؤں کی ایک ہڈی ٹوٹ گئی ۔ بوقت سفروہ ولنگڈن نرسنگ ہوم (کمرہ نمبر ۳۸) میں داخل تھے۔ اس حادثہ کی تفصیل بڑی دردانگیز اور غم انگیز ہے۔ خلاصہ یہ کہ میں نہایت دل شکستہ حالت میں دہلی سے روانہ ہوا۔ رات کے وقت ٹرین میں سویا تو نیند نہیں آرہی تھی۔ تین گھنٹہ تک اپنی برتھ پر کروٹیں بدلتار ہا۔ اس کے بعد جھپکی کے ساتھ ایک نیند آئی۔ اسی حالت میں خواب دیکھا کہ ظفر الاسلام کرتا اور پائجامہ پہنے ہوئے ہیں اور بالکل نارمل انداز میں چلتے ہوئے میری طرف آرہے ہیں۔
یہ خواب ۲۷ جولائی اور ۲۸ جولائی کی درمیانی رات میں ٹرین کے اندر دیکھا۔ اس کومیں نے اللہ کی طرف سے بشارت سمجھا۔ اس کے بعد دل کو سکون آگیا اور پھر جلد ہی نیند آگئی۔ اسی قسم کا خواب دہلی واپس آنے کے بعد دوبارہ ۸اگست اور تیسری بار ۱۵ اگست ۱۹۸۹ کو دیکھا۔ حادثہ کے تین مہینے بعد اب خدا کے فضل سے یہ خواب واقعہ بن چکا ہے ––––– اس دنیا میں حادثات بھی ہیں ، اور اسی کے ساتھ حادثات کی تلافی کے لیے خدا کی طرف سے خصوصی انتظام بھی۔
دہلی کا ایک سہ روزہ مسلم اخبار ہے۔ اس کی پیشانی پر قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ ان لفظوں میں لکھا ہوا ہوتا ہے : اس شخص سے بہتر کس کی بات ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ اس اخبار کے شمارہ ۲۲ جولائی ۱۹۸۹ میں راجستھان کے بارے میں "ایک خصوصی رپورٹ " نقل کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کا پہلا پیرا گراف یہ ہے:
"آر ایس ایس ، وشو ہندو پریشد اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے مل کر گزشتہ پانچ مہینوں سے پورے راجستھان کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونک دیا ہے"۔
یہ "راجستھان کے سترہ اضلاع میں فسادات کی سازش " کے بارے میں ایک مفصل رپورٹ تھی۔ اس کو پڑھنے کے بعد جب میں ۲۷ جولائی کی شام کو راجستھان جانے کے لیے آشرم اکسپرس پر سوار ہوا تو میں سمجھا کہ میں ایک ایسی دنیا میں جا رہا ہوں جہاں ہر طرف آگ کے شعلے مجھے جھلسانے کے لیے بھڑک رہے ہوں گے۔ مگر عجیب بات ہے کہ اردو اخبار کا یہ راجستھان سفر میں نظر نہ آیا۔ مجھےتو ریاست میں ہر طرف برسات کی ہوائیں چلتی ہوئی نظر آئیں۔ اخبارات( خاص طور پر اردو اور ہندی کے اخبارات) آگ کا کارخانہ ہیں۔ وہ اس تلاش میں رہتے ہیں کہ کہیں کوئی چنگاری ہو تو اس کو بھڑکا کر آتش فشاں بنا دیں۔ جب کہ اللہ یہ چاہتا ہے کہ ٹھنڈی ہوائیں بھیج کر آگ کو بجھا دے۔
میں جس ڈبہ میں تھا، اس میں بظاہر میرے ایک مسافر کے سوا سب کے سب ہندو تھے۔ میں نے اس ڈبہ میں دو وقت کی نماز پڑھی۔ مغرب اور عشا کی ۔ لوگوں نے بہت احترام کے ساتھ نماز کے لیے جگہ خالی کر دی۔ شام کو کھانے کا وقت آیا تو ایک ہندو ہم سفر نے کھانا پیش کیا جس کو میں قبول نہ کر سکا۔ دن کے وقت میں کھڑکی کے پاس بیٹھنا چاہتا تھا۔ وہاں ایک لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے ہندو باپ نے بطور خود محسوس کر کے وہاں سے اپنے لڑکے کو ہٹا دیا اور کہا کہ آپ یہاں بیٹھیں ۔ وغیرہ وغیرہ۔
حقیقت یہ ہے کہ فساد ایک استثناء ہے نہ کہ عمومی واقعہ مگر صحافی اور لیڈر صرف انھیں استثنائی واقعات کو نمایاں کرتے ہیں۔ وہ استثنائی حالت کو عمومی حالت بتاتے ہیں۔ وہ "جزء راجستھان" کو پورا راجستھان بنا دیتے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے اخبارات کا نام دعوت اور نشیمن رکھا ہے۔ اس کے بجائے اگر وہ اپنے اخبار کا نام عداوت اور خرابات رکھتے تو کم از کم سچ بولنے کا کریڈٹ انھیں ملتا۔ موجودہ حالت میں تو انہیں کوئی بھی کر یڈٹ ملنے والا نہیں۔
اس مفصل"رپورٹ "کے آخر میں کہا گیا ہے کہ "فرقہ پرست تنظیمیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہو رہی ہیں اور فرقہ وارانہ صورت حال روز بروز بھیانک ہوتی جا رہی ہے" اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ قسم کی رپورٹیں اور سازشوں کا انکشاف اور ایڈ منسٹریشن کےنکمے پن کا اعلان اور اجتماعی بیانات کا طریقہ سراسر نا کام ہوچکا ہے ۔ اب ہمیں کچھ اور سوچنا ہے۔
رپورٹ میں اس "کچھ اور" کے لیے اشاراتی رہنمائی موجود ہے۔ مثال کے طور پر اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھلواڑہ ضلع کے بیگور قصبہ میں ۳۰ مارچ کو فساد کی آگ بھڑ کی۔ شیتل اشٹمی کے دن جلوس اپنے روایتی راستہ سے ماکڑ والی مسجد کے سامنے سے گزر رہا تھا ، تبھی جلوس سے کسی نے مسجد میں گلال پھینک دیا۔ جس کے جواب میں مسجد کے اندر سے پتھراؤ کیا گیا۔ ۲۱ آدمیوں کو چوٹیں لگیں۔ پولیس کے ۴۰ جو ان بھی زخمی ہوئے۔ حالات کو قابو میں کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس چھوڑے۔ پھر لاٹھی چارج کیا۔ اور ہوائی فائرنگ بھی کی۔ تب جا کر بھیٹر منتشر ہوئی۔ اتنے میں شہریوں کے محلہ سے کچھ لوگ را ما کوٹ بازار میں جاگھسے اور آٹھ دکانوں کو آگ لگا دی۔ پانچ مکانوں کو بھی پھونک دیا۔ ۲۰ منٹ تک یہ تباہی و بربادی بلا روک ٹوک چلتی رہی۔۔۔ صفحہ ۲
اس واقعہ کی روشنی میں فساد کے مسئلہ کا حل یہ ہے کہ " گلال " پھینکنے پرمشتعل ہونے والے لوگ مشتعل نہ ہوں اور وہ مسجد سے پتھر پھینکنے کی دوسری غلطی نہ کریں ۔ اس کے بعد فساد اپنے پہلے ہی مرحلہ میں ختم ہو جائے گا۔ مگر دوسری غلطی فساد کو بڑھا دیتی ہے، وہ ایک معمولی واقعہ کو بھیانک حادثہ بنا دیتی ہے۔
را جستھان (قدیم نام را جپوتانہ) کا مطلب ہے راجاؤں کی سرزمین ۔ آزادی ( ۱۹۴۷) سے قبل یہاں چھوٹی بڑی ۲۶ ریاستیں تھیں۔ یہ سب راجپوت تھے جو ہمیشہ سے نہایت بہادر قوم رہے ہیں ۔ مغل حکمرانوں کے لیے سب سے بڑا فوجی چیلنج راجپوتوں ہی کی طرف سے تھا۔ اکبر نے اس مسئلہ کے حل کے لیے مصلحت کا انداز اختیار کیا۔ اس کی بعض غیر ضروری حماقتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے را جپوتوں کے سلسلے میں اس کی پالیسی مفید رہی۔ اس نے راجپوتوں کو اس حد تک اپنے ساتھ لے لیا کہ واحد قابل ذکر راجپوت باغی مہا ر انا پرتاپ سنگھ کا مقابلہ کرنے کے لیے اکبر کو جو بہترین جنرل ملا،وه را جہ مان سنگھ تھا جو خود بھی ایک بہادر راجپوت تھا۔
آزادی سے قبل ہندوستان میں بہت سے راجہ ، نواب تھے۔ ان کی ریاستوں کی تعداد ۶۰۱ تک پہنچ گئی تھی۔ ان میں بڑی ریاستیں یہ تھیں : حیدر آباد، کشمیر، میسور ، ٹرا و نکور، بڑودہ، گوالیار ، اندور ، کوچن ، جے پور ، جودھپور ، بیکانیر ، بھوپال اور پٹیالہ۔
راجستھان کی قدیم ریاست جودھپور کے ایک صاحب سے ملاقات ہوئی ۔ وہ جود ھپور کی تاریخ سے واقف تھے ۔ ان سے جو باتیں ہوئیں، اس کا خلاصہ یہاں درج کیا جاتا ہے۔
جودھپور کی بنیا د راجہ راؤ جودھا نے ۱۴۵۹ء میں ڈالی تھی۔ انھیں کے نام پر اس کا نام جودھا پور پڑا جو بعد کو جودھپور ہو گیا ۔ آزادی سے پہلے یہ ایک راجپوت ریاست تھی۔جودھپور یونیورسٹی ۱۹۶۲ میں قائم ہوئی۔ جودھپور ضلع کا شمالی اور شمال مغربی حصہ صحرا ہے۔ اس ضلع میں صرف ایک ندی ہے جو لونی کہلاتی ہے۔ اگر آپ شہر کے کنارے کھڑے ہوں تو ایک طرف آپ کو میدانی علاقہ میں شہر کی آبادی پھیلی ہوئی نظر آئے گی۔ دوسری طرف پہاڑی کے اوپر پرانے قلعہ کی عمارتیں دکھائی دیں گی جو گویا ایک تاریخی مشاہد کے طور پر بلندی پر کھڑے ہو کر نئے شہر کو دیکھ رہی ہیں۔
جودھپور کے راجہ جسونت سنگھ کی وفات ۱۶۷۸ میں ہوئی۔ اس کے بعد ان کے یہاں فروری ۱۶۷۹ میں ایک لڑکا لاہور میں پیدا ہوا جس کا نام اجیت سنگھ ر کھا گیا۔ ایک مؤرخ نے لکھا ہے کہ جسونت سنگھ کے درباری اجیت سنگھ کو دہلی لے گئے اور مغل شہنشاہ اورنگ زیب سے درخواست کی کہ وہ اس لڑکے کو جسونت سنگھ کی جگہ جودھپور کا راجہ تسلیم کر لے۔ مگر بادشاہ نے کہا کہ اس کو یہاں چھوڑ دو تاکہ اس کی پرورش ہمارے محل میں ہو سکے۔ یا ایک اور معاصر بیان کے مطابق جودھپور کا تخت اجیت سنگھ کو اس شرط پر پیش کیا گیا کہ وہ مسلمان ہو جائے :
The emperor offered to bring him up in his harem, or according to another contemporary account "the throne of Jodhpur was offered to Ajit on condition of his turning a Muslim."
An Advanced history of India, p. 495.
ایک اور روایت اس سے بھی آگے جاتی ہے۔ اس کے مطابق مغل حکمراں اور نگ زیب نے ۱۶۷۹ میں مارواڑ کو فتح کیا ۔ اس نے حکم دیا کہ اس کے باشندے اسلام قبول کر لیں۔ اس کے جواب میں جو د ھپور،جے پور اور اودے پور کے راجہ متحد ہو گئے اور مسلم جوئے کو اپنےاوپر سے اتار پھینکا :
The Mughal emperor Aurangzeb invaded and plundered Marwar in 1679, ordering the conversion of its inhabitants to Islam. In reply, the princely states of Jodhpur, Jaipur, and Udaipur formed an alliance and threw off the Muslim yoke.
یہ دونوں روایتیں بالکل بے بنیاد ہیں۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ اور نگ زیب کے زمانہ میں جسونت سنگھ راٹھور جودھپور کا راجہ تھا۔ وہ اور نگ زیب کا معتمد تھا۔ حتی کہ اور نگ زیب نے اس کو کابل اور پشاور کا گورنر بنا دیا۔ یہیں ۱۶۷۸ میں جسونت سنگھ کی وفات ہوگئی ۔ اس کے بعد فروری ۱۶۷۹ میں اس کے یہاں ایک بچہ پیدا ہو اجس کا نام اس کے گھر والوں نے اجیت سنگھ رکھا۔ جودھپور کے راجپوتوں کی خواہش تھی کہ اور نگ زیب اسی اجیت سنگھ کو جودھپور کا راجہ مان لے۔ مگر اور نگ زیب نے اس درخواست کو منظور نہیں کیا۔ اس کے بجائے اس نے ناگورکے رانا اندر سنگھ کو جودھپور کے تخت پر بیٹھا دیا۔ اور نوعمر اجیت سنگھ کی بابت اس نے حکم دیا کہ وہ دہلی میں رہے اور مغل ماحول میں تربیت پائے۔
غالباً راجپوتوں نے سمجھا کہ اور نگ زیب اجیت سنگھ کو اپنے یہاں رکھ کر اس کو مسلمان بنانا چاہتا ہے۔ چنانچہ وہ اس کو لے کر دہلی سے بھاگ گئے۔ اس کے بعد انھوں نے اودے پور کے راجہ کے ساتھ مل کر اور نگ زیب کے خلاف بغاوت کر دی۔ حتی کہ خود اور نگ زیب کے لڑکے اکبر کو بھی انھوں نے اس بغاوت میں اپنے ساتھ ملالیا۔ یہ بے فائدہ لڑائی مختلف صورتوں میں جاری رہی۔ تاہم اور نگ زیب نے اجیت سنگھ کو جودھپور کا راجہ نہیں مانا ۔ یہاں تک کہ ۱۷۰۷ میں اور نگ زیب کا انتقال ہو گیا۔
اور نگ زیب کے بعد بہادر شاہ اول نے پالیسی بدلی۔ اس نے ۱۷۰۹ میں اجیت سنگھ کو جودھپور کا راجہ مان لیا ۔ مگر یہ بعد از وقت تھا۔ چنانچہ دوبارہ اس کا کوئی فائدہ مغل سلطنت کو حاصل نہ ہو سکا۔
اجیت سنگھ کے معاملہ میں اور نگ زیب کا فیصلہ یقینا ً غلط تھا۔ اس کے نتیجہ میں دفادارراجپوت غیر ضروری طور پر مغلوں کے دشمن بن گئے۔ اور نگ زیب کو تقریباً ۵۰ سال حکومت کرنے کا موقع ملا۔ اس کے دور کا بیشتر حصہ لڑائیوں میں گزرا۔ یہ لڑائیاں اس کی بہادری کو ثابت کرتی ہیں۔ مگر یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ان لڑائیوں کا کوئی تعلق دانشمندی سے تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اور نگ زیب کی اکثر لڑائیاں صرف اس لیے پیش آئیں کہ وہ "شمشیر" کی طاقت کو ضرورجانتا تھا ، مگر حکمت اور دانش مندی کی طاقت کی اسے خبر نہیں تھی۔
اور نگ زیب بلاشبہ مغل خاندان کا ایک بہادر بادشاہ تھا۔ مگر اسی کے ساتھ یہ بھی واقعہ ہے کہ وہ مغل خاندان کا ایک بے دانش بادشاہ تھا ۔ یہ اور نگ زیب ہی ہے جس نے اپنی غیر دانش مندانہ کارروائیوں سے مغل سلطنت کے زوال کے اسباب پیدا کئے۔
۲۸ جولائی کی صبح کو فالنا پہنچا۔ یہاں ٹرین چھوڑ دی اور ساتھیوں کے ہمراہ بذریعہ ٔروڈ سفر کر کے شیو گنج پہنچا۔ شیو گنج میں اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں الرسالہ مشن کو پھیلانے کا کام سب سے زیادہ مشتاق احمد صاحب نے کیا ہے ۔ وہ الرسالہ مشن کے خاموش کارکن ہیں اور الرسالہ اور کتابیں لوگوں کو برابر پہنچاتے رہتے ہیں۔
۲۸ جولائی کو جمعہ کا دن تھا۔ نمازجمعہ سے پہلے شیوگنج کی جامع مسجد میں تقریباً پون گھنٹہ کا خطاب ہوا۔ اس کا موضوع یہ حدیث تھی کہ الْمَسَاجِدُ بُيُوتُ الْمُتَّقِينَ (مسجد متقیوں کا گھر ہے) مختلف پہلوؤں سے اس حدیثِ رسول کی وضاحت کی گئی۔ اسی دن شام کو ۴ بجے ایک عمومی اجتماع ہوا۔ اس میں ہندو اور مسلم دونوں فرقوں کے لوگ موجود تھے۔ بستی کے معزز ہندوؤں اور ان کے مذہبی پیشواؤں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ تقریر کا موضوع "قومی ایکتا" تھا۔ میں نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بتایا کہ ملک میں ایکتا کس طرح قائم کیا جا سکتا ہے ۔ ۲۹ جولائی کو جامع مسجد میں نمازعشاء کے بعد ایک خطاب ہوا۔ اس کا موضوع تھا "ایمان و اسلام کی حقیقت "۔
اس کے علاوہ قیام گاہ پر لوگ بڑی تعداد میں برابر آتے رہے۔ اور مجلس کے اندازمیں گفتگو اور تفہیم کا سلسلہ جاری رہا۔ شیوگنج کے علاوہ اطراف کی بستیوں سے بھی کچھ لوگ ان مجالس میں شریک ہوئے۔
۲۸ جولائی کوشیوگنج کے اجتماع میں بستی کے جو معزز افراد شریک ہوئے ان میں سے ایک پنڈت کشن لال جی بھی تھے۔
اس سال (۱۹۸۹) شیو گنج میں ایسا ہوا کہ یہاں کے چوک پر جو ہولی کھڑی کی گئی تھی ، کسی نے ایک دن پہلے اس میں آگ لگادی۔ یہ بڑا نازک واقعہ تھا۔ چنانچہ بستی میں تناؤ پیدا ہو گیا۔اندیشہ ہوا کہ کہیں فرقہ وارانہ فساد نہ ہو جائے۔ اس وقت پنڈت کشن لال جی نے ایک اہم تعمیری کام کیا۔ وہ برہمن ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہولی جل گئی تو کیا ہوا۔ میں دوسری ہولی لگا دیتا ہوں۔ چنانچہ لکڑیاں جمع کر کے دوسری ہولی تیار کی گئی۔ اس کے بعد پنڈت جی نے قاعدہ کے مطابق ، منتر وغیرہ پڑھا۔ اس طرح انھوں نے بروقت مداخلت کر کے دوسری ہولی لگوادی۔ اور اس کے بعدفساد کی فضا اپنے آپ ختم ہو گئی۔
۲۹ جولائی کی شام کو شیر گنج کی جامع مسجد میں مغرب کی نماز پڑھ کربا ہر نکلا تو مسجد کی سیڑھیوں پر ہندو عورتیں اپنے بچوں کو لیے ہوئے دعا کے لیے کھڑی ہوئی تھیں۔ یہ منظر پہلے سارے ملک کی مسجدوں میں دکھائی دیتا تھا۔ اب وہ بہت کم ہو گیا ہے۔ یہ اس عزت و احترام کی ایک علامت ہے جو ماضی میں مسلمانوں کے لیے ہندوؤں کے دلوں میں پایا جاتا تھا ۔
اس پر غور کرتے ہوئے میری سمجھ میں آیا کہ ہندستان میں مسلم تاریخ کے دو دور ہیں۔ ایک" ۱۹۴۷ "سےپہلے کا دور ، دوسرا ۱۹۴۷ کے بعد کا دور۔ قدیم دور میں ہمارے معاشرہ پر صوفیا کا غلبہ تھا۔ موجو دہ زمانہ میں ہمارے معاشرہ پر لیڈروں کا غلبہ ہے۔ صوفیا محبت کی باتیں کرتے تھے ، اس کے مقابلہ میں لیڈروں کا حال یہ ہے کہ وہ نفرت کی باتیں کرتے ہیں ۔ صوفیاء کے زمانہ میں ہندوؤں کی نظر میں مسلمانوں کی تصویر ایک قابلِ احترام گروہ کی تھی۔ لیڈروں کے زمانہ میں معاملہ اس کے برعکس ہو گیا ہے۔ اب ہندوؤں کی نظر میں مسلمانوں کی تصویر ایک قابل ِحقارت گروہ کی ہوگئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی تمام مصیبتوں کے واحد ذمہ دار ان کے نام نہاد لیڈر ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کو حدیث میں الأَئِمَّةُ الْمُضِلُّونَ کہا گیا ہے۔ لیڈروں کی جھوٹی لیڈری نے خود ان کی ذات کو تو یقینا ً فائدہ پہنچایا ہے مگر قوم کو صرف بربادی کے گڑھے میں ڈال دیا ہے۔ جس دن مسلمان اپنے ان جھوٹے رہنماؤں سے نجات حاصل کر لیں گے ، اسی دن ان کے مستقبل کی صبح بھی طلوع ہو جائے گی۔
ایک صاحب نے بتایا کہ میرے چار لڑکے ہیں۔ چاروں آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ میں ان کی طرف سے سخت پریشان ہوں۔ میں نے چاروں لڑکوں کو جمع کر کے انھیں سمجھایا۔ پھر ان کی رضا مندی سے ایک تحریر تیار کی۔ اس میں لکھا تھاکہ "ہم چاروں بھائی آج ۲۹ جولائی ۱۹۸۹ کو یہ پکا وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اپنے بڑے بھائی کو اپنا سردار مانیں گے ۔ ساری زندگی ان کے کہے پر چلیں گے ، خواہ ہم کو پسند ہو یا نا پسند "اس تحریر پر چاروں بھائیوں نے دستخط کئے۔
میں نے کہا کہ اتحاد اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص کو غیر مشروط طور پر بڑا بنا یا جائے۔پھر ان کو سمجھایا کہ بڑے کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ چھوٹوں کے ساتھ محبت کے ساتھ پیش آئے۔ اور چھوٹوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے بڑے کا احترام کریں۔ اللہ تعالیٰ ان نوجوانوں کی مدد فرمائے۔
شیو گنج میں ایک صاحب نے اپنے یہاں کھانے پر بلایا ۔ میں نے ان کا نام پوچھا تو انھوں نے بفات شریف (۷۰ سال) بتایا ۔ وہ "بارہ وفات" کو پیدا ہوئے تھے ، اس لیے ان کانام بفات شریف یا وفات شریف رکھ دیا گیا۔ وہ بہت معمولی پڑھے لکھے تھے۔ وہ الرسالہ جیسی کسی تحریر کا مطالعہ نہیں کر سکتے۔ اور نہ کبھی انھوں نے میرا نام سنا تھا۔ ان کی شخصیت کا اندازہ کرنے کے لیے صرف اتنا لکھنا کافی ہے کہ جب وہ مجھ کو اپنے گھر لے گئے اور دستر خوان پر کھا نارکھا گیا تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ" پہلے فاتحہ دے دیجئے" ۔ مجھے حیرانی کے عالم میں دیکھ کر میرے ایک ساتھی نے مدد کی۔ انھوں نے ہاتھ اٹھا کر "فاتحہ پڑھا "اور اس کے بعد کھانا شروع ہوا۔
میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے ۱۹۴۷ سے پہلے کا زمانہ بھی دیکھا ہے اور ۱۹۴۷ کے بعد کا زمانہ بھی۔ یہ بتائیے کہ آج کے مقابلہ میں پہلے کا زمانہ کیسا تھا ۔ انھوں نے راجستھانی زبان میں کہا: "بات چیت اور ڈھنگ اچھو تھو ۔ ہر ایک اجت سے بلادتا " انھوں نے بتایا کہ پہلے زمانہ میں ہندومسلم جھگڑے کا کوئی سوال نہیں تھا۔ سب بھائی چارہ کے ساتھ رہتے تھے۔ یہ صرف موجودہ زمانہ کی بات ہے کہ ہر معاملہ میں ہندو مسلم، ہندو مسلم ہونے لگا ہے۔
میں نے سوچا کہ ۱۹۴۷ سے پہلے جب راجستھان (راجپوتانہ )جیسی ہندو ریاست کا یہ حال تھا کہ ہند و مسلمان مل جل کر رہتے تھے ۔ ہر ایک دوسرے کو عزت کے ساتھ بلاتا تھا تو وہ "ہندو ہندستان" کہاں تھا جس کا ہوا کھڑا کر کے تقسیم پسند لیڈ روں نے تمام مسلمانوں کو ورغلایا۔ وہ ہندو ہندستان نام نہا دلیڈروں کے اپنے خود ساختہ دماغوں میں تھا۔ چھوٹے چھوٹے معمولی واقعات کو مبالغہ اور تعمیم کے ساتھ پیش کر کے انھوں نے عام مسلمانوں کو بھڑکا دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ تمام بگاڑ تقسیم کی سیاست کا نتیجہ ہے۔ مسلم لیڈروں نے دو قومی تحریک ہندومسلم مسئلہ ختم کرنے کے لیے اٹھائی تھی۔ مگر ان کی نام نہاد تحریک نے ہند ومسلم مسئلہ کو ہزار گنا زیادہ بڑھا دیا ۔ شیو گنج قدیم سرو ہی ریاست کا حصہ تھا۔ اس ریاست کے والی مہاراج سر سروپ رام سنگھ تھے۔ وہ بہت نیک نفس آدمی تھے ۔ آخر عمر میں انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔ ۲۳ جنوری ۱۹۴۶ کو دہلی میں ان کا انتقال ہو گیا۔ دہلی میں وہ ۲۴-۲۶ علی پور روڈ پر رہتے تھے۔اسلام قبول کرنے کے بعد مہاراجہ نے اپنا نام محمدعمر رکھا تھا۔
مہاراجہ کی بیوی نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا اور اپنا نام سعید النسا ءر کھا تھا۔ ان کی ایک ذاتی زمین (۶۰ بیگہہ) شیو گنج میں تھی۔ اس زمین کو انھوں نے مہاراجہ کی زندگی ہی میں ۱۸ جون ۱۹۴۵ کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام وقف کر دیا۔ یہ وصیت نامہ ۹۷۸ روپیہ کے اسٹمپ پر ہے۔ وہ اردو میں ہے اور اس پر سابق جارج پنجم کی تصویر بنی ہوئی ہے۔
اس وقف نامہ کی فوٹو کاپی میں نے یہاں دیکھی ۔ اس میں درج ہے کہ اس وقف سے سروہی اور راجستھان کے مسلم نوجوانوں ، نیز دوسرے مسلمانوں کی تعلیمی امداد کی جائے۔ وقف نامہ کے مسودہ میں مزید یہ درج ہے کہ " یونیورسٹی مذکور کو یہ بھی اختیار ہو گا کہ جائداد موقوفہ کے جزء یا کل کو فروخت کر کے اس کے حاصل سے دیگر جائدا دجس مقام پر چاہے خرید لے ۔ اور جو جائداد اس طرح خرید کی جائے وہ اس وقف کی متذکرہ مد میں خرچ کی جائے "۔
اس موقوفہ جائداد کو میں نے خود دیکھا۔ اس وقت وہ کروروں روپیہ کی مالیت رکھتی ہے۔مگریہ قیمتی زمین ۴۵ سال سے بالکل بے کار پڑی ہوئی ہے۔ فاصلہ کی وجہ سے یونیورسٹی اگر اس کی دیکھ بھال نہیں کرسکتی تو وقف کے مطابق وہ اس کو فروخت کر کے دوسرا موزوں انتظام کرسکتی ہے۔ مگر یونیورسٹی کے ذمہ داران نے اب تک یہ بھی نہیں کیا۔ شاید اندرونی جھگڑوں کی وجہ سے انھیں یہ موقع نہیں کہ وہ یونیورسٹی کے بیرونی مسائل کی طرف توجہ دے سکیں۔
مولانا خدا بخش بلوچ (۳۵ سال) اپنے الفاظ میں، الرسالہ کے شیدائی ہیں۔ ہر شمارہ کوکئی کئی بار پڑھتے ہیں۔ انھوں نے اپنا ایک ذاتی واقعہ بتایا ۔ ہیڈ گواڑ جنم شتابدی (فروری ۱۹۸۹) کے موقع پر شیو گنج میں ہندو نو جوانوں کا ایک جلوس نکلا ۔ وہ چلتا ہوا جامع مسجد کے سامنے پہنچا جس میں مولانا خدا بخش صاحب امام اور خطیب ہیں۔ جلوس اس وقت مختلف قسم کے اشتعال انگیز نعرے لگارہا تھا۔ مثلاً "جس کو چاہیے پاکستان ، اس کو بھیجو قبرستان" اور" بھارت میں رہنا ہوگا، وندے ما ترم کہنا ہوگا "۔ وغیرہ
مولانا خدا بخش صاحب اس وقت مسجد میں تھے۔ وہ شور سن کر باہر آئے۔ انھوں نے کسی بھی قسم کا غصہ یار دِّ عمل ظاہر نہیں کیا۔ حتی کہ یہ بھی نہیں پوچھا کہ تم لوگ کیا نعرے لگا رہے ہو ۔ اس کے بجائے انھوں نے یہ کیا کہ مجمع پر نظر ڈالی ۔ چند نوجوان انھیں اپنی پہچان کے نظر آئے ۔ انھوں نے لپک کر ان سے آداب کہا اور مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھا دئے۔ یہ دیکھ کر جلوس کے دوسرے لوگ بھی "مولوی صاحب نمستے ، مولوی صاحب نمستے" کرنے لگے ۔ مخالفانہ نعرہ بازی موافقانہ ملاقات میں تبدیل ہوگئی ان سے میں نے پوچھا کہ اس پوری کارروائی میں آپ کا کتنا وقت لگا۔ انھوں نے کہا کہ صرف پانچ منٹ۔
مولا ناخد ابخش جب یہاں کی مسجد میں آئے تو ایک شخص سے ان کی دلچسپ گفتگو ہوئی۔ ان کی روایت کے مطابق یہ گفتگو حسب ذیل تھی :
"مولانا ، آپ دیوبندی ہیں یا بریلوی "
" بھائی میں تو راجستھانی ہوں"
"نہیں ، میں عقید ہ کی بات کر رہا ہوں "۔
" عقیدہ کوئی مکانی چیز نہیں۔ اگر مکان کی نسبت سے عقیدہ بنتا تو مکی عقیدہ اور مدنی عقیدہ کہاجاتا "۔ اس کے بعد گفتگو اپنے آپ ختم ہوگئی۔
میں شیو گنج میں مشتاق احمد صاحب( ۵۶ سال) کے ساتھ مقیم تھا۔ انھوں نے بتایا کہ شیو گنج میں ہماری مسجد کی دیوار پر کسی نے ہندی میں نعرے لکھ دئے " ہندو جاگے گا ، دیش جاگے گا "،"دیش کے لیے جینا سیکھو"۔ وغیرہ ۔ ان نعروں پر غصہ کا اظہار کرنے کے بجائے انھوں نے اس کو پانی سے دھو ڈالا۔ اس کے بعد سالانہ موقع پر مسجد میں سفیدی ہوئی اور قصہ ختم ہو گیا –––––– اس دنیا میں ہر برائی کو ختم کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ آپ کے اندر یہ حوصلہ ہو کہ آپ لوگوں کی سیاہی کے اوپر اپنی طرف سے سفیدی پھیر دیا کریں۔
ایک مجلس میں میں نے کہا کہ اس ملک کے ہندو اور مسلمان آج اپنے اپنے مذہب پر نہیں ہیں بلکہ انگریز کے دئے ہوئے مذہب پر ہیں۔ انگریز نے اپنے مقصد کی خاطر یہاں "لڑاؤ اور حکومت کرو "کی پالیسی چلائی۔ اس نے مذہب کو محبت کے بجائے نفرت کا عنوان بنا دیا۔
میں نے اپنے بچپن میں دیکھا ہے کہ ریلوے اسٹیشنوں پر ہندو پانی اور مسلم پانی کے الگ الگ برتن ہوا کرتے تھے۔ یہ رجحان بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچا کہ ہرمعاملہ میں ہند ومسلم، ہند و مسلم کیا جانے لگا۔ مثال کے طور پر کسی اسکول کا نام ہندو اسکول یا کسی کالج کا نام ہند و کالج تھا ، یا وہاں ہندو ٹیچر بچوں کو پڑھاتے تو مسلمان وہاں داخلہ لینا پسند نہیں کرتے تھے۔
اس طرح کی تقسیم سراسر احمقانہ تھی۔ حتی کہ وہ خود سنت رسول کے خلاف تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے نازک سفر کے لیے ایک مشرک عبد اللہ بن ارقط کو اپنا رہنما بنایا۔ اسلام کا پہلا مدرسہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قائم ہوا ، اس کے تمام کے تمام ٹیچر مشرک بلکہ دشمن اسلام تھے۔ یہ مدرسہ تھا جو مدینہ میں بدر کے مشرک قیدیوں کے ذریعہ قائم کیا گیا۔
ایک صاحب نے سوال کیا کہ صحیح حدیث کے مطابق ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مجھے یونس بن متی پر فضیلت نہ دو(لَا تُفَضِّلُونِي عَلَى يُونُسَ بْنِ مَتَّى)مگر تمام مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو افضل الانبیاء کہتے ہیں ۔ شارحین حدیث نے اس اشکال کے جوابات دئے ہیں لیکن ان سے میری تسلی نہ ہوسکی۔
میں نے کہا کہ دو باتیں ایک دوسرے سے الگ ہیں ۔ ایک ہے باعتبار حقیقت کسی پیغمبر کا دوسرے پیغمبروں سے افضل ہونا۔ اور دوسرا ہے ، ایک پیغمبر کو دوسرے پیغمبروں پر افضل بتانا۔ اس حدیث میں افضل ہونے کی تردید نہیں ہے بلکہ افضل بتانے کی تردید ہے۔ علمِ الہی میں یقیناً پیغمبروں کے درجات ہیں، مگر ہمارا کام اتباع رسول ہے نہ کہ تفضیل انبیا ء کی بحث چھیڑنا اور اس پر تقریر کرنا۔
سمیر پور پالی بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ کاروبار کے اعتبار سے یہ شیو گنج سے بڑا ہے حکومت نے حال ہی میں یہاں بہت بڑی منڈی نئے طرز کی تعمیر کرائی ہے ۔ یہ زرعی پیداوار کی منڈی ہے اس کی کشادہ سڑکوں پر جگہ جگہ کبوتروں کے غول بیٹھے ہوئے نظر آئے ۔ غلہ اتارتے اور چڑھاتے ہوئے اس کے دانے سڑک پر گرتے ہیں۔ ان کو کھانے کے لیے یہ کبوتر یہاں جمع رہتے ہیں۔ وہ اپنے عمل میں اتنے منہمک تھے کہ جب تک ہماری گاڑی کے پہیے ان کے سرتک نہ پہنچ جاتے ، وہ وہاں سے نہ اڑتے۔
سمیر پور کی سڑکوں اور بازاروں سے چلتے ہوئے یہی منظر وہاں کے انسانوں کا بھی نظر آیا۔ ہر آدمی انتہائی یکسوئی سے اپنے کاروبار میں مشغول تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کو کاروبار کے سوا کسی اور چیز کی طرف دیکھنے کی بھی فرصت نہیں ہے۔
میں نے سوچا کہ جب یہ لوگ کاروبار میں اتنا زیادہ منہمک ہیں تو آخر وہ کون ہے جو فرقہ وارانہ دنگے اور فساد کرتا ہے۔ میری سمجھ میں آیا کہ دنگا اور فساد کرنے والے یہ لوگ نہیں ہیں۔ بلکہ یہ در اصل چھوٹے طبقہ کے لوگ ہیں جو دنگا اور فساد کرتے ہیں۔ بقیہ لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ ان کے فرقہ کےچھوٹے لوگ جب فساد کرتے ہیں تو وہ ان کی مذمت نہیں کرتے ، اس طرح ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ یہ خاموش حوصلہ افزائی فساد کو جاری رکھتی ہے۔ اگر وہ اپنے فرقہ کے فسادیوں کی مذمت کریں تو ان کی حوصلہ شکنی ہو اور فساد کی جڑ کٹ جائے۔
مگر یہاں "این گنا ہے است کہ در شہر شما نیز کنند" والا معاملہ ہے۔ مسلمانوں کا حال بھی یہی ہے۔ کہ ان کے" خوش پوش " لوگ خود کبھی فساد میں شریک نہیں ہوتے ۔ جو مسلمان فساد چھیڑتے ہیں یا فساد کے اسباب پیدا کرتے ہیں وہ ہمیشہ مسلمانوں کے نچلے طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ مگر یہاں بھی مسلمانوں کا خوش پوش طبقہ یہی جرم کرتا ہے کہ وہ ان غلط کار مسلمانوں کی مذمت نہیں کرتا۔ مثلاً ایک مقام پر ہندوؤں کے جلوس میں سے کسی شخص نے مسجد کی دیوار پر گلال پھینک دیا تو کچھ مسلمانوں نے جلوس کے اوپر پتھراؤ کیا ۔ اس سے فساد برپا ہو گیا۔ ایک مقام پر ایک آدی واسی لڑکی کے ساتھ ایک مسلمان ملوث پایا گیا۔ اس کے نتیجہ میں فساد ہو گیا۔ مگر ان مواقع پر مسلمانوں کے نمائندہ طبقہ نے اپنے فرقہ کے غلط کارافراد کی مذمت نہیں کی۔ وہ یا تو ایڈ منسٹریشن کو برا کہتے رہے یا ہندو فرقہ پرستوں کو۔
یہی صورت حال فساد کی جڑ ہے۔ ہندو اور مسلمان دونوں فرقہ کے اعلیٰ طبقہ کو یہ ڈر رہتا ہے کہ اگر وہ اپنے فرقہ کے غلط کار افراد کی مذمت کریں گے تو وہ اپنی قوم سے کٹ جائیں گے –––––– آدمی اپنی قوم سے نہ کٹنے کے لیے حق سے کٹ جاتا ہے۔
ایک صاحب نے پالی (راجستھان) کا واقعہ بتایا۔ ایک مسلم نوجوان چوڑی کے اوزار کا کاریگر بننا چاہتا تھا۔ یہ اوزار لوہے کے ہوتے ہیں۔ نوجوان اوزار بنانا سیکھنا چاہتا تھا مگر استاد لوگوں نے اس کی مدد نہیں کی۔ نوجوان پریشان ہوا کہ استاد کے بغیر اوزار بنا نا کس طرح سیکھے۔ آخر اس نے منت مانی ۔ اس نے کہا کہ اگر مجھ کو اوزار بنا نا آجائے تو میں چاندی کا اوزار بنا کرتعزیہ پر چڑھاؤں گا۔
اس منت کے بعد اس نے کوشش شروع کر دی ۔ یہاں تک کہ استاد کے بغیر اس نے اوزار بنانا سیکھ لیا۔ اس نے پہلا اوزار چاندی کا بنا کر اس کو تعزیہ پر چڑھایا۔ یہ دو سال پہلے کا واقعہ ہے۔(باقی آئنده )