صبر منسوخ نہیں
ایک فلسطینی نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ گفتگو کے دوران میں نے دین میں صبر کی اہمیت کاذکر کیا اور صبرسےمتعلق قرآن کی آیتیں ان کے سامنے پیش کیں ۔ انھوں نے فوراً کہا : صبر کی آیتیں تومکی دور میں اتری تھیں۔ ہجرت کے بعد صبر کا حکم منسوخ کر دیا گیا اور جہاد و قتال کی آیتیں اتاری گئیں۔ اب ہم دور صبر میں نہیں ہیں، اب ہم دور جہاد میں ہیں۔ اب ہمارے تمام معاملات جہاد کے ذریعہ درست ہوں گے اور یہی کام ہمیں کرنا ہے۔
یہ ایک بہت بڑا مغالطہ ہے، جس میں بے شمار لوگ مبتلا ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ صبر ایک ابدی حکم ہے۔ اس کا تعلق ہر دور اور ہر زمانہ سے ہے ۔ صبر تمام دینی اعمال کا خلاصہ ہے۔ آدمی کوئی دینی عمل صحیح طور پر اسی وقت کر سکتا ہے جب کہ اس کے اندرصبر کا مادہ ہو۔ جس آدمی سے صبر رخصت ہو جائے ، وہ کوئی بھی دینی کام صحیح ڈھنگ سے انجام نہیں دے سکتا ، خواہ وہ کلمۂ توحید پر استقامت کا معاملہ ہو یا میدان مقابلہ میں شجاعت کا معاملہ ،یا اور کوئی معاملہ ۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث میں بار بار صبر کی تاکید کی گئی ہے ، اور علی الاطلاق طور پر اس کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ قرآن میں صبر کا مادہ ایک سوسے زیادہ بار استعمال کیا گیا ہے۔ سورہ البقرہ ایک مدنی سورت ہے، اس میں کہا گیاہے کہ تم لوگ صبر اور نماز سے مددلو،اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے: اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (2:153) ۔
حدیث میں صبر کی بہت زیادہ فضیلت آئی ہے اور مختلف پہلوؤں سے اس کی اہمیت بتائی گئی ہے۔ ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے صبرسے زیادہ اچھا اور بڑا عطیہ کسی شخص کو نہیں دیا:وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ مِنْ عَطَاءٍ أَوْسَعَ مِنَ الصَّبْر ِ(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر1644)۔
صبر کے لغوی معنیٰ رکنے کے ہیں۔ امام راغب نے صبر کی حقیقت ان لفظوں میں بیان کی ہے: الصَّبْرُ حَبْسُ النَّفْسِ عَلَى مَا يَقْتَضِيهِ الْعَقْلُ(المفردات للراغب الاصفہانی، صفحہ474)۔ یعنی،صبر اس چیز سے نفس کو روکنے کا نام ہے جس کا عقل تقاضا کرے۔ عربی میں کہا جاتا ہے :صَبَرْتُ نَفْسِي عَلَى ذَلِكَ الْأَمْرِ، أَيْ حَبَسْتُهَا(مقاییس اللغۃ، جلد3، صفحہ 329)۔ یعنی، میں نے اپنے نفس کو فلاں چیز سے روک دیا۔
موجودہ دنیا ایک ایسی دنیا ہے جہاں موافق پہلوؤں کے ساتھ ناموافق پہلو بھی موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کسی کام کو کامیابی کے ساتھ انجام دینے کے لیے صبر لازمی طور پر ضروری ہے۔ یہاں اپنی خواہش کو دبا کر اپنی عقل کو رہنما بنانا پڑتا ہے۔ یہاں ایک چیز کو لینے کے لیے دوسری چیز کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ یہاں آج پر توجہ دینے کے لیے کل کو مستقبل کے خانہ میں ڈالنا پڑتا ہے۔ یہاں خلاف مزاج باتوں کو برداشت کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھنا پڑتا ہے۔ یہاں رد عمل کی نفسیات سے آزاد رہ کر مثبت سوچ کے تحت اپنا منصوبہ بنانا پڑتا ہے۔ ان تمام چیزوں کا تعلق صبر سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دنیا میں صبر کے بغیر کبھی کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔
دنیوی کاموں کی طرح، دینی کام کے لیے بھی صبر لازمی طور پر ضروری ہے۔ جس زمین پر اور جس انسانی ماحول میں ایک دنیا دار کام کرتا ہے، اسی زمین پر اور اسی انسانی ماحول میں دیندار بھی اپنا عمل کرتا ہے۔ اس لیے یہاں دینی مقصد کو پانے کے لیے بھی صبر کا طریقہ اختیار کرنا ضروری ہے۔ صبر کے بغیر کوئی بھی دینی کام نتیجہ خیز طور پر انجام نہیں دیا جا سکتا۔
اسلام کی تاریخ وسیع تقسیم کے مطابق، تین قسم کے حالات سے گزری ہے — دعوت، خلافت، ملوکیت ۔ دعوتی دور کی معیاری مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا23 ساله زمانه ہے۔ یہی وہ زمانہ ہے جس کے مطالعہ سے دعوت کے آداب اور اس کے طریقے صحیح طورپر معلوم کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے بعد خلافت کا زمانہ آتا ہے، جو گویا صحیح معنی میں نائبین رسول کا زمانہ ہے۔ یہ زمانہ حضرت ابو بکر بن ابی قحافہ سے شروع ہوتا ہے اور حضرت علی ابن ابی طالب پر ختم ہوتا ہے ۔ اس کے بعد، مورخین ِاسلام کے مطابق، ملوکیت کا دور ہے۔ یہ زمانہ حضرت امیر معاویہ سے شروع ہوا اور آج تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ ان تینوں دوروں میں جو اسلامی کردار مطلوب ہے، اس پر قائم ہونے کے لیے یکساں طور پر صبر کی اہمیت ہے۔