تبدیلیٔ مذہب
ٹائمس آف انڈیا (۱۱ اگست ۱۹۹۰) میں صفحہ ۹ پر مسٹر ا لوک رائے کا ایک مضمون چھپا ہے۔ اس کا عنوان یہ ہے ––––– صرف متعصب لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ تبدیلیٔ مذہب کا سبب جبرو تشدد ہوتا ہے:
Only bigots feel that conversions follow invasions.
مضمون نگار لکھتے ہیں کہ ٹیپو سلطان فلم کے بارے میں وشو ہندو پریشد نے پر شور مانگ کی تھی کہ اس کی نمائش پر پابندی لگا دی جائے۔ اس کی وجہ انھوں نے یہ بتائی کہ ٹیپو سلطان نے اٹھار ویں صدی کے ملا بار میں بہت سے ہندوؤں کو زبر دستی مسلمان بنایا تھا۔
مضمون نگار نے اس مانگ کا مذاق اڑایا ہے ۔ انھوں نے لکھا ہے کہ اگر بحث کی خاطر بالفرض یہ مان لیا جائے کہ ٹیپو سلطان نے ملا بار کے ہندوؤں کو مسلمان بنایا تھا تو اس جبر و تشدد کے خلاف آواز سب سے پہلے ملا بار سے بلند ہونی چاہیے ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں کے مسلمان یا ہند و کسی نے بھی اس قسم کی آواز نہیں اٹھائی ۔
اسی طرح مضمون نگار نے مینا کشی پورم کا ذکر کیا ہے ۔ مینا کشی پورم میں جب کچھ ہر یجنوں نے اسلام قبول کیا تو کٹر ہندوؤں نے کہا کہ ان ہر یجنوں کو پیسہ دے کر اسلام میں داخل کیا گیا ہے۔ مضمون نگار کہتے ہیں کہ بالفرض اگر یہ دعویٰ صحیح ہو تو ان ہندوؤں کے لیے نہایت آسان تدبیر یہ ہے کہ وہ ان مسلمان ہونے والے ہر یجنوں کو کچھ زیادہ رقم دے کر دوبارہ انھیں ہندو بنالیں :
Concerned Hindus should outbid the converters.
مضمون نگار نے اس بات کی وکالت کی ہے کہ آدمی کو مذہبی عقیدہ کی مکمل آزادی حاصل رہنا چاہیے۔ آدمی چاہے ایک مذہب پر رہے ، چاہے اس کو بدل کر دوسرا مذ ہب اختیار کر لے ۔لوگوں کو ایسا کرنے کا پورا حق ہے:
(And they have a right to do so)
مضمون نگار کی یہ بات بالکل درست ہے ۔ اگر ہم یہ کریڈٹ لیناچاہتے ہیں کہ انڈیا میں ہم نے ڈیمو کریسی قائم کی ہے تو ہم کو تبدیلی ٔمذہب کی اجازت بھی ضرور دینی ہوگی ۔ ورنہ ڈیمو کریسی کادعویٰ جھوٹا ہو کر رہ جائے گا۔