ایک اقتباس

مختلف با بری مسجد کمیٹیوں کے لیڈر پچھلے تین برس سے مسلسل بابری مسجد کے سلسلہ میں بڑے بڑے بیان دیتے آئے ہیں۔ بلند بانگ دعوے کرتے آئے ہیں۔ اپنے جذ باتی بیانات اور زور دار تقریروں سے خوب مسلمانوں کی واہ واہ لوٹ کر قوم کے لیڈر بنتے رہے ہیں۔ ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں پر یہ تاثر قائم کرتے رہے ہیں کہ مسلم ووٹ ان کی مٹھی میں ہے۔ وہ جہاں کہیں گے مسلمان ووٹ ڈالے گا۔ وہ مسلم ووٹ کے نام پر اپنا مفاد پورا کرتے ہیں۔ جنہیں ان کے محلے میں بھی کوئی نہیں جانتا تھا راتوں رات مسلمانوں کے لیڈر بن گئے۔ انھوں نے مسلم فوج بنانے کا دعوی کیا۔ انھوں نے اجودھیا مارچ کا نعرہ لگایا۔ ان قائدین ملت نے شہیدی دستے بنائے ۔ انھوں نے لاکھوں کی تعداد میں حفاظتی دستے اجود ھیا بھیجنے کا اعلان کیا۔ آج ہندستان کے مسلمان اگر یہ سوال کر رہے ہیں کہ یہ مسلم فوج ، یہ شہیدی دستے اور یہ حفاظتی دستے کہاں ہیں تو کون سا غلط کر رہے ہیں۔ مگر جب پچھلے برس رام مندر کا شلانیاس ہوا تو ان شہیدی دستوں کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ فیض آباد کی ٹاٹ والی مسجد میں صرف سوا سو ڈیڑھ سو مسلمان جمع تھے۔ اور جب اڈوانی کی رتھ یا تر انکلی تو انھوں نے مسلمانوں پر اپنی بہادری کا سکہ جمانے کے لیے     رتھ یا ترا روکنے کا اعلان کیا۔ ان کے اس اعلان سے فتح پوری مسجد کے نائب امام کو ترشول تو لگ گیا مگر اس رتھ یا تر ا کو روکنے کے لیے     چڑیا کا بچہ بھی سامنے نہیں آیا ۔ انھوں نے حفاظتی دستے کے تحت بابری مسجد کی حفاظت کے لیے     پانچ لاکھ مسلمانوں کو اجودھیا بھیجنے کا اعلان کیا مگر پانچ مسلمان لیڈراجودھیا تو دور کی بات ہے فیض آباد بھی نہیں پہنچے۔

 پچھلے گیارہ ماہ میں بی جے پی والے حکومت کے حمایتی ہونے کے باوجود مسلسل منظم طور پر اجودھیا پر دھاوا بولنے اور بابری مسجد میں گھسنے کی تیاری کرتے رہے مگر یہ بابری مسجد کے لیڈر صرف وزیر اعظم وی پی سنگھ سے ملاقاتیں کر کے اور ٹیلیویژن وریڈیو پر اپنے بیانات جاری کر اکر خوش ہوتے ر ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں میں اپنی پوزیشن بنانے کے لیے     یہ حفاظتی دستے اور شہید ی دستے بنانے کے لمبے چوڑے بیانات دیتے رہے۔ اپنے ان خالی خولی بیانات سے انہوں نے صرف اور صرف فرقہ پرست ہندو تنظیموں کو تقویت پہنچانے کا کام کیا۔ مسلم فوج کا خوب ڈھول پیٹا گیا ۔مسلم فوج نے بجرنگ دل ،شیوسینا ،  وشو ہندو پریشد کے وجود کا جو از تو فراہم کیا مگر میرٹھ، بھاگلپور، گونڈا ، جے پور، دہلی اور دوسرے درجنوں فسادات میں ایک مسلمان کی جان و مال کی حفاظت نہیں کر سکے ۔ ان کا کھیل صرف اتنا ر ہا کہ وہ ملک کی اہم سیاسی جماعتوں سے یہ تسلیم کر لیں کہ یہ مسلم ووٹوں کے واحد ٹھیکیدار ہیں۔ ان کی مرضی کے بغیر کوئی سیاسی جماعت کامیاب نہیں ہو گی۔ انھوں نے نہ تو حکومت سے مسلمانوں کے اقتصادی سماجی و دینی مسائل حل کرنے میں کوئی دل چسپی دکھائی۔ نہ مسلمانوں کو منظم کیا ۔ نہ انہیں اعتماد اور حوصلہ دیا ۔ نہ ہند و فرقہ پرستوں کا مقابلہ کرنے کے لیے     کوئی ٹھوس حکمت عملی بنائی ۔ نہ ان کے مفاد میں کوئی دورس پالیسی مرتب کی۔

جب تک یہ عناصر اقتدار سے دور رہے، جذباتی تقریریں کر کے مسلمانوں کو ٹکراؤ کے راستے پر چلاتے رہے۔ ان کی اسی ٹکراؤ کی پالیسی کا خمیازہ کروروں مسلمانوں کو میرٹھ ، ملیانہ ،بھاگلپور، بدایوں، مکرانہ ، دہلی ، بارہ بنکی، الہ آباد ، حیدر آباد، اندور ، جے پور ، گونڈا ، متھرا، کا نپور اور درجنوں فسادات کی شکل میں بھگتنا پڑا ۔ آج بھی ملک کے درجنوں شہر میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اور آئندہ بھی بھگتنا پڑے گا۔ پرانی کہاوت ہے کہ چھیڑ ومت اور چھیڑو تو چھوڑ ومت۔ لیکن بغیر نتائج کی پروا کئے یہ قائدین وقتی تالیاں بجوانے اور لیڈری چمکانے کے لیے     ہند و فرقہ پرستوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہے۔ انھیں اپنی مسلم دشمنی کا جواز فراہم کرتے رہے۔ لیکن ٹکراؤ کا اعلان کرنے کے بعد ، حالات کو بگاڑنے کے بعد خود ہمیشہ پیچھے ہٹ گئے۔ ان کی اس عاقبت نا اندیشا نہ پالیسی کا خمیازہ عام مسلمانوں کو بھگتنا پڑا۔ آج بھی بھگتنا پڑرہا ہے اور ابھی برسوں بھگتنا پڑے گا۔

۴۷ کے بعد ہندستان میں مسلمان کبھی اتنا غیر محفوظ نہیں رہا جتنا کہ آج ہے ۔ آج مسلمانوں کا جان و مال ہی نہیں ان کی مسجدیں ، درگا ہیں، قبرستان ان کا دین ایمان سب خطرے میں ہے۔ آج مسلمان بسوں اور ٹرینوں میں سفر کرتے ہوئے ڈر رہے ہیں۔ آج مسلمان زبر دست خوف و ہراس کا شکار ہیں۔ اس کے لیے     جہاں ملک کی سیاسی جماعتیں اور ہندو فرقہ پرست تنظیمیں ذمہ دار ہیں وہاں بابری مسجد کے نام پرلیڈری چمکانے والے یہ قائدین ملت بھی برابر کے ذمہ دار ہیں، آج اگر عام مسلمانوں کا اعتماد ان نام نہاد مسلم لیڈروں پر سے اٹھ گیا ہے تو کیا غلط ہے ۔ آج مسلمان مایوسی کے ایسے اندھیرے میں گھر گیا ہے جہاں اسے امید کی کوئی کرن نظر نہیں آر ہی ہے ۔ مگر مسلمان کے لیے     مایوسی حرام ہے مسلمان کو آج اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہو گا۔ اپنے نادان دوستوں اور مفاد پرست بہی خواہوں کو پہچاننا ہوگا۔ اور منظم طور پر اپنی حفاظت، اپنی ٹھوس تعمیر ، اپنی تعمیروترقی کا راستہ متعین کرنا ہوگا۔ اور یہ اس وقت ہی ممکن ہے کہ جب تعلیم یافتہ ، بے لوث اور سمجھدار مسلمان آگے آئیں ۔ عام مسلمان لمبے لمبے دعوے کرنے والے لیڈروں کی اصلیت کو پہچانیں اور اپنے درمیان موجود مخلص مگر خاموشی سے کام کرنے والے عناصر کو پہچانیں۔ مسلمانوں کا مستقبل ان شاء اللہ آج بھی روشن ہے۔ ہندستان کے کروروں مسلمانوں کو دنیا کی کوئی طاقت اپنے جائز حقوق حاصل کرنے اور آگے آنے سے نہیں روک سکتی ۔ جس دن مسلمان خوف و دہشت کو تیاگ کر صرف اور صرف اپنے ایمان پر اعتقاد کرتے ہوئے سامنے آئیں گے انھیں زندگی کے کسی بھی میدان میں آگے بڑھنے سے نہیں روکا جاسکے گا (ہفت روزہ نئی دنیا ۹ - ۱۵ نومبر ۱۹۹۰)

اوپر جو ’’اقتباس‘‘نقل کیا گیا ، وہ کوئی منفرد تحریر نہیں۔ آجکل اس قسم کے مضامین کثرت سے اخبارات ورسائل میں شائع ہو رہے ہیں (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو ، مفصل خط مطبوعہ قومی آواز ،۷  نومبر ۱۹۹۰ )

مسلمان جو پچھلے برسوں میں نام نہا دلیڈروں کے لفظی بیانات اور جوشیلی تقریروں سے وقتی طور پر انھیں اپنا رہنما سمجھ بیٹھے تھے ، وہ اب ان کی نا اہلیت کو بخوبی طور پر جان چکے ہیں۔ اکتوبر ۱۹۹۰ کے واقعات نے آخری طور پر ان کی حقیقت کھول دی ہے ۔ اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ یہ لوگ مسائل کی نوعیت کو جانتے بھی نہیں، کجا کہ ان سے یہ امید کی جائے کہ وہ ان میں رہنمائی دیں گے۔ ان نام نہاد لیڈروں نے قرآن کے مطابق، اس کام کا کر یڈٹ لینا چاہا تھا جس کو انھوں نے کیا نہیں (آل عمران: ۱۸۸)  اللہ نے دکھا دیا کہ ایسا کر یڈٹ کسی کو اس دنیا میں نہیں ملتا۔

مسلمان اب ان نا اہل رہنماؤں کے فریب سے باہر آچکے ہیں ، اور خود یہ واقعہ مسلمانوں کے لیے     روشن مستقبل کی یقینی ضمانت ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی تمام مصیبتوں کے اصل ذمہ دار خودان کے نام نہاد ر ہنما ہیں۔ مسلمانوں کا ان رہنماؤں کی حقیقت کو جان لینا ان کے لیے     ایک نئے دور کا آغازہے۔ مسلمانوں کی اس دریافت کے بعد اب ان کی تعمیرِ نو کا سفرشروع ہو چکا ہے، اور جو سفر صحیح سمت میں شروع ہو ، وہ آخر کار اپنی منزل پر پہنچ کر رہتا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom