انعام کی خوشی
۱۶ اکتوبر ۱۹۹۰ کے اخبارات یہ خبر لائے کہ ۱۹۹۰ کے نوبیل امن انعام (Nobel peace prize) کے لیے ناروے کی کمیٹی نے سوویت یونین کے صدر میخائیل گوربا چیف کا نام چنا ہے۔ یہ انعام ان کو دینا اس لیے طے کیا گیا ہے کہ انھوں نے بین اقوامی امن کے عمل میں رہنمایانہ کر دار ادا کیا :
for his leading role in the international peace process.
یہ با عزت انعام ان کو اوسلو میں ۱۰ دسمبر ۱۹۹۰ ایک خصوصی تقریب میں دیا جائے گا۔ اس انعام میں تمغہ اور سرٹیفکٹ کے علاوہ سات لاکھ ڈالر (710,000$) کی رقم شامل ہوگی۔
۶۰ سالہ روسی لیڈر کو یہ خبر ناروے کے روسی سفیر (Dagfinn Stenseth) نے کریملن میں ان سے ملاقات کر کے انھیں پہنچائی ۔ اس کے جلد ہی بعد ملکی اور غیرملکی اخبار نویس کر یملن پہنچے اور گور با چیف سے ان کے تاثرات پوچھے۔ انگریزی رپورٹ کے مطابق، وہ زیادہ نہ بول سکے ۔ انھوں نے کہا کہ اس طرح کے لمحات میں آدمی کے الفاظ گم ہو جاتے ہیں۔ اس کو سن کر میں بے حد متاثر ہوا ہوں:
Words fail one at such moments. I am moved
اسی دوران دوسرا واقعہ ڈاکٹر منڈیلا (Nelson Mandela) کے ساتھ ہوا جو جنوبی افریقہ کی سیاہ فام آبادی کے لیڈر ہیں۔ ان کو ہندستان بلا کر بھارت رتن کا اعلیٰ ترین انعام اور پچاس لاکھ ڈالر (۵ ملین ڈالر) کا چیک دیا گیا، حکومت کی طرف سے ان کا شاہانہ استقبال کیا گیا۔ ۱۷ اکتوبر ۱۹۹۰ کو جب وہ ہندستان سے واپس جارہے تھے تو انھوں نے( ہندستان ٹائمس ۱۸ اکتوبر ۱۹۹۰) کہا کہ ہندستان آنا میری زندگی کا بہت یادگار لمحہ تھا۔ اس نے میری روح کے اندر تموج پیدا کر دیا :
It has thrilled me all the way. (p. 3)
دنیا کا انعام ، آخرت کے انعامات کے مقابلہ میں ، بہت کم ہے۔ پھر دنیا کامعمولی انعام جب آدمی کو اتنے سرور میں مبتلا کر دیتا ہے تو آخرت کے عظیم تر انعام کو پاکر آدمی کے اندر کتنا زیادہ سرور پیدا ہوگا۔ آدمی اگر اس حقیقت کو جانے تو اس کی پوری زندگی بدل جائے۔ وہ دنیا کے بجائے آخرت کے لیے کام کرنے لگے ۔