سفرنامہ روس - ۲
۲۹ جولائی کو ابھی ظہر کی نماز پڑھ کر فارغ ہوا تھا کہ کمرہ کے دروازہ پر دستک ہوئی۔ سوٹ میں ملبوس ایک روسی اندر داخل ہوئے ۔ آتے ہی انھوں نے اردو میں بولنا شروع کیا۔ ماسکو میں ایک اردو داں کو دیکھ کر مجھے بڑا تعجب ہوا۔ معلوم ہوا کہ یہ ڈاکٹر گولب یف (Isaac Golobyev) ہیں۔ انھوں نے ماسکو یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا اور پھر اردو میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ وہ سوویت وومن کے ہندی اڈیشن کے اڈیٹر ہیں جو سوویت ناری کے نام سے نکلتا ہے ۔ وہ ایک سے زیادہ بار انڈیا کا سفر کر چکے ہیں ۔
انھوں نے بتایا کہ ماسکو یونیورسٹی کے علاوہ روس کے اور بہت سے تعلیمی اداروں میں اردو پڑھانے کا انتظام ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ اردو پڑھ لیتے ہیں۔ انھوں نے کہا ‘‘میں تو اردو کا دل دادہ ہوں’’ ہوٹل کے کمرہ سے ہم لوگ باہر نکلے تو دو روسی عورتیں گزر رہی تھیں ۔ وہ ڈاکٹر گو لب یف کو جانتی تھیں۔ انھوں نے ہنستے ہوئے اپنی زبان میں کوئی بات کہی ۔ ڈاکٹر گولب یف نے بتایا کہ وہ کہہ رہی ہیں : ‘‘اس غیر ملکی کو روسی زبان بہت اچھی آتی ہے ’’۔ انھوں نے بتایا کہ سوویت یونین میں ہر آدمی پڑھا لکھا ہے ۔ سات سال کی عمر میں اسکول جانا لازم ہو جاتا ہے۔
میں نے پوچھا کہ آپ مذہب میں عقیدہ رکھتے ہیں ۔ انھوں نے جواب دیا : مذہب میں عقیدہ نہیں رکھتا ہوں ، مگر جو عقیدہ رکھتے ہیں ان کی بہت عزت کرتا ہوں ۔ انھوں نے بتایا کہ‘‘ تین سال تک میں پاکستان میں تھا۔ میرے دفتر میں ایک مسلمان میرے ساتھ کام کرتا تھا’’ میں نے پاکستان میں مجبور اً روزہ رکھا۔ جب میرا ساتھی نہیں کھاتا تو میں کیسے کھا سکتا تھا۔ انھوں نے کہا۔
۲۹ جولائی کو دوپہر بعد ڈاکٹر گو لب یف کے ساتھ ہوٹل سے نکلا۔ انھوں نے ماسکو شہر کا مختلف حصہ دکھایا۔ اس مشاہدہ میں ماسکو ایک با عظمت شہر نظر آیا۔ اس کو دیکھ کر محسوس ہو رہا تھا کہ واقعۃ ً میں ایک سپر پاور کی راجدھانی دیکھ رہا ہوں ۔ ہم لوگ شہر دیکھنے کے لیے نکلے تو دھوپ ہو گئی۔ اس کی وجہ سے دیکھنے میں بڑی آسانی ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ دھوپ کو روسی زبان میں کیا کہتے ہیں۔ انھوں نے ایک کا غذ پر اپنے قلم سے یہ الفاظ لکھے : سون تسے۔ اسی طرح میں نے ان سے پوچھا کہ ماسکو بڑا ہے Moscow is great)) کو روسی میں کس طرح کہیں گے ۔ انھوں نے کہا : مسکوا ولی کیا۔
کریملن کو زیادہ تفصیل کے ساتھ دیکھا۔ یہ دہلی کے لال قلعہ کی مانند اس سے زیادہ بڑا ایک علاقہ ہے۔ وہ زار کے زمانہ سے لے کر اب تک روسی سلطنت کا عظیم مرکز رہا ہے۔ ۱۹۵۶ تک اس کے اندر کوئی نہیں جاسکتا تھا۔ اس کے بعد خر وشچوف نے اس کے دروازے عام لوگوں کے لیے کھول دیے۔ چنانچہ آج بھی ہزاروں آدمی اس کے اندر گھومتے ہوئے نظر آئے۔ ان میں ملکی اور غیر ملکی دونوں تھے ۔ تاہم اس پر ہیبت دنیا کی خصوصیات کو لفظوں میں بیان کرنا بے حد مشکل ہے۔
کریملن کے اندر کئی قدیم چرچ بھی ہیں۔ زار بادشاہوں کا مذہب عیسائیت تھا۔ اس لیے انھوں نے کر یمن میں ، جو گویا ان کا قلعہ اور محل تھا، چرچ بھی بنوائے ۔ ایک تاریخی چرچ کو اندر سے دیکھا اس میں پیتل کے بڑے بڑے تابوتوں میں قدیم روسی بادشاہوں کی لاشیں رکھی ہوئی ہیں۔ کریملن کے پورے علاقے میں حیرت انگیز حد تک صفائی موجود تھی۔ جب کہ وہاں ہم کو صفائی کرنے والے دکھائی نہیں دیے۔ صفائی کا محکمہ صبح کو صفائی کرتا ہو گا۔ مگر اس کے بعد سارے دن اس کا صاف رہنا اس کے زائرین اور اس کے باشندوں کے نظم اور صفائی پسندی کا ثبوت ہے۔
کریملن کی تاریخی چیزوں میں ایک عظیم توپ ہے جوزار کے زمانہ میں بنائی گئی۔ اس کے بڑے بڑے گولے بھی اس کے ساتھ رکھے ہوئے تھے۔ مگر یہ توپ کبھی استعمال نہیں ہوئی۔ اسی طرح ایک بہت بڑا لوہے کا گھنٹہ ہے جو چرچ کے لیے منقش انداز میں بنایا گیا تھا۔ وہ بھی عمارت کے اوپر لگایا نہ جاسکا۔ میں نے سوچا کہ اسی طرح کتنے انسان ہیں جو دنیا میں آتے ہیں مگر وہ یہاں اپنی حقیقی جگہ نہیں پاتے۔ وہ استعمال ہوئے بغیر اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔
کریملن کے ایک حصہ میں لینن کا مقبرہ ہے۔ تاج محل میں حسن کا پہلو نمایاں ہے مگرلینن کا مقبرہ اس طرح بنایا گیا ہے کہ اس میں عظمت کا پہلو ابھرا ہوا نظر آتا ہے۔ ہم مقبرہ کے سامنے پہنچے تو اس کےدروازہ کے باہر دو انسانی صورتیں اسٹیچو کی طرح کھڑی ہوئی نظر آئیں۔ دوفوجی جوان مکمل وردی کے ساتھ رائفل لیے ہوئے آمنے سامنے کھڑے ہوئے تھے ۔ دونوں اس قدر ساکن اور صامت تھے کہ بظاہر یہ معلوم ہوتاتھا کہ وہ انسان کی مورتیں ہیں۔
بتایا گیا کہ یہ مورتیں یا اسٹیچو نہیں ہیں بلکہ زندہ فوجی ہیں۔ اصل یہ ہے کہ لینن کے مقبرہ کے دروازہ پر ۲۴ گھنٹہ دو مسلح فوجی جوان رہتے ہیں۔ وہ ذرا بھی ہلے بغیر کھڑے رہتے ہیں۔ چوں کہ آدمی اس طرح زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتا، اس لیے ہر ایک گھنٹہ پر ان کی ڈیوٹی بدلتی رہتی ہے ۔ جیسے ہی ایک گھنٹہ پورا ہوتا ہے، دوسرے دو فوجی جو ان خاص انداز میں چلتے ہوئے آتے ہیں اور ان کی جگہ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ روس میں لینن کو جو غیر معمولی عظمت حاصل ہے ، یہ اس کا ایک مظاہرہ ہے۔
اس کو دیکھ کر میں نے سوچا کہ مردہ انسان کے علامتی ڈھانچہ کی حفاظت پر اتنے زبر دست پہرے لگے ہوئے ہیں ، مگر دنیا میں وہ انسان کہیں نظر نہیں آتا جس نے اپنے زندہ وجود کو نفس اور شیطان سے بچانے کے لیے اپنے اوپر پہرہ بٹھا رکھا ہو۔ حالاں کہ یہ دوسرا پہرہ‘‘مفت’’ میں حاصل ہوتا ہے ۔ آپ اللہ سے دعا کیجیے اور اللہ کے فرشتے آپ کی پہریداری کے لیے فوراً آپ کے پاس آجائیں گے۔
ماسکو میں دنیا کا سب سے بڑا سرکس ہے۔ آج اس کا مخصوص شو تھا۔ میرے نہ چاہتے ہوئے بھی میرے میزبان نے مجھ کو لے جا کر وہاں بٹھا دیا۔ بادل ِناخواستہ وہاں جا کر بیٹھ گیا۔ اس کی عمارت سے لے کر ہر چیز تک غیر معمولی تھی ۔ حد درجہ تربیت یافتہ قسم کے آدمی ، گھوڑے، اونٹ، بندر ،کتے بار بار آکر طرح طرح کے تماشے دکھاتے رہے۔ ہزاروں تماشائی محظوظ ہو کر تالیاں بجارہے تھے۔
مگر مجھے ان چیزوں کا کوئی ذوق نہیں۔ میں بے رغبت بیٹھا ہوا کبھی آنکھ کھولتا اور کبھی آنکھ بند کرتا، تاہم اس کا ایک ‘‘آئٹم’’ بڑا عجیب تھا ۔ درمیان میں کھلے ہوئے اسٹیج پر ایک بہت بڑا جالی دار پنجرہ کھڑا کر دیا گیا۔ اس کے بعد پندرہ بڑے بڑے شیر اس کے اندر داخل کیے گئے۔ ایک تنہا آدمی کالا سوٹ پہنے ہوئے اس کے اندر موجود تھا۔ اس کے ہاتھ میں تقریباً ۴فٹ لمبی چھڑی تھی جس کی سفیدی بتا رہی تھی کہ وہ لوہے کی ہے ۔ تمام شیر اس آدمی کی چھڑی کے اشاروں پر حرکت کرنے لگے۔
جس طرح ہندستان میں ایک مداری بندر کو تربیت دے کر اس سے طرح طرح کے تماشے کراتا ہے ، اسی طرح یہ آدمی پندرہ شیروں کے درمیان کھڑا ہوا ان سے عمل کروار ہاتھا۔ حاضرین سانس روکے ہوئے اس حیرت ناک‘‘ شو ’’کو دیکھتے رہے۔ شیر کبھی کبھی آدمی کی چھڑی پر غر اتے اور دانت اور پنجہ نکالتے ، مگر اس کے باوجود وہ مجبور مخلوق کی طرح اس کے ‘‘احکام’’ کی پابندی کرتے رہے۔ یہ شو اتنا عجیب تھا کہ جب میں اس کو سوچتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے میں نے کوئی خواب دیکھا ہو۔
سرکس کا شو دیکھنے کے بعد ہم لوگ ہوٹل واپس آئے تو گھڑی میں دس بج چکے تھے۔ شام کو۱۰ بجے ہندستان میں رات کا وقت ہوتا ہے۔ مگر یہاں ابھی فضا میں اجالا تھا اور مغرب کا وقت ہو رہا تھا۔یہ صورت حال ان ملکوں میں پیش آتی ہے جوقطبین کے قریب واقع ہوں ۔ ان علاقوں میں ان دنوں رات چھوٹی ہوتی ہے اور دن بڑا۔ دوسرے موسم میں وہاں دن چھوٹا ہوتا ہے اور رات بڑی۔ جو ممالک خط استوا سے قریب ہیں وہاں یہ جغرافی مظہر دکھائی نہیں دیتا۔
۳۰ جولائی کو دوشنبہ کا دن تھا۔ میں نے ہوٹل میں ایک صاحب کو ٹیلیفون کرنا چاہا جن کا روم نمبر 1829 تھا۔ میں اپنے کمرہ کے ٹیلیفون پر یہ نمبر گھما تا رہا ۔ مگر دوسرے کمرہ میں گھنٹی نہیں بجتی تھی ۔ آخر ریسپشن ڈسک پر پوچھا تو معلوم ہوا کہ مذکورہ کمرہ کے ٹیلیفون کا نمبر 80-42-166ہے۔ اسی طرح میرے کمرہ کا نمبر 1029 تھا۔ مگر اس کا ٹیلی فون نمبر یہ تھا : 06-42-166 - آزاد دنیا کے تمام ملکوں میں یہ قاعدہ ہے کہ کمرہ کا جو نمبر ہوتا ہے وہی اس کا فون نمبر بھی ہوتا ہے۔ مگر یہاں کے نظام میں ہرچیز پر سادگی کے بجائے پیچیدگی کا انداز چھایا ہوا ہے۔
یہاں کے پیچیدہ سسٹم کے بارے میں اس طرح کے کئی تجربے ہوئے ۔ میں نے ایک روسی تعلیم یافتہ شخص سے پوچھا تو اس نے کہا کہ میں بہت سے ملکوں میں گیا ہوں۔ میں خود محسوس کرتا ہوں کہ ہمارے یہاں کا نظام ہر جگہ سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ ہم کو بہت سی غیر ضروری مشکلیں پیش آتی ہیں۔ اور اس کی وجہ ہمارے یہاں کی حد درجہ بڑھی ہوئی بیورو کریسی ہے۔
۱۱ بجے سوویت روس کے کچھ ذمہ داروں سے ملاقات ہوئی۔ اس میں حسب ذیل افراد شریک تھے ۔ مسٹر الکسی لون کوف (Alexei l. Lounko) ڈپٹی ہیڈ ، ساؤتھ ایشین ڈپارٹمنٹ، اینڈری سوروکن (Andrei A. Sorokin) جنرل سکریٹری ، سوویت انڈین فرینڈ شپ سوسائٹی، ڈاکٹر جنادی او دیف (Gennady P. Avdeyed) سکریٹری ، سوویت انڈین فرینڈ شپ سوسائٹی، الکسی وی گالکن (Alexey V. Galkin) سکریٹری یوایس ایس آر فرینڈ شپ سوسائٹی ۔ اس ملاقات میں زیادہ تر اس موضوع پر گفتگو ہوئی کہ سوویت یونین کے مسلمانوں اور انڈیا کے مسلمانوں کے در میان تعلقات کس طرح بڑھائے جاسکتے ہیں۔
ماسکو میں قیام کے دوران بار بار شہر میں آنے جانے کا اتفاق ہوا۔ اس کے مختلف حصے دیکھے۔ یہاں کی ایک بات مجھے پسند آئی۔ سڑک پر اور فٹ پاتھ پر سامان بیچنے والے کہیں نظر نہیں آئے جب کہ دہلی میں اور ہندستان کے دوسرے تمام چھوٹے اور بڑے شہروں میں یہ کاروباری مصیبت انتہائی عام ہے۔ غالباً یہ بھی ایک وجہ ہے جس کی بنا پر شہر میں ہر جگہ صفائی نظر آئی۔
اسی طرح ماسکو میں کئی چیزیں میرے ذوق کے اعتبار سے بہت عمدہ تھیں، وہاں سڑکوں پر بے شمار گاڑیاں ہر وقت دوڑتی ہیں، مگر مجھے ایک بار بھی ہارن کی آواز سنائی نہیں دی۔ ایک بار بھی لاؤڈ اسپیکر کا شور سننے پر مجبور ہونا نہیں پڑا۔ سائرن کی آوازیں بھی وہاں نہیں تھیں ۔ پھیری کرنے والوں اور خوانچہ والوں کے شور سے پورا شہر بالکل خالی تھا۔ شہر کے کسی حصہ میں مجھے وہ منظر دکھائی نہیں دیا جس کو ہندستان کے شہروں میں جھگی جھونپڑی کہا جاتا ہے جس کو آپ دہلی اور دوسرے بڑے شہروں میں ہر جگہ دیکھ سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ایسی جھو نپٹریاں بھی کہیں پائی جاتی ہوں مگر مجھے آتے جاتے ہوئے وہ دکھائی نہیں دیں۔
مجھے خود تو یہاں ٹیکسی لینے کی ضرورت پیش نہیں آئی ۔مگر ایک سیاح نے بتایا کہ ایک غیر ملکی جب یہاں ٹیکسی پر سوار ہوتا ہے تو ٹیکسی والا اس سے ڈالر کا تقاضا کرتا ہے ، وہ روبل لینا پسند نہیں کرتا۔ اسی طرح ہر جگہ روبل کے مقابلہ میں ڈالر زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ کے مقابلہ میں سوویت یونین کی اقتصادی حالت کیا ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ روبل سے وہ صرف روسی مصنوعات خرید سکتے ہیں جو کو الیٹی میں اعلیٰ نہیں ہوتیں ۔ جب کہ ڈالر کے ذریعہ ہر قسم کی اعلیٰ چیزیں خریدی جا سکتی ہیں۔
ہوٹل کا مغربی حصہ کھلا ہوا تھا شیشوں کے اُس پار باہر کی دنیا صاف دکھائی دے رہی تھی۔ دیوار سے لگے ہوئے چوڑے شیشے میرے اور شہر کے درمیان مادی اعتبار سے حائل تھے لیکن نگاہ شفاف شیشوں کو پار کر کے دور تک ماسکو کا منظر دیکھ سکتی تھی۔ اگر اللہ تعالی نے تمام مادے ایسے بنائے ہوتے جن سے روشنی پار نہ کر سکے تو ایسا مشاہدہ ناممکن ہوتا۔ مگر اللہ نے کثیف مادوں کے ساتھ شیشہ جیسی چیزیں پیدا فرمائیں جن سے روشنی گزرسکتی ہے اور اس بنا پر یہ ممکن ہو گیا ہے کہ ہم شیشہ کے اُس پارکے منظر کو دیکھ سکیں۔
دنیا میں اس قسم کے بے شمار واقعات ہیں جو بتاتے ہیں کہ اس دنیا کی تخلیق منصوبہ بند انداز میں ہوئی ہے، مگر عجیب بات ہے کہ موجودہ دنیا کے وہ لوگ جنھوں نے کائنات کی اس منصو بہ بند نوعیت کو سب سے زیادہ کھولا ، وہی یہ ثابت کرنے میں مشغول ہیں کہ دنیا کی تشکیل میں منصوبہ کا کوئی دخل نہیں ، صرف اس لیے کہ اگر وہ اس میں منصوبہ کو مان لیں تو فوراً منصوبہ ساز کو ماننا پڑے گا، اور ان کا مزاج کسی منصوبہ ساز کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔
مزاجی اعتبار سے آدمی اگر کسی بات کو ماننا نہ نہ چاہتا ہو تو دلیل اس کو منوانے کے لیے کافی نہیں ہو سکتی ، خواہ کتنے ہی زیادہ طاقت ور دلائل کے ساتھ اس کو ثابت کر دیا گیا ہو۔ خواہ کتنے ہی زیادہ حقائق اس کی تصدیق کرنے کے لیے موجود ہوں۔
حال میں سوویت روس کے اندر جو تبدیلیاں ہوئی ہیں وہ بے حد سبق آموز ہیں۔ روس میں ۱۹۱۷ میں کمیونسٹ انقلاب آیا۔ دوسری عالمی جنگ میں کمیونسٹ روس کو یہ موقع ملا کہ وہ بہت بڑے رقبہ کو اپنے اندر شامل کر لے ۔ اس موضوع پر کچھ لوگوں سے میری گفتگو ہوئی۔ میں نے جو کچھ کہا، اس کا خلاصہ یہاں درج کیا جاتا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت روس کے لیے امریکہ سب سے بڑ انظریاتی اور فوجی دشمن تھا۔ سوویت روس کے حکمرانوں نے اپنی ساری توجہ سب سے زیادہ دو چیزوں پر لگادی ۔ ایک ، تمام اشاعتی ذرائع کو استعمال کر کے یہ ثابت کرنا کہ امریکہ کا سرمایہ دارانہ نظام سب سے برا نظام ہے اور روس کا اشتراکی نظام سب سے بہتر نظام (9/764)
دوسری طرف روس نے اپنے بہترین سائنسی دماغوں کو جنگی اہمیت کی چیزوں کی ریسرچ پر لگا دیا ۔ ۱۹۴۹ میں سوویت روس نے اپنے پہلے نیو کلیر ہتھیار کا تجربہ کیا۔ اس طرح اُس نے اس افسانہ کا خاتمہ کر دیا کہ امریکہ دنیا کا واحد ملک ہے جو نیو کلیر ہتھیار رکھتا ہے (۷۶۴/۹) اس کے بعد روس نے اکتوبر ۱۹۵۷ سے اسپٹنک (مصنوعی سیارہ) کا سلسلہ شروع کیا۔ اس نے انسانی تاریخ میں پہلی بار ایسے مصنوعی سیارے کامیابی کے ساتھ خلا میں بھیجے جو زمین کے گرد گھومتے تھے ۔ یہاں تک کہ اس کے بارے میں لکھا گیا کہ سوویت روس نے تاریخ میں پہلی بار خلائی دور شروع کیا:
Soviet Union............ inaugurated the Space Age (IX/500).
سوویت روس اپنی چالیس سالہ کوششوں سے امریکہ کے بعد دوسری سب سے بڑی طاقت (سپر پاور) بن گیا۔ مگر روس کو یہ کامیابی ایک بے حد مہنگی قیمت پر ملی ۔ جنگی دیو بننے کے لیے اس کو اپنے وسائل کی اتنی زیادہ مقدار صرف ایک محاذ پر لگانی پڑی کہ دوسرے اقتصادی شعبوں کے اعتبار سے وہ ایک بونی قوم بن گیا۔ روس میں خوراک اور استعمال کی اشیاء کی فراہمی ہولناک حد تک کم ہوگئی۔ اس کے فوجی گودام خطر ناک فوجی ہتھیاروں سے بھرے ہوئے تھے مگر اس کے بازار اشیاء خوراک اور عام استعمال کی چیزوں سے خالی تھے۔
اب حکمرانوں کے لیے دو صورت تھی ۔ ایک یہ کہ عوام کی بربادی کے کھنڈر پر وہ بدستور اپنا سیاسی تخت بچھائے رہیں۔ کیوں کہ جو کچھ مصیبت تھی وہ عوام پرتھی، خود ان کا اپنا مسئلہ ہر اعتبار سے حل شدہ تھا۔ دوسری صورت یہ تھی کہ وہ ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ایک انقلابی فیصلہ کریں ، خواہ اس انقلابی فیصلہ کے نتیجے میں انھیں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے ۔ سوویت روس کے موجودہ وزیر اعظم نے اسی دوسرے راستہ کو اپنے لیے اختیار کیا ہے۔
یہی وہ بات ہے جو لندن کے انگریزی اخبار سنڈے ٹائمس ( ۱۰ جون ۱۹۹۰ ) نے اپنے اداریہ میں کہی ہے ۔ اس نے لکھا ہے کہ تاریخ کے تیز دھارے میں ایک خطرہ ہٹتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ سرد جنگ ختم ہو رہی ہے اور یہ بڑی حد تک مغرب کی فتح کے ہم معنی ہے:
In the sweep of history, as one threat recedes, another replaces it. The cold war is ending, largely in victory for the west.
تاہم اس دنیا میں نہ کوئی ہار آخری ہار ہے اور نہ کوئی جیت آخری جیت ۔ اگر سوویت روس نے مغرب کے مقابلہ میں اپنی عارضی’’ پسپائی ‘‘ کو وقفہ ٔتعمیر کے طور پر استعمال کیا تو عین ممکن ہے کہ وہ ترقی کا نیا سفر شروع کر دے اور کسی نئی صورت میں اپنے لیے سپر پاور کا مقام دوبارہ حاصل کرلے۔
سوویت یونین ۱۵ جمہوریتوں پرمشتمل ہے۔ وہ دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کے پاس بہترین جغرافیہ ہے۔ اس کے پاس انسانی قوت بھی موجو د ہے۔ مگر ۷۰ سالہ انقلابی عمل کے باوجود وہ دنیا کی ترقی یافتہ قوموں سے پیچھے ہو گیا۔ اس کا واحد سبب مارکسزم ہے۔
مارکسی نظریہ کے تحت یہاں کے تمام زرعی اور تجارتی ذرائع بجبر افراد کے ہاتھ سے چھین کر حکومتی انتظام میں دے دیے گئے۔ اس مصنوعی انتظام نے سوویت سماج میں مقابلہ کا عمل ختم کر دیا۔ مقابلہ کی حالت کسی سماج میں ہمیشہ اس وقت قائم ہوتی ہے جب کہ ان کو یہ احساس ہو کہ وہ صرف اپنی ذاتی کارکر دگی سے ترقی کرسکتے ہیں ۔ مگر جب تمام لوگوں کو سرکاری ملازم بناکر انھیں مقررہ تنخواہ پر ڈال دیا جائے تو لوگوں کے اندر ذاتی محرک کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے ۔ اب آدمی کسی چیلنج سے دوچار نہیں ہوتا جو اس کی قوت عمل کو متحرک کرے۔ ایسا سماج کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ اور یہی اشتراکی روس کے ساتھ ہوا۔
اشتراکی روس کے لیے مارکسزم کا دوسرا تحفہ جنگ جوئی تھا۔ مارکس نے بتایا کہ دنیا میں بہتر نظام لانے کے لیے جنگ ضروری ہے۔ کیوں کہ استحصال کرنے والا طبقہ فہمائش کے ذریعہ اپنے مفادات سے دست بردار نہیں ہوتا۔ اس لیے مزدور طبقہ کو اس سے جنگ کرنی پڑتی ہے۔ تا کہ برابری کا سماج قائم کرنے میں جو واحد رکاوٹ ہے اس کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دے ۔ مارکس کا یہی نظر یہ تھا جس نے سوویت یونین کو امریکہ کا دشمن بنا دیا۔ کیوں کہ ’’سرمایہ دارانہ نظام‘‘کے اس سب سے بڑے ایجنٹ کو نیست و نابود کیے بغیر دنیا میں اشتراکی سماج نہیں لایا جا سکتا تھا۔ اس نظریہ نے روس کی بہترین طاقت کو جنگی کارروائیوں کی طرف موڑ دیا جس کے نتیجہ میں یہ ہوا کہ آخر کاروہ دیوالیہ ہوکر رہ گیا۔
اب اشتراکی روس نے اس مجنونانہ قسم کے جنگی نظریہ سے تو بہ کرلی ہے۔ روس کے موجودہ حکمراں میخائیل گوربا چیف کو ان کی قیام ِامن کی خدمات پر ۱۹۹۰ کا نوبیل انعام دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ ناروے کی انعام کمیٹی کے بیان کے مطابق (ہندستان ٹائمس ۱۶ اکتوبر ۱۹۹۰ ) گور با چیف کے پرسترائیکا (Perestroika) کے نتیجہ میں پچھلے چند سالوں میں مشرق اور مغرب کے درمیان تعلقات میں ڈرامائی تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں۔ ٹکراؤ کی جگہ اب بات چیت نے لے لی ہے:
In the last few years dramatic changes have taken place in the relationship between East and West. Confrontation has been replaced by negotiation.
مگر عجیب بات ہے کہ عین اسی وقت ساری دنیا کے’’ اسلام پسند‘‘ نوجوانوں نے اس تباہ کن جنگی نظریہ کو اسلامائزکر کے اس کا جھنڈا اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے ۔ اب ہر جگہ وہ بم اور گولی کی منطق سے اسلامی انقلاب بر پا کرنے کا ہنگامہ کھڑا کیے ہوئے ہیں ۔ یہ مسلم نوجوان سید قطب ، خمینی اور مودودی کے نظریات سے متاثر ہیں اور ان کو مفکرین اسلام کا خطاب دیتے ہیں۔ حالانکہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو مخربین اسلام کا لقب عطا کیا جائے۔
میری لائبریری میں کمیونزم سے متعلق جو کتا بیں ہیں ، ان میں سے ایک ساڑھے سات سو صفحہ کی وہ کتاب ہے جو مارکس اینجلز اور لینن کی اہم ترین تحریروں (Most important writings) پرمشتمل ہے ، اس کی ابتدا میں ناشر کی طرف سے جو نوٹ ہے ، اس میں کہا گیا ہے کہ یہ تحریریں ان قوانین سے بحث کرتی ہیں جو سماج کی ترقی میں حاکمانہ اثر رکھتی ہیں اور یہ بتاتی ہیں کہ سماجی ترقی میں انقلابات کا کر دار کیا ہے :
They deal with the laws governing the development of society; tell the role of revolutions in social development.
یہ کتاب ۱۹۷۲ کی چھپی ہوئی ہے۔ اس وقت یہ حال تھا کہ ان کمیونسٹ مفکرین کی تحریروں کو آسمانی صحیفہ کی طرح اٹل اور محکم بتا کر دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔ مگر اس کی اشاعت کے ۲۰ سال بعد جب میں سوویت روس کی دنیا میں داخل ہوا تو وہاں شاید کوئی ایک شخص بھی نہ تھا جو ماضی کی ان تحریروں کو پڑھنا تو درکنار ان کا تذکرہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہو ۔
اس کتاب میں لینن کا مضمون ہے۔ اس میں مذہب کو بے حقیقت بتاتے ہوئے لینن نے کہا تھا کہ مذہب عوام کے لیے افیون ہے:
Religion is opium for the people (p. 411)
آج خود اشتراکی روس کا یہ حال ہے کہ وہاں کے درو دیوار تک پکار رہے ہیں کہ مذہب ایک فطری صداقت ہے، اور خود مارکسزم ایک افیون ہے جس میں روسی عوام کو سترسال تک مبتلا رکھا گیا۔ ’’ہیرو ور شپ ‘‘کے مزاج کے تحت اگر یہ آج بھی لینین کا شخصی احترام روس میں باقی ہے، مگر اس کی تحریروں کو مقدس سمجھ کر اس کی تلاوت کرنے والا اب شاید ملک میں کوئی بھی نہیں۔
ماسکو میں میری طبیعت خراب ہو گئی ۔ میں نے چاہا کہ میں مزید سفر کا سلسلہ ختم کر کے ماسکو ہی سے دہلی واپس چلا جاؤں ۔ مگر معلوم ہوا کہ میں فوراً یہاں سے نہیں جاسکتا ، کیوں کہ اگلی دوفلائٹ (ائیرانڈیا ، ایروفلاٹ) مکمل طور پر بک ہو چکی ہیں ۔ یہی حال ۲۸ جولائی کو یہاں آتے ہوئے ایروفلاٹ کا تھا۔ بڑے جہاز کی تمام سیٹیں بھری ہوئی تھیں۔
اس سے اندازہ ہوا کہ دہلی اور ماسکو کے درمیان کافی مسافر ہوتے ہیں۔ تجارت اور تعلیم اور حکومتی ضروریات کے تحت لوگ سفر کر تے ہیں ۔ حالاں کہ ہفتہ میں تین فلائٹ ایئر انڈیا کی ہے۔اور تین فلائٹ ایر وفلاٹ کی ۔
یہ غالباً جواہر لال نہرو کی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ انھوں نے مخصوص مقاصد کے تحت امریکہ سے دوری اختیار کی اور روس سے اپنے تعلقات بڑھائے ، مگر نئے حالات نے ثابت کیا ہے کہ خود سوویت یونین اپنی ترقی کے لیے امریکہ کا ضرورت مند ہے۔ چنانچہ وہ چاہتا ہے کہ امریکہ ۲۰ بلین ڈالر سے اس کی مدد کرے ۔ ۱۹۴۷ میں ایک طرف جاپان نے اپنی نئی زندگی شروع کی اور دوسری طرف ہندستان نے ۔ جاپان امریکہ کا تعاون لے کر بڑھا۔ آج وہ تمام ملکوں سے آگے بڑھ چکا ہے۔ ہندستان نے اشتراکی روس کے تعاون سے آگے بڑھنا چاہا مگر وہ کہیں نہیں پہنچا۔
آج دنیا بھر کے لوگ جاپان کی گھڑی پہننے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ مگر روسی صنعت کا حال عجیب ہے۔ دہلی کے ایک انگلش جرنلسٹ مسٹر ارن شرما نے مجھ سے فرمائش کی تھی کہ میں ان کے لیے روس کی بنی ہوئی پاکٹ واچ لے آؤں ۔ کیوں کہ وہ ہاتھ کی گھڑی استعمال نہیں کرتے۔ وہ جیبی گھڑی کو پسند کرتے ہیں۔ماسکو میں میں نے ایک واقف کا رسے اس کا ذکر کیا۔ اس نے کہا کہ روسی گھڑی اطمینان بخش نہیں ہوتی۔ اس کی پائداری کی کوئی ضمانت نہیں۔
آزادی ( ۱۹۴۷) کے بعد ہندستان کے ترقی نہ کرنے کا کم از کم ایک بڑا سبب یہ ہے کہ آزادی کے بعد اس کی قیادت نہرو کے ہاتھ میں آئی ۔ نہرو پہلے سے اشتراکی ذہن کے آدمی تھے بعض سیاسی اسباب کے تحت وہ روس سے قریب ہونے پر مجبور ہوئے ۔ انھوں نے ہندستان کی ترقی کے لیے ، اپنے الفاظ میں ، ‘‘سوشلسٹک پیٹرن ’’کو اختیار کیا۔( مثلاً پانچ سالہ منصوبے، پبلک سکٹر، نیشنلائزیشن ، حکومتی کنٹرول ، وغیرہ ) اگر انھوں نے اس کے بجائے امریکی پیٹرن کو اختیار کیا ہوتا، نیز پڑوسی ملک سے ٹکراؤ کی حالت کو ختم کر دیتے تو مجھے یقین ہے کہ ہندستان آج ایشیا کا سب سے زیادہ طاقت ور اور سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہوتا۔ سوشلزم اور جنگی بجٹ کے دوپاٹوں میں ہندستان پس کر رہ گیا ، اور دونوں کی ذمہ داری جواہر لال نہرو پر آتی ہے۔
خروشچوف کے زمانہ میں ایک لطیفہ مشہور ہوا تھا۔ وہ ایک مرتبہ ایک روسی کارخانہ میں گئے۔ انھوں نے وہاں کے ایک کارکن سے کارخانہ کے حالات پوچھے ۔ اشتراکی کا رکن نے کارخانہ کی کارکردگی اور اس کی پیداوار کی زبر دست تعریف شروع کی۔ خروشچوف کو اس کی تعریف مبالغہ آمیز معلوم ہوئی ۔ اس نے کہا : تم جانتے ہو ، میں کون ہوں۔ میں روس کا وزیر اعظم خروشچوف ہوں۔ کار خانہ کا کارکن معذرت کرتے ہوئے بولا۔ معاف کیجیے گا ، میں سمجھا کہ آپ کوئی غیر ملکی مہمان ہیں۔
روسی صنعت کے بارے میں یہ لطیفہ چھپا تو دنیا بھر کے کمیونسٹوں نے کہا کہ یہ سرمایہ داروں کا پروپگنڈہ ہے ۔ مگر اب خود گور با چیف اور دوسرے روسی ذمہ دار کھلے لفظوں میں اس حقیقت کا اعتراف کر رہے ہیں ۔ اب سوویت روس میں ذاتی اخبار نکالنے کی اجازت ہو گئی ہے۔ چنانچہ بہت سے لوگ ذاتی اخبارات نکال رہے ہیں۔ ان اخباروں کی قیمت سرکاری اخباروں سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے باوجود یہ اخبارات سرکاری اخباروں سے زیادہ بکتے ہیں۔ اور اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ ان اخباروں میں روسی حکومت اور روسی نظام پر تنقید ہوتی ہے۔
۳۱ جولائی کی شام کو یہاں کی میٹرو( زمین دوز ٹرین) دیکھی۔ کہا جاتا ہے کہ ماسکو کی زمین دوز ٹرین دنیا کے چند بہترین نظاموں میں سے ایک ہے۔ اس کا ٹکٹ بہت سستا ہے۔ پانچ کیو پک میں کسی ایک لائن پر کہیں بھی جا سکتے ہیں ، سار اسسٹم الکٹرانک نظام پر قائم ہے۔
میرے ساتھی ڈاکٹر اودیف (Dr. Gennady P. Avdeyev) کے پاس روبل تھا۔ انھوں نے ایک خاص مشین میں اس کو ڈالا اور فوراً پانچ پانچ کو پک کے سکے نکل آئے۔ آگے بڑھے تو اندر داخل ہونے کے لیے ایک خاص دروازہ تھا۔ یہاں ایک شخص کو پانچ کیو پک برائے ٹکٹ ڈالنا تھا۔ ہم نے پانچ کیو پک ڈالے اور دروازہ سے گزر کر دوسری طرف پہنچ گئے۔ اگر کوئی شخص کیوپک نہ ڈالے تو آٹو میٹک طور پر دروازہ کے اندر سے ایک لوہا نکل کر دروازہ کوبند کر دے گا۔ ٹرین آرام دہ اور تیز رفتار تھی۔ میں ایک اسٹیشن تک جا کر واپس چلا آیا۔
ایک روبل میں ایک سو کیوپک ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ عام لوگوں کے لیے بے حد سستی سواری ہے۔ اس کے ساتھ اس کا نظام تعجب خیز حد تک سادہ ہے۔ اندر کی تعمیر نہایت مضبوط اور نہایت شاندار نظر آئی۔ اگر دہلی میں اس قسم کا نظام قائم ہو جائے تو دہلی والوں کے لیے بہت بڑی نعمت ثابت ہوگا۔
ہوٹل کے رسپشن پر ایک خاتون تھیں۔ وہ صرف روسی زبان جانتی تھیں۔ میرے گائڈ کی مدد سے انھوں نے پوچھا کہ کیا یہ مسلمان ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ہاں۔ اس پر وہ بہت خوش ہوئیں۔ انھوں نے کہا کہ میں تاتاری نسل کی مسلمان ہوں ۔ انھوں نے اپنا نام جمو لود ینو احسانہ (جمال الدین حسنہ) بتایا۔ ان کی عمر ۵۱ سال تھی۔ وہ خود سے ایک روز میرے لیے چائے اور ناشتہ لے آئیں۔
میرا اندازہ ہے کہ روسی لوگ مزا جاً بہت اچھے ہیں۔ مگر یہاں قاعدے اور ضابطے اتنے زیادہ ہیں کہ چاہنے کے باوجود کوئی شخص کچھ کر نہیں سکتا۔ مثلاً ۳۱جولائی کی شام کو دہلی کے لیے ایر و فلاٹ کی پرواز تھی اور اسی دن ایرانڈیا کی پرواز بھی۔ میرے روسی میزبان نے دریافت کرکے بتایا کہ دونوں جہاز کی تمام سیٹیں بک ہو چکی ہیں۔ وہ دن بھر دوڑ دھوپ کرتے رہے ، مگر وہ ایر و فلاٹ میں میرے لیے ایک سیٹ حاصل نہ کر سکے۔
اس کے بعد میں نے انڈین ایمبیسی کو ٹیلیفون کیا۔ سفیر صاحب موجو د نہیں تھے۔ ان کے سکریٹری مسٹر گووندر سے بات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ میں ابھی ایر انڈیا سے معلوم کر کے بتاتا ہوں۔ صرف پانچ منٹ کے بعد دوبارہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ انھوں نے کہا کہ آپ ایر انڈیا کے دفتر میں جاکر مسز سونیا سنگھ سے مل لیں۔ وہ آپ کو سیٹ دے دیں گی۔ مسٹر گووندر نے یہ سیٹ رزرو کوٹا سے دلوائی ۔ اسی طرح ایرو فلائٹ میں بھی رزرو کوٹا ہوتا ہے ۔ مگر اس کو ٹہ سے کسی غیر شخص کے لیے سیٹ حاصل کرنے کا طریقہ اتنا پیچیدہ ہے کہ وہ عملاً ناممکن ہے۔ بعض وجوہ سے میں اس فلائٹ سے سفر نہ کر سکا۔ مگر مذکورہ تقابل سے دونوں ملکوں کے فرق کا اندازہ ہوتا ہے۔
مسٹر گولب ییف (Isaac Golubyev) کے والدین یہودی تھے۔ مگر وہ اپنے کولا مذہب بتاتے ہیں۔ وہ اپنے کو کمیونسٹ نہیں کہتے مگر خوب صورت انداز میں سوشلسٹ سماج کی تعریف کرتے ہیں۔ انھوں نے مجھ کو ماسکو کے کئی علاقے دکھائے۔ دریائےماسکو کے کنارے مردوں اور عورتوں کی ایک جماعت خوش و خرم کھڑی ہوئی تھی۔ درمیان میں ایک عورت خاص انداز کا سفید کپڑا پہنے ہوئے تھی۔ انھوں نے بتایا کہ یہ دلہن ہے۔ آج ہی ان لوگوں کی شادی ہوئی ہے۔ وہ یہاں خوشی منانے آئے ہیں۔ ان لوگوں کے پاس شمپین کی بوتلیں تھیں۔ ان کو کھول کر مرد و عورت سب کھڑے ہوئے۔ پی رہے تھے۔ (باقی)