فرض کی ادائیگی
ظل عباس عباسی صاحب ( پیدائش ۱۳۴۴ھ) ایک صحافی ہیں۔ وہ مختلف اخبارات میں کام کرتے رہے ہیں ۔ ۱۹۸۲ء سے وہ اخبار ملاپ (دہلی) سے وابستہ ہیں۔ ۱۵ اگست ۱۹۹۰ کی ملاقات میں انھوں نےایک واقعہ بتایا جس میں بہت بڑا سبق ہے۔
ظل عباس عباسی صاحب جب ملاپ کے دفتر میں آئے تو ان کے لیے جمعہ کی نماز کا مسئلہ پیدا ہوا۔ وہ اخبار کے مینجر مسٹر پریم ناتھ چوپڑا (۵۸ سال) کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ میں جمعہ کے دن نماز کے لیے مسجد جاؤں گا۔ اس میں جتنی دیر لگے گی ، اتنی دیر مزید کام کر کے میں اپنا چھ گھنٹہ کار کر دگی کا وقت پوراکردوں گا۔ مسٹر چوپڑا نے انھیں فوراً اجازت دے دی۔
ظل عباس عباسی صاحب نہایت پابندی کے ساتھ اپنے قول پر عمل کرتے رہے۔ وہ ہر جمعہ کو نماز کے وقت آفس سے چلے جاتے اور جتنی دیر انہیں لگتی، اتنی دیر مزید کام کر کے اپنے اوقات کا ر کر دگی کو پورا کر دیتے۔
ہفتے اور مہینے گزرتے رہے ۔ یہاں تک کہ رمضان کا زمانہ آگیا ، ابھی رمضان کا مہینہ شروع ہونے کو چند دن باقی تھے کہ مسٹر پریم ناتھ چوپڑا جناب ظل عباس عباسی صاحب کے کمرہ میں آئے۔ انھوں نے کہا کہ آپ کے روزے شروع ہونے والے ہیں۔ مجھے معلوم ہوا کہ آپ روزہ رکھتے ہیں۔ اب آپ اپنے اوقات تبدیل کر کے اس طرح کر لیں کہ آپ کو کوئی زحمت نہ ہو ۔ ہماری طرف سے اجازت ہے کہ آپ جب چاہے آئیں اور جب چاہے جائیں۔ رمضان کے مہینہ بھر آپ کے اوپر دفتری اوقات کی پابندی لازم نہ ہوگی ۔
جس طرح نماز کی ادائیگی ایک فریضہ ہے، اسی طرح یہ بھی ایک فریضہ ہے کہ آدمی اپنی ڈیوٹی کو پوری طرح ادا کر ے ۔ اگر نماز پڑھنے والے اس حقیقت کو جانیں اور اپنے اندر دونوں صفات پیدا کر لیں تو نماز ان کے لیے بیک وقت دو عظیم فائدوں کا ذریعہ بن جائے گی۔ ایک طرف وہ ان کے اندر روحانی صفت پیدا کر کے انہیں خدا سے قریب کرے گی۔ دوسری طرف ان کے اندر وہ اخلاقی صفت پیدا کرے گی جس کے ذریعہ وہ بندوں کی نظر میں محبوب و مقبول بن جائیں۔