سبب کیا ہے

قرآن میں بار بار مختلف انداز میں یہ بات کہی گئی ہے کہ بہت سے انسان ایسے ہیں جن کا حال یہ ہوتا ہے کہ ان کے سامنے سچائی کو ہر قسم کے دلائل کے ساتھ بیان کر دیا جائے ، تب بھی وہ اس کو قبول نہیں کریں گے ۔ مثلاً حضرت صالح علیہ السلام کے تذکرہ کے ذیل میں بتایا گیا ہے کہ انھوں نے اپنی قوم کے سامنے حق کو پوری طرح واضح کر دیا ، اس کے باوجو دوہ لوگ ماننے کے لیے     تیار نہیں ہوئے ۔ آخر میں وہ اپنی قوم سے نکل گئے اور کہا کہ اے میری قوم ، میں نے تم کو اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی ۔ مگر تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے (الاعراف: ۷۹)

 دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اپنی نشانیوں سے ان لوگوں کو پھیر دوں گا جو زمین میں ناحق تکبر کرتے ہیں ۔ اور وہ ہر قسم کی نشانیاں دیکھ لیں تب بھی وہ ان پر ایمان نہ لائیں، ان کا حال یہ ہے کہ اگر وہ ہدایت کا راستہ دیکھ لیں تو اس کو وہ نہیں اپنائیں گے۔ اور اگر وہ گمرا ہی کا راستہ دیکھیں تو س کو وہ اپنالیں گے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور ان کی طرف سےوہ غافل رہے (الاعراف:  ۱۴۶ )

 ان دونوں آیتوں میں ایسے گروہوں کا ذکر ہے جن کو خدا کے پیغمبر کے ذریعہ اعلیٰ ترین شکل میں دعوت پہنچی۔ اس کے باوجود انھوں نے دعوتِ حق کو قبول نہیں کیا۔ اس کا سبب کیا تھا۔ اس کا سبب ان کی بگڑی ہوئی نفسیات تھی، نفسیات کا یہ بگاڑ اکثر حالات میں تکبر کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔ چنانچہ مذکورہ دونوں آیتوں میں تکبر ہی کو اس کا سبب بتایا گیا ہے (الاعراف:  ۱۴۶،۷۵)

نصیحت ہر انسان کے لیے     نا پسندیدہ چیز ہے ۔ اور خاص طور پر متکبر انسان تو نصیحت کو بالکل ہی نا پسند کرتا ہے۔ جو لوگ تکبر کی نفسیات میں مبتلا ہو جائیں وہ کبھی اپنے خلاف کسی نصیحت کو سننے پرر اضی نہیں ہوتے۔ ایسا کوئی حق ان کے لیے     آخری حد تک ناقابلِ قبول ہوتا ہے جس میں انھیں اپنی شخصیت  کی نفی دکھائی دے رہی ہو۔

جو لوگ اپنے آپ کو اونچے مقام پر بیٹھا ہوا فرض کر لیں نہ کسی ایسی دعوت کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے جس میں انھیں محسوس ہو کہ اس کو قبول کرنے کی صورت میں انھیں اپنے اونچے مقام سے نیچےاترنا پڑے گا۔ جو لوگ فخر اور نازکی نفسیات میں مبتلاہوں ، ان کی یہ نفسیات ان کے لیے     کسی ایسی بات کو ماننے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے جس میں ان کا فخر و ناز انہیں ٹوٹتا ہوا نظر آئے۔

 جو لوگ اپنا منصب، احتساب قوم سمجھ بیٹھیں وہ اپنے مزاج کی بنا پر ایسی کسی پکار کو نظر انداز کر دیتے ہیں جس میں احتساب خویش پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہو ۔ جو لوگ آرزوؤں اور خوش خیالیوں کی دنیا میں جی رہے ہوں وہ کسی ایسے پیغام کو اپنے لیے     اجنبی محسوس کرتے ہیں جس میں حقائق و واقعات کی رعایت کر کے زندگی کی تعمیر کا سبق دیا گیا ہو ۔ جن لوگوں کی نگاہ اپنی ذمہ داریوں کے بجائے اپنے حقوق پر ہو، جن کے اندر خارجی طرز فکر پیدا ہو جائے وہ ایسی کسی دعوت کو غیر ضروری سمجھ کر رد کر دیتے ہیں جس میں انہیں ان کی ذمہ داریاں یاد دلائی جائیں اور ان کے اندر داخلی طرز فکرابھارنے کی کوشش کی جائے۔

جو لوگ اپنے متعلق یہ سمجھ لیں کہ وہ بخشے ہوئے لوگ ہیں وہ ایسے پیغام کی معنویت کو سمجھ نہیں پاتے جس میں اپنی موجودہ حالت کے تحت انہیں اپنی بخشش مشتبہ نظر آتی ہو ۔ جن لوگوں نے تخیلات کی رومانی دنیا میں اپنے قلعے بنارکھے ہوں وہ کسی ایسے پیغام کو اہمیت دینے میں ناکام رہتے ہیں جس کو جاننے کی صورت میں انھیں دکھائی دے کہ وہ کسی محفوظ قلعہ میں نہیں ہیں بلکہ صحرا میں کھڑے ہوئے ہیں۔ جن لوگوں نے یہ عقیدہ بنا رکھا ہو کہ کسی عمل کے بغیر پیشگی طور پر ان کے لیے     جنت کے محلات رزرو ہو چکے ہیں وہ کسی ایسی تحریک میں حصہ لینا غیر ضروری سمجھتے ہیں جس میں عمل کی بنیاد پر جنت میں داخلہ کا راز بتایا گیا ہو۔

 حق کو قبول کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بگڑا ہوا مزاج ہے۔ جو لوگ بگڑے ہوئے مزاج میں مبتلا ہوں ، ان کو صرف اپنے مزاج کے مطابق بات ہی اپیل کرتی ہے۔ دوسری کوئی بات ، خواہ وہ کتنے ہی زیادہ دلائل کے ساتھ بیان کر دی جائے ، وہ کسی طرح انھیں اپیل نہیں کرتی ۔ اپنے مخصوص مزاج کے خلاف کسی بات کو ماننا ان کے لیے     اتنا ہی مشکل ہو جاتا ہے جتنا کہ بکری کے لیے     گوشت کھانا اور شیر کے لیے     گھاس چر نا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom