امن اور ترقی کی طرف
۱۹ نومبر سے لے کر ۱۰ دسمبر ۱۹۹۰ تک میں ایک بیرونی سفر پر تھا۔ اس دوران میرا قیام امریکہ اور جاپان میں رہا۔ امریکہ میں ایسے مسلمان بڑی تعداد میں ہیں جو ہندستان ، پاکستان وغیرہ ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں، اور اب امریکہ کے شہری بن کر وہاں پر عافیت زندگی گزار رہے ہیں۔
سفر کے آخری دنوں میں امریکی مسلمانوں کی ایک خصوصی میٹنگ ہوئی۔ اس میں میں بھی شریک تھا۔ اس میٹنگ میں ہندستانی مسلمانوں کے موجودہ حالات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اس کا انداز تقریباً و ہی تھا جو عام طور پر ہند و پاک کے مسلم لیڈروں کے یہاں پایا جاتا ہے۔ ہر ایک نے اس معاملہ میں مسلمانوں کی مظلومیت پر غم کا اظہار کیا ، اور ہندوؤں کو ظالم بتا کر ان کے خلاف پر جوش احتجاجی تقریر کی۔ حتی کہ کچھ لوگوں نے یہ تجویز پیش کی کہ ہندستانی مسلمانوں کو جہاد کے ذریعہ اپنے مسائل کو حل کرنا چاہیے۔
میں نے کہا کہ یہ طریقہ بظا ہر درست نظر آسکتا ہے ، مگروہ مسئلہ کا حل نہیں۔ اس طریقہ کا مطلب مسئلہ کو خالص اصولی اور قانونی اعتبار سے دیکھنا ہے ۔ عام طور پر لوگ اظہار خیال کے وقت اسی طریقہ کو اختیار کرتے ہیں۔ آپ لوگوں کا انداز بھی اسی قسم کا ہے۔ مگر مسئلہ کے حل کے اعتبار سے یہ طریقہ بالکل کار آمد نہیں ۔ اپنی ذات پر آپ اصولی معیار کا استعمال کر سکتے ہیں۔ مگر جب معاملہ دوسروں کا ہو تو عملی نقطہ ٔنظر اختیار کرناہی نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے۔
میں نے کہا کہ اصولی جائزہ میں زیادہ سے زیادہ جو چیز آپ کے حصہ میں آتی ہے ، وہ فریق ثانی کے خلاف لفظی مذمت یا لفظی احتجاج ہے۔ جہاں تک اصل صورت حال کا تعلق ہے ، وہ بدستور اپنی جگہ باقی رہتی ہے۔ اس طریقہ کا اول و آخر حاصل صرف اپنے دل کی بھڑاس نکالنا ہے نہ کہ فی الواقع اختلافی مسئلہ کو ختم کرنا۔
دوسرا طریقہ وہ ہے جس کو عملی نقطہ ٔنظر کہا جا سکتا ہے۔ یعنی نظری انصاف کے پہلو کو زیر بحث لائے بغیر یہ دیکھنا کہ مسئلہ کا واقعی حل کیا ہے ۔ جو نا پسندیدہ صورت حال موجود ہے، اس کا عملی خاتمہ کسی طرح کیا جاتا ہے۔ یہی دوسرا طریقہ یا تد بیر ہے جس کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ معاہدہ (۶۲۸) کے ضمن میں اختیار فرمایا۔ اس کو ہم ایک لفظ میں ، حدیبیہ پرنسپل (Hudaibiya principle) کہہ سکتے ہیں۔ ہندستانی مسلمانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے اب تک اس عملی حل کو اختیار نہیں کیا۔
قدیم مثل ہے کہ تالی ہمیشہ دو ہاتھ سے بجتی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر دو ہاتھوں میں سے ایک ہاتھ کو ہٹالیا جائے تو تالی کا بجنا اپنے آپ بند ہو جائے گا۔ اسی عملی اصول کا تاریخی نام حد یبیہ پرنسپل ہے۔ اس پرنسپل میں معاملہ کا ایک فریق اپنے آپ کو اس پر راضی کرتا ہے کہ وہ غیر مشروط طور پر فریق ثانی کے ساتھ ایڈ جسٹمنٹ کرے گا، وہ یک طرفہ طور پر اپنا ‘‘ہاتھ ’’ٹکراؤ کے مقام سے ہٹا کر تالی بجنے کے عمل کو موقوف کر دے گا ، تاکہ وہ معتدل فضا قائم ہو جس میں تعمیر وترقی کا کام پر امن طور پر انجام دیا جاسکے۔
میں نے امریکی مسلمانوں سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ اس معاملہ میں ڈبل اسٹینڈرڈ نظر آتے ہیں۔ آپ لوگوں کا اپنا حال تو یہ ہے کہ آپ آخری حد تک امریکہ کے نظام سے ایڈجسٹ کر کے یہاں اپنے مستقبل کو بنانے میں مشغول ہیں۔ مگر ہندستانی مسلمانوں سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اپنے ملک کے نظام سے لڑکر وہاں اپنے لیے زندگی کی تعمیر کریں۔
میں نے کہا کہ حدیث میں آیا ہے کہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند کرو جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق ، آپ کو ہندستانی مسلمانوں سے یہ کہنا چاہیے کہ امریکہ میں ہمارے لیے بہت سی نا موافق باتیں تھیں۔ مگر ہم نے ان سے لڑے بغیر اپنے لیے راستہ نکالا۔ اس کے نتیجہ میں یہاں ہم کو ایک کامیاب زندگی حاصل ہو گئی ۔ تم لوگ بھی ہندستان میں اسی تجربہ کو دہراؤ۔ تم لوگ بھی اسی طرح وہاں کے نظام سے لڑے بغیر حکیمانہ تدبیر سے اپنی زندگی کی تعمیر کرو ۔مگر آپ لوگوں کا حال ، اس کے برعکس یہ ہے کہ آپ اپنے لیے ایڈ جسٹمنٹ کا طریقہ پسند کر رہے ہیں اور ہندستانی مسلمانوں کے لیے ٹکراؤ کا طریقہ۔
انطباق کی دو صورتیں
حقیقت یہ ہے کہ زندگی کا راز ایڈ جسٹمنٹ میں ہے نہ کہ ٹکراؤ میں۔ اختلافی معاملات ، اکثر حالات میں یک طرفہ (unilateral) طریقہ پر حل ہوتے ہیں نہ کہ دو طرفہ (bilateral) طریقہ پر۔ اس یک طرفہ اصول (unilateralism) کے استعمال کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ اکثریتی فریق اپنا‘‘ ہاتھ’’ ہٹانے پر راضی ہو جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اقلیتی فریق اس کی ذمہ داری قبول کرے۔ اگر وہ ایسا کرے تو وہ اپنے‘‘ ہاتھ ’’ کو سامنے سے ہٹا کر معاملہ کا خاتمہ کہ دے گا۔
امریکہ اور جاپان میں جو کچھ میں نے دیکھا ، اور دونوں ملکوں کے بارے میں جو کچھ پڑھا، اس کے مطابق، میری رائے ہے کہ امریکہ کی تاریخ میں اقلیتی فریق کے ایڈ جسٹمنٹ کی مثال پائی جاتی ہے۔ اور جاپان اکثریتی فریق کے ایڈ جسٹمنٹ کی ایک کامیاب مثال ہے۔
اقلیتی فریق کا ایڈ جسٹمنٹ
امریکہ کے اقلیتی فریق سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو عام طور پر مہاجر (immigrants) کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ لوگ جو مختلف ملکوں سے امریکہ آئے اور پھر یہاں کے شہری بن کر یہاں رہنے لگے ۔ اس سفر کے دوران اس طبقہ کے بہت سے لوگوں سے میری ملاقات ہوئی۔ ان میں مختلف ملکوں کے لوگ بھی تھے اور مختلف مذہبوں کے لوگ بھی ۔
ان مہاجرین کے لیے امریکہ میں مختلف مسائل تھے۔ مگر ان مسائل میں انھوں نے یک طرفہ طور پر امریکی نظام سے ہم آہنگی کا طریقہ اختیار کیا۔ مثال کے طور پر ایک ہندو جب ہندستان میں تھا تو وہ‘‘ بھارت’’ کو اپنا دیوتا سمجھتا تھا۔ اس کی تمام وفاداریاں بھارت کی سرزمین سے وابستہ تھیں ۔ وہ فخر کے ساتھ وطنی تقدس کا وہ ترانہ گاتا تھا جس کو بندے ماترم کہا جاتا ہے ۔ مگر امریکہ میں جب اس نے وہاں کی شہریت لینا چاہا تو اس کو معلوم ہوا کہ اس کا بھارتی عقیدہ امریکی نظریہ سے ٹکرا رہا ہے۔ اس کو امریکی شہریت صرف اس وقت مل سکتی ہے جب کہ وہ بھارت سے اپنی وفاداری کو مکمل طور پر اور مطلق طور پر ختم کر دے۔ وہ اپنی تمام وفاداریاں صرف امریکہ (U.S.A.) کے ساتھ وابستہ کرے۔ یہاں اس نے امریکی نظام سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ اپنے اصول کو بدلے۔ اس کے بجائے اس نے خود اپنے عقیدہ پر نظرثانی کی ۔ امریکی دستور کے مطابق اس نے امریکہ کی غیر مشروط وفاداری کا حلف (oath of allegiance) لیا اور اس طرح وہ امریکہ کا شہری بن گیا۔
اسی طرح مسلمان کے عقیدہ کے مطابق ، ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے جنگ کرنا حرام ہے۔ مسلمان کا یہ عقیدہ امریکہ کے قانون شہریت سے ٹکراتا ہے۔ کیوں کہ امریکہ کے دستور کے مطابق ، ہر امریکی شہری پر لازم ہے کہ جب بھی کسی دوسرے ملک سے امریکہ کی جنگ پیش آئے تو کسی تحفظ یا استثناء کے بغیر وہ امریکہ کی طرف سے اس غیر ملک کے خلاف جنگ کرے۔
امریکہ کے زمانۂ قیام میں میری ملاقات ایک مسلمان فوجی سے ہوئی ۔ اس نے کہا کہ مجھے خلیج عرب میں جانے والی امریکی فوج میں بھیجا جا رہا ہے۔ امریکہ اگر عراق کے خلاف جنگ چھیڑتا ہے تو مجھے ایک مسلم فوج کے خلاف لڑنا ہو گا جو کہ اسلام میں حرام ہے۔ ایسی حالت میں مجھے کیا کرنا چاہیے ۔
امریکہ میں اس وقت تقریباً پانچ ملین مہا جر مسلمان آباد ہیں۔ ان مسلمانوں نے وفاداری کا مقررہ حلف نامہ دے کر امریکہ کی شہریت کو اختیار کیا ہے۔ انھوں نے امریکہ سے یہ مانگ نہیں کی کہ وہ اپنے قانون کو بدل کر اس میں یہ استثنائی دفعہ شامل کرے کہ مسلمان مہاجر اس وقت جنگ میں شرکت کے پابند نہ ہوں گے جب کہ امریکہ کسی مسلم ملک یا مسلم قوم سے برسر جنگ ہو جائے ۔ تمام امریکی مسلمانوں نے بلا بحث امریکی نظام کو قبول کرتے ہوئے اس کی وفاداری کا حلف لیا، اور خود امریکہ کی شرط پر نہ کہ اپنی شروط پر، امریکہ کے شہری بن گئے ––––– امریکہ کے مہاجرین نے امریکہ میں جو کامیابی حاصل کی ہے ، اس کو انھوں نےایڈ جسٹمنٹ کے ذریعہ حاصل کیا ہے نہ کہ ٹکراؤ کے ذریعہ ۔
اب ایک اور مثال لیجیے۔ امریکہ میں یہ قانون ہے کہ ایک شخص اگر اپنے بعد جائداد چھوڑ کر مرے تو اس کی جائداد کا ۴۰ فی صد حصہ گورنمنٹ کے خزانہ میں چلا جائے گا ۔ اس کے بعد بقیہ ترکہ کا بیشتر حصہ متوفی کی رفیقہ ٔحیات (Spouse) کو ملے گا۔ اور نسبتاً بہت تھوڑ ا حصہ متوفی کی اولاد کے حصہ میں جائے گا۔
امریکہ کا یہ قانونِ وراثت واضح طور پر ہندوؤں ، مسلمانوں اور اسی طرح دوسری ایشیائی قوموں کے اپنے مذہب یا کم از کم ان کی ذاتی پسند سے ٹکراتا ہے۔ مگر یہاں بھی مہاجر لوگوں نے امریکہ سے یہ مانگ نہیں کی کہ وہ اپنے قانون وراثت میں ترمیم کرے اور اس معاملہ میں اس قانونی اصول کو رائج کرے جس کو ہندستان میں ‘‘پرسنل لا ’’ کہا جاتا ہے ، تاکہ مہاجر لوگوں کو یہ قانونی حق مل جائے کہ ان کی جائداد ان کے اپنے مذہب یا اپنے خاندانی رواج کے مطابق تقسیم کی جاسکے۔
Oath of Allegiance I hereby declare, on oath, that I absolutely and entirely renounce and abjure all allegiance and fidelity to any foreign prince, potentate, state or sovereignty, of whom or which I have heretofore been a subject or citizen; that I will support and defend the Constitution and Laws of the United States of America against all enemies, foreign and domestic; that I will bear true faith and allegiance to the same; that I will bear arms on behalf of the United States when required by the Law; that I will perform noncombatant service in the armed forces of the United States when required by the Law; that I will perform work of national importance under civilian direction when required by the Law; and that I take this obligation freely without any mental reservation or purpose of evasion: So help me God.
یہاں کے زمانۂ قیام میں میں امریکی مسلمانوں کی ایک میٹنگ میں شریک ہوا۔ اس میٹنگ کا خاص موضوع وراثت کی تقسیم کے اسی مسئلہ پر غور کر نا تھا۔ وہاں کسی بھی شخص نے یہ تجویز پیش نہیں کی کہ امریکہ کا یہ قانون مداخلت فی الدین ہے۔ اس لیے اس پر مسلمانوں کی طرف سے سخت احتجاجی بیان شائع کیا جائے اور ملک کے تمام حصوں میں اس کے خلاف جلسے اور جلوس کے مظا ہرے کیے جائیں ، تاکہ حکومت پر دباؤ پڑے اوروہ موجودہ قانون وراثت میں ترمیم پر مجبور ہو جائے۔ میں نے دیکھا کہ ہر آدمی اس قسم کے بیانوں اور مظاہروں کو خارج از بحث قرار دیتے ہوئے صرف یہ بات کر رہا ہے کہ موجودہ قانون کے ہوتے ہوئے ہم اپنےمسئلہ کو کس طرح حل کر سکتے ہیں ––––– بیرونی ملکوں میں مقیم حضرات ہر جگہ ایڈ جسٹمنٹ کی سیاست چلارہے ہیں نہ کہ وہ سیاست جس کو ہندستان کے سطحی لیڈر دباؤ کی سیاست کا نام دیے ہوئے ہیں۔
امریکہ میں مجھے معلوم ہوا کہ وہاں کے ہندوؤں اور مسلمانوں نے اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے جو کچھ کیا وہ صرف یہ تھا کہ انھوں نے امریکہ کے ماہرین قانون سے مل کر ان سے مشورہ طلب کیا کہ امریکی قانون سے ٹکرائےبغیر وہ کس طرح اس کے دائرہ میں اپنا مسئلہ حل کر سکتے ہیں۔
امریکی وکیلوں نے انھیں بتایا کہ امریکہ کے قانونی نظام میں وصیت نامہ (will) کی بے حد اہمیت ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی موت سے پہلے اپنا باقاعدہ وصیت نامہ تحریر کر دے تو امریکہ کے موجودہ قانون کے مطابق ، اس کو کسی تبدیلی کے بغیر مکمل طور پر نافذ کیا جائے گا۔ اس لیے آپ لوگ یہ اہتمام کریں کہ ہر آدمی اپنی موت سے پہلے اپنا وصیت نامہ لکھ کر اس کی رجسٹری کر ادے ۔ وصیت نامہ میں وہ اپنے مذہب یا اپنے خاندانی رواج کے مطابق اپنی جائداد کے بٹوارہ کی اسکیم درج کر دے ۔ اگر اس نے ایسا کیا تو اس کے مرنے کے بعد اس کی اسکیم کو عین اس کی وصیت کے مطابق جاری کیا جائے گا۔
تمام ہندؤوں ، تمام مسلمانوں اور تمام دوسرے لوگوں نے امریکی وکیلوں کے اس مشورہ کو بلا بحث مان لیا۔ اس کے مطابق اب وہ امریکہ کے قانونی نظام سے موافقت کر کے اپنی جائداد اور اپنے ترکہ کے مسئلہ کو حل کر رہے ہیں۔ امریکہ کے مہاجر حضرات کا جس جس معاملہ میں بھی امریکہ کے نظام یا وہاں کے قانون سے ٹکراؤ پیش آیا ، اس کو انھوں نے اسی طرح ایڈجسٹمنٹ کر کے حل کیا ہے۔ انھوں نے ہمیشہ اس سے پر ہیز کیا کہ ایسا کوئی مسئلہ ان کے اور امریکیوں کے درمیان ٹکراؤ کا اشو بن جائے۔
بیرونی ملکوں کے جو لوگ امریکہ میں جا کر آباد ہو گئے ہیں ، ان میں سے کئی لوگوں سے میں نے پوچھا کہ آپ نے اپنے ملک کو چھوڑ کر کیوں امریکہ کو اپنا وطن بنالیا۔ ان سب کا متفقہ جواب یہ تھا کہ یہاں ہم کو پرامن زندگی (peaceful life) حاصل ہے ۔ مگر ان حضرات کا یہ بیان اس وقت تک نامکمل ہے جب تک اس میں یہ شامل نہ کیا جائے کہ امریکہ کی یہ پر امن زندگی انھیں وہاں کے نظام سے موافقت کرنے کی قیمت پر ملی ہے نہ کہ وہاں کے مروجہ نظام سے ٹکراؤ کرنے کی بنا پر۔
امریکہ کے مہاجر وہاں اقلیتی فریق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں امریکی نظام کی حیثیت گویا اکثریتی فریق کی ہے۔ مذکورہ مثال بتاتی ہے کہ وہاں کے اقلیتی فرقہ نے اپنے اکثریتی مد مقابل سے کس طرح ایڈجسٹ کیا۔ انھوں نے اس معاملہ کے نظری یا اصولی پہلوؤں پر کوئی بحث نہیں چھیڑی ۔ بلکہ اپنے مسئلہ کے حل کے لیے وہ عملی طریقہ اختیار کر لیا جس کو ہم نے حدیبیہ پرنسپل کا نام دیا ہے۔
اکثریتی فریق کا ایڈ جسٹمنٹ
اب دوسری نوعیت کی مثال لیجیے ۔ یعنی وہ مثال جب کہ اکثریتی فریق نے حالات کے تقاضے کا احترام کرتے ہوئے اپنے اقلیتی فریق کے ساتھ ایڈ جسٹمنٹ کا طریقہ اختیار کیا۔ اس کی ایک واضح مثال جاپان کی موجودہ تاریخ میں پائی جاتی ہے۔
امریکہ سے جاپان کا سفر بحر الکاہل کے اوپر طے ہوتا ہے۔ یہ تقریباً دس گھنٹے کی طویل پرواز ہے۔چنانچہ مسافروں کی اکتاہٹ کو دور کرنے کے لیے جہاز میں دوران سفرفلم شو د کھایا جاتا ہے ۔ میں جب لاس اینجلیز سے جاپان ائر لائنز کے ذریعہ ٹوکیو جارہا تھا تو راستہ میں جاپان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اسکرین پر دکھایا گیا ۔ ایک منظر میں میں نے دیکھا کہ امریکہ کا قومی جھنڈ اجاپان کی سرزمین پر لہرا رہا ہے۔
یہ ایسا ہی تھا جیسے برٹش حکومت کا سرکاری جھنڈا بمبئی کے اوپر لہرا رہا ہو ۔ ایسا واقعہ ہندستان میں یقینی طور پر نا قابل برداشت سمجھا جائے گا۔ مگر جاپانی قوم پچھلے۴۵ سال سے اس کو برداشت کر رہی ہے۔ اور اس ‘‘برداشت ’’نے جاپان کو زبر دست فائدہ پہنچایا ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے، دوسری عالمی جنگ کے بعد ۱۹۴۵ میں امریکی فوجیں جاپان کی سرزمین پر اتر گئیں۔ انھوں نے سیاسی اور فوجی اعتبار سے جاپان کے اوپر اپنی بالادستی قائم کر دی۔ اس کے بعد امریکی جنرل میکارتھر نے جاپان کا نیا دستور تیار کیا، اس میں یہ لکھ دیا گیا کہ جاپان کبھی بھی فوجی طاقت بننے کی کوشش نہیں کرے گا۔ جاپان کے تعلیمی نظام کو مکمل طور پر امریکہ سے تعلیمی نمونہ پر ڈھال دیا گیا۔ جاپان کے جزیرہ اوکی ناوا کو امریکہ کا فوجی اڈہ بنا کر وہاں امریکہ کا قومی جھنڈ الہرا دیا گیا۔ وغیرہ وغیرہ اس معاملہ میں جاپان اکثریتی فریق کی حیثیت رکھتا تھا اور امریکہ کی حیثیت اس کے مقابلہ میں اقلیتی فریق کی تھی ۔ اب ایک صورت یہ تھی کہ جاپان اپنے اوپر امریکہ کی بالا دستی کو قبول نہ کرے۔ وہ اس کے خلاف مذمت اور احتجاج کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر دے ، وہ امریکہ کے خلاف گوریلا جنگ چھیڑ دے۔ وغیرہ ۔ مگر جاپانیوں نے اس قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی ۔ یہ معاملہ اگر چہ ان کی قومی غیرت کے سراسر خلاف تھا ۔ مگر انھوں نے نظری پہلوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے خالص عملی نقطۂ نظر کو اپنا لیا۔ انھوں نے یہ کیا کہ یک طرفہ طور پر امریکہ کے ساتھ ایڈ جسٹمنٹ کر کے ممکن دائرہ میں اپنی زندگی کی تعمیر شروع کردی۔
۱۹۴۵ میں جب یہ قومی مصیبت پیش آئی تو جاپان کے سابق شہنشاہ ہیرو ہیٹو نے ریڈیو پر ایک تاریخی تقریر کی۔ ۱۴ اگست ۱۹۴۵ کی اس تقریر میں جاپان کے قومی لیڈر نے اپنی قوم کو یہ پیغام دیا کہ وہ جذباتی مظاہروں (outbursts of emotions) سے قطعی پر ہیز کر یں۔ وہ اپنی تمام طاقتوں کو مستقبل کی تعمیر (construction of future) کے محاذ پر لگا دیں۔ وہ اپنے آپ کو غیر ملکی نفرت (antiforeigner sentiment) سے بچائیں ۔ جاپان کی تعمیر نو (reconstruction)کے سوا وہ کسی اور چیز میں کوئی دل چسپی نہ لیں۔
جاپان کے لیڈر نے اپنی قوم کو اس قسم کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے یہ عزم کیا ہے کہ آنےوالی نسلوں کو ایک عظیم امن مہیا کرنے کے لیے ایک ایسی چیز کو برداشت کریں جو ناقابل برداشت ہے، اور اس کو سہیں جو سہی نہیں جا سکتی :
We have resolved to pave the way for a grand peace for all the generations to come by enduring the unendurable and suffering what is insufferable.
Ian Nish. The Story of Japan, p. 192
اس اصول کو اختیار کرنا جاپان کے لیے اپنے آپ کو امریکہ کے ماتحت بنانے کے ہم معنی تھا۔ چنانچہ ابتدائی دور میں جاپان نے ایک آزاد ملک کی حیثیت سے اپنا مقام کھو دیا۔ پنڈت جواہر لال نہرو ۱۹۴۷ میں ہندستان کے پہلے وزیر اعظم بنے تو انھوں نے اپنی خارجہ پالیسی میں جاپان کو کوئی مقام نہیں دیا۔ اپنے پورے دور حکومت میں وہ جاپان کو نظر انداز کرتے رہے، کیوں کہ ان کے نزدیک ، جاپان ایک وابستہ ملک (aligned nation) بنا ہوا تھا، اور نہرو کے اپنے ذہن کے مطابق کسی ملک کی عظمت اس میں تھی کہ وہ نا وابستہ قوم (non-aligned nation) کی حیثیت رکھتا ہو ۔
مگر آج ساری دنیا جانتی ہے کہ جاپان کی اس یک طرفہ پالیسی نے جاپان کو غیر معمولی فائدہ پہنچایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جاپان کو وسیع پیمانے پر ایک وقفۂ تعمیر مل گیا۔ اس نے اس وقفہ کو استعمال کر کے اتنی زیادہ اقتصادی ترقی کی کہ جاپان کے اوپر امریکہ کی سیاسی اور فوجی بالا دستی عملا ًبے معنی ہو کر رہ گئی۔ آج جاپان خود امریکہ کی دیو پیکر کمپنیوں کو بڑی بڑی قیمت دے کر خرید رہا ہے ۔ امریکہ اور جاپان کے در میان ہر روز ایک درجن فلائٹ آتی ہے اور ہر روز ایک درجن فلائٹ جاتی ہے ۔ جاپان نے ساری دنیا میں نمبر ایک اقتصادی طاقت کی حیثیت حاصل کر لی ہے ۔ ۱۹۴۵ میں امریکہ نے جاپان پر سیاسی غلبہ حاصل کیا تھا ، آج خود امریکہ زیادہ بڑے پیمانے پر جاپان کے اقتصادی غلبہ کے نیچے دبا ہوا ہے۔ جاپان ایک چھوٹا اور بے وسیلہ ملک ہے، اس کے مقابلہ میں ہندستان بہت بڑا اور باوسیلہ ملک ہے ۔ مگر جاپان کےمقابلہ میں آج ہندستان کی کوئی حیثیت نہیں۔
یہ اقلیتی فریق کے مقابلہ میں اکثریتی فریق کے ایڈ جسٹمنٹ کی مثال ہے ۔ اس معاملہ میں امریکہ گویا اقلیتی فریق کی حیثیت رکھتا تھا۔ اور اس کے مقابلہ میں جاپان کی حیثیت اکثریتی فریق کی تھی۔ جاپان نے نظری پہلوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے عملی پہلو کو اختیار کر لیا اور اپنے اقلیتی حریف سے موافقت کرتے ہوئے ممکن دائرہ میں تعمیر و استحکام کا عمل جاری کر دیا ۔ یہ عملی طریقہ اتنا کار آمد تھا کہ جب اس کی تکمیل ہوئی تو جاپان نے عالمی نقشہ پر پہلے سے بھی زیادہ بڑی حیثیت حاصل کر لی۔
ہندستان کی مثال
ہندستان میں بھی ظاہری فرق کے ساتھ یہی صورت حال جاری ہے ۔ یہاں کا مسئلہ بنیادی طور پر ہندو اور مسلمان کا مسئلہ ہے۔ اس معاملہ میں ہندو فریق کی حیثیت اکثریتی فریق کی ہے ۔ اور مسلمان اس کے مقابلہ میں اقلیتی فریق کی حیثیت رکھتا ہے۔
اکثریت اور اقلیت کا جھگڑا پچھلے ۴۵ سال سے مسلسل جاری ہے ۔ عین اسی مدت میں جب کہ امریکہ کے مہاجر طبقہ نے اپنے اکثریتی فریق سے موافقت کر کے غیر معمولی ترقی حاصل کر لی۔ اور اسی طرح جاپان نے اپنے اقلیتی فریق کے ساتھ موافقت کر کے عالمی سطح پر اپنے لیے نمایاں مقام حاصل کر لیا، اسی مدت میں ہندستان کے دونوں فرقوں میں صرف دنگے اور فساد جاری رہے اور آج تک جاری ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ ہندو فرقہ کوئی حقیقی ترقی کا درجہ حاصل کر سکا اور نہ مسلم فرقہ ۔ دونوں کے دونوں بربادی کے گڑھے کے کنارہ کھڑے ہوئے ہیں۔
امریکہ کے زمانہ ٔقیام میں، میں روزانہ وہاں کے اخبارات پڑھتا تھا۔ مگر امریکہ کے اخبارات ہندستان کی خبروں سے خالی تھے۔ اس مدت میں، میں ہندستان کے حالات سے اس طرح بے خبر رہا گویا کہ ہندستان جیسے کسی ملک کا کرۂ ارض پر کوئی وجود ہی نہیں ۔ ہندستان جغرافی اعتبار سے بہت بڑا ملک ہے۔ اس کے پاس ہرقسم کے بہترین وسائل موجود ہیں۔ اس کو آزادانہ حیثیت میں تقریباً نصف صدی تک عمل کا موقع ملا۔ مگر اس کے باوجود حالت یہ ہے کہ عالمی نقشہ میں ہندستان کو کوئی بھی اہمیت حاصل نہیں۔
اس کا واحد سبب یہ ہے کہ ہندستان میں ان دونوں میں سے کوئی واقعہ پیش نہ آسکا ، حتی کہ کسی ملکی لیڈر نے رہنمائی کے درجہ میں بھی وہ بات نہ کہی جس کی شاندار مثال امریکہ اور جاپان میں موجود تھی۔ ہندستان کو یا ہندستان کے لیڈروں کو نہ امریکہ میں کوئی نمونہ ملا اور نہ جاپان میں۔ انھیں کرنے کا کام صرف یہ نظر آیا کہ وہ بے فائدہ طور پر آپس میں لڑتے رہیں ۔ یہاں تک کہ دنیا کی بین اقوامی برادری میں ایک پچھڑا ہوا گر وہ بن کر رہ جائیں۔
مسئلہ کا حل
حقیقت یہ ہے کہ ہندستان کے مسئلہ کا حل صرف ایک ہے ، اور وہ وہی ہے جس کو ہم نے حدیبیہ پرنسپل کہا ہے۔ یعنی دو فریقوں میں سے کسی ایک فریق کا اس پر راضی ہونا کہ وہ یک طرفہ طور پر تمام جھگڑوں کو ختم کر دے گا۔
اس معاملہ میں ہمارے لیے دو قسم کے نمونے پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جس کی مثال امریکہ میں ملتی ہے۔ اور دوسرا وہ جس کی مثال جاپان پیش کر رہا ہے۔ امریکہ کی مثال میں ہندستان کے اقلیتی فرقہ (مسلمان) کے لیے ایک جدید نمونہ ہے۔ اور جاپان کی مثال ہندستان کے اکثریتی فرقہ (ہندو) کے لیے جدید نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ہندستان کے لیے لازم ہے کہ وہ ان دو میں سے کسی ایک نمونہ کو اختیار کرے ۔ اگر ایسا نہیں ہوا تواس ملک کے جھگڑے ابدی طور پر باقی رہیں گے ، یہاں تک کہ ہندستان کمزور ہوتے ہوتے دنیا کےنقشہ میں ایک نا قابل لحاظ ملک بن کر رہ جائے گا۔
اکثریتی فریق (ہندو) اگر حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کرے تو اس کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف اپنی تمام صحیح یا غلط شکایتوں کو یک طرفہ طور پر بھلا دے۔ وہ اینٹی مسلم طرزفکر کو چھوڑ کر حقیقی معنوں میں پرو بھارت طرز فکر اختیار کرے۔ وہ مسلمانوں کے سلسلہ میں ماضی کی تمام شکایتوں کو فراموشی کے خانہ میں ڈال دے اور اپنی تمام توجہ اور اپنی تمام طاقت ملک کی ترقی کی راہ پر لگا ہے۔ ہند واگر ایسا کرے تو وہ وہی کرے گا جو جاپان نے‘‘ اکثریت ’’کے باوجود اپنی ‘‘ اقلیت’’ کے مقابلہ میں کیا۔ اگر ہندو ایسا کرنے پر راضی ہو جائے تو تاریخ اس سے بھی زیادہ بڑے پیمانہ پر اس کے حق میں اپنے آپ کو دہرائے گی جس کی شاندار مثال جاپان کے تجربہ میں نظر آتی ہے۔
دوسری ممکن صورت یہ ہے کہ اس‘‘حدیبیہ پرنسپل’’ کو یہاں کا اقلیتی فریق (مسلمان) اختیار کرے۔ مسلمانوں کو صحیح یا غلط اپنے اکثریتی فریق سے بہت سی شکایتیں ہیں۔ اگر مسلمان اپنے آپ کو اس تاریخی فیصلہ پر راضی کریں تو انھیں وقتی طور پر یہ کر نا ہوگا کہ وہ ہندو کے مقابلہ میں اپنی ہر شکایت کو، خواہ وہ بظا ہر جائز ہو یا نا جائز ، صبر اور اعراض کے خانہ میں ڈال دیں ۔ ہندوؤں کی طرف سے اشتعال انگیزی کی جائے تو یک طرفہ طور پر اس کو برداشت کریں ۔ ہندو فساد پر آمادہ ہو جائے تب بھی وہ مقابلہ آرائی کا انداز اختیار نہ کریں۔ ہند و انہیں محرومی کا تجربہ کر ائے تو اس کو بھی وہ اپنے ذہن سے نکال دیں۔ مسلمان اپنے آپ کو ردعمل کی نفسیات سے اوپر اٹھائیں ، وہ مکمل طور پر اور یک طرفہ طور پر مثبت نفسیات میں جینے لگیں۔
موجودہ حالات میں صبر و اعراض کی یہ پالیسی مسلمانوں کے لیے وقفہ تعمیر حاصل کرنے کی تدبیر ہے۔ مسلمان اپنے مستقبل کی تعمیر کے لیے اس صورت حال کو برداشت کریں۔ وہ صبرو اعراض کی پالیسی اختیار کر کے صرف یہ کریں کہ ممکن دائرہ میں اپنی تعمیر و ترقی کی جد وجہد جاری کر دیں۔ تمام نا موافق باتوں کے با وجود اس ملک میں ان کے لیے یہ موقع کھلا ہوا ہے کہ جس چیز کو دوسرے لوگ کم محنت کر کے پار ہے ہیں۔ اس کو وہ زیادہ محنت کر کے اپنے لیے حاصل کر لیں۔ اور مسلمانوں کو اسی امکان کو استعمال کرنا چاہیے ۔
مسلمانوں کے لیے اب بھی تعلیم ، تجارت ، زراعت ، سماجی خدمت ، وغیر ہ شعبوں میں کام کرنے کےمواقع پوری طرح کھلے ہوئے ہیں۔ وہ ناموافق باتوں سے اعراض کرتے ہوئے ان تعمیری میدانوں میں سرگرم عمل ہو جائیں۔ یہ اگر چہ ان کے لیے ناقابل برداشت کو برداشت کرنے کے ہم معنی ہوگا۔ مگر اس دنیامیں کوئی بڑی کامیابی ہمیشہ ان لوگوں کو ملتی ہے جو اس اعلیٰ حوصلہ مندی کا ثبوت دیں۔ مسلمان اگر ایساکریں تو یقینی طور پر یہ پیشین گوئی کی جاسکتی ہے کہ ۲۵ سال کے اندر اس ملک کی پوری تاریخ بدل جائے گی۔
۱۰ دسمبر ۱۹۹۰ کو میں جاپان ایئر لائنز کے جس جہاز کے ذریعہ سفر کر کے دہلی پہنچا، اس میں تقریباً تین سو مسافر تھے، ان میں بیشتر وہ لوگ تھے جن کو مہاجر (immigrants) کہا جاتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک خوشی اور خوش حالی کی تصویر بنا ہو اتھا۔ ایک شخص نے کہا : اگر ہم انڈیا میں ہوتے تو یہاں لڑائی جھگڑوں سے فرصت نہ ملتی۔ یہ خوش قسمتی کی بات تھی کہ حالات نے ہم کو امریکہ پہنچا دیا۔ وہاں ہم نے اتنی ترقی حاصل کر لی۔
مگر جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ، یہ امریکہ کی بات نہیں بلکہ طریق کار کی بات ہے۔ لوگ امریکہ میں جو طریق کار اختیار کئے ہوئے ہیں ، مسلمان اگر اس طریق کار کو اپنا لیں تو خود اسی ملک میں وہ ساری ترقیاں حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد مسلمان اس ملک میں بھی عزت اور کامیابی کے وہ تمام مواقع پالیں گے جو اسی طریق کار کو اختیار کرنے کے نتیجہ میں امریکہ کے مہاجر لوگوں نے وہاں اپنے لیے حاصل کیا ہے۔
مزید یہ کہ یہ مسلمانوں کے لیے ملک کی ایک اعلیٰ خدمت کے ہم معنی ہے ۔ مسلمان اگر اس طرز عمل کو اختیار کریں تو بالواسطہ طور پر وہ اس ملک کی عمومی ترقی کا ذریعہ بن جائیں گے۔ وہ ملکی ترقی کے اس دروازے کو کھول دیں گے جو باہمی جھگڑوں کے نتیجہ میں پچھلی نصف صدی سے عملاً بند پڑا ہوا ہے۔
قرآن میں زندگی کا ایک اہم اصول ان لفظوں میں بتایا گیا ہے کہ جو چیز لوگوں کو نفع دیتی ہے وہ زمین میں قیام حاصل کرتی ہے (الرعد: ۱۷ ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نفع بخشی کی صفت ایسی تسخیری صفت ہے کہ جو لوگ اپنے اندر یہ صفت پیدا کر لیں وہ لاز ماً مضبوط اور مستحکم زندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اب اگر مسلمان مذکورہ اصول پر عمل کریں تو اس کے بعد بہت جلد ایسا ہو گا کہ وہ اس ملک میں ایک نفع بخش گروہ کی حیثیت حاصل کرلیں گے ۔ اور یہ قرآن کی گواہی ہے کہ جو لوگ کسی ملک میں نفع بخش گروہ بن جائیں وہ اس ملک میں مستحکم مقام کا درجہ بھی ضرور حاصل کر لیتے ہیں۔
دعوتی فائده
جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ، بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ اس سے بہت آگے جاتی ہے ۔ مسلمانوں کا اس ملک میں ’’حدیبیہ پرنسپل‘‘کو اختیار کرنا ان کے لیے امریکی مہاجرین کی طرح صرف مادی فائدہ کا سبب نہیں بنے گا بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑی بات یہ ہوگی کہ یہاں مسلمانوں کے دین کے لیے فتوحات کا وہ دروازہ کھل جائے گا جو دور اول میں حدیبیہ پرنسپل کو اختیار کرنے کے نتیجہ میں ان کے اسلاف کے لیے کھلا تھا۔
مسلمان کی تمام حیثیتوں میں سب سے بڑی حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک صاحب نظریہ قوم ہیں۔ وہ واحد ملت ہیں جن کے پاس محفو ظ دین ہے ۔ انھیں اجارہ داری کے درجہ میں یہ خصوصیت حاصل ہے کہ وہ دنیا کو خدا کا صحیح تصور دے سکتے ہیں۔ مسلم ملت کی یہ حیثیت امکانی طور پر ، اُس کو ساری دنیا کے اوپر نظری امام بنا رہی ہے۔ ان کے دین کی یہ امکانی خصوصیت اگر واقعہ بن جائے تو اس کا فطری نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ساری دنیا کے اور پر فکری قیادت کا درجہ حاصل کر لیں گے۔
اسلام ایک محفوظ مذہب ہے ۔ وہ ایک قائم شدہ دین کی حیثیت رکھتا ہے ۔ تاریخ اور علوم انسانی کی تمام گواہیاں اس کی تصدیق کر رہی ہیں۔ اسلام کی ان خصوصیات نے اسلام کے اندر تسخیر ی صلاحیت پید اکر دی ہے۔ آج وہ اس طاقت کا حامل ہے کہ اپنے آپ لوگوں کے درمیان پھیلے ، اپنے آپ لوگوں کے دلوں میں داخل ہو جائے۔
آج صرف ایک چیز ہے جو اسلام کے تسخیری سیلاب کو پھیلنے سے روکے ہوئے ہے، مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان نزاع اور ٹکراؤ کی موجودہ فضا ہے۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان اشتعال کی فضا نے اس معتدل ماحول کو ختم کر رکھا ہے جس میں غیر مسلم حضرات مسلمانوں کے مذہب( اسلام) کو کھلے دل کے ساتھ دیکھیں اور اس کو خود اپنی فطرت کی آواز پا کر اس کی طرف دوڑ پڑیں۔
اب اشاعت اسلام کا دروازہ کھولنے کی ذمہ داری تمام تر مسلمانوں پر آگئی ہے۔ یہ خود مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ داعی اورمدعو کے در میان کش مکش کا خاتمہ کر کے اسلام کے لیے نئی تاریخ کا آغاز کریں۔ مسلمان اگر صبر و اعراض کا یک طرفہ طریقہ اختیار کر کے باہمی نفرت کی فضا کو ختم کر دیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلام اپنے آپ پھیلنے لگے گا۔ یہاں تک کہ وہ وقت آئے گا جب کہ دنیا یہ منظر دیکھے گی کہ حدیبیہ پرنسپل کو اختیار کرنے کے نتیجہ میں وہی واقعہ دوبارہ تاریخ میں پیش آگیا ہے جو دور اول میں اس اصول کو اختیار کرنے کے نتیجے میں پیش آیا تھا۔
تاریخ اپنے آپ کو دہرانے کے لیے تیار ہے، بشر طیکہ مسلمان اس حوصلہ مندی کا ثبوت دے سکیں کہ وہ دوبارہ اس فاتحانہ تدبیر کو دہرانے کے لیے تیار ہیں جو ان کے پیش روؤں نے چودہ سو سال پہلے دہرایا اور بظا ہر شکست کے بعد وہ چیز حاصل کرلی جس کو قرآن میں فتح مبین کہا گیا ہے۔
حدیبیہ پرنسپل کو اختیار کرنا کوئی سادہ سی بات نہیں ، موجودہ حالات میں یہ مسلمانوں کے لیے ہم خرما و ہم ثواب کے ہم معنی ہے –––––– اس کے ذریعہ ایک طرف وہ اپنی دنیاوی زندگی کی تعمیر کے مواقع پالیں گے۔ وہ اس قابل ہو جائیں گے کہ ملک کے وسائل کو بھر پور طور پر اپنے حق میں استعمال کر کےاپنے آپ کو خوش حال اور ترقی یافتہ بنا سکیں۔
دوسری طرف یہ تدبیر ملک میں اشاعتِ اسلام کے بند دروازے کو کھول دے گی۔ اس کے بعد اسلام اپنے آپ اس ملک میں پھیلنے لگے گا جس طرح موجودہ قومی جھگڑوں سے پہلے وہ مسلسل یہاں پھیل رہا تھا۔
قرآن میں ‘‘حدیبیہ پرنسپل’’ کا یہ فائدہ بتایا گیا ہے کہ اس کے ذریعہ سے فتح مبین بھی ملتی ہے اور اللہ کی مغفرت بھی حاصل ہوتی ہے (الفتح ۱-۲) یہ اسلامی اصول آج دوبارہ مسلمانوں کو پکار رہا ہے اور انہیں بشارت دے رہا ہے کہ اگر تم نے اس کو صحیح طور پر اختیار کر لیا تو وہ تمہاری دنیا کی کامیابی کا بھی ضامن ہے اور اسی کے ساتھ آخرت کی کامیابی کا ضامن بھی۔
روشن مستقبل الرسالہ جنوری ۹۱ خصوصی نمبر کے طور پر بعنوان ‘‘روشن مستقبل’’ شائع کیا گیا تھا۔ جس میں ملک کے موجودہ حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا تھا۔ اب اس شمارہ کو علاحدہ سے ایک مستقل کتابچہ کی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس کو ہر طبقہ کے لوگوں تک پہنچایا جائے۔ جو حضرات اس کو زیادہ تعداد میں منگوا کر تقسیم کر نا چاہیں ان کو خصوصی رعایت کے ساتھ یہ کتابچہ فراہم کیا جائے گا۔