تعلیم  –– قومی ترقی کی بنیاد

قومی ترقی (نیشنل ڈولپمنٹ) کا مسئلہ ، بنیادی طور پر فرد کی ترقی (انڈ و یجول ڈولپمنٹ) کا مسئلہ ہے ۔ جس طرح کسی مشین کی درست کارکر دگی کی ضمانت یہ ہے کہ اس کے پرزے درست ہوں، اسی طرح کسی سوسائٹی کے بہتر سوسائٹی ہونے کا دارو مدار اس پر ہے کہ اس کے افراد صحیح افرادہوں ۔

قومی تعمیر کا کام در اصل فرد کی تعمیر سے شروع ہوتا ہے۔ اور فرد کی تعمیر کاکام یہ ہے کہ فرد کو تعلیم یافتہ بنایا جائے ۔ پڑھا لکھا آدمی باتوں کی گہرائی کو سمجھتا ہے۔ مزید یہ کہ پڑھے لکھے آدمی ہی کو گہری باتیں بتائی جاسکتی ہیں۔ جاہل آدمی صرف سطحی نعروں کو جانتا ہے۔ اور جس قوم کے افراد صرف سطحی نعروں کو جانیں ، باتوں کی اصلیت کو نہ جانیں ، ان کو کسی بھی طرح بر بادی سے بچایا نہیں جاسکتا۔

اس اعتبار سے قوم کی ترقی کے لیے    ہمیں جو کام سب سے پہلے کرنا تھا یا آج جس کام کو سب سے زیادہ کرنا ہے ، وہ تعلیم ہے۔ اور بدقسمتی سے ہمارے یہاں پُر شور تحریکوں کے باوجود سب سے زیادہ اسی اہم ترین پہلو کو نظر انداز کیا گیا ہے ۔ ۱۹۴۷ سے پہلے ہمارے رہنماؤں نے سوچا کہ ملک کو اگر خود اپنی سیاسی بنیاد ( پولٹیکل بیس) حاصل ہو جائے تو اس کے بعد ملک تیزی سے ترقی کرنے لگے گا۔ ۱۹۴۷ کی آزادی نے ملک کو یہ سیاسی بنیاد دے دی ۔ مگر قومی ترقی کا خواب اس کے باوجود پورا نہیں ہوا۔

۱۹۴۷ کے بعد جن رہنماؤں کے ہاتھ میں ملک کا اقتدار آیا ، ان کی سوچ زیادہ تر یہ تھی کہ ملک کو صنعتی بنیاد( انڈسٹریل بیس) حاصل ہو جائے تو وہ ترقی یافتہ ملک بن جائے گا۔ چنانچہ سب سے زیادہ زور اسی پہلو پر دیا گیا ۔ مگر قومی دولت کا سب سے زیادہ حصہ صنعتی ادارے قائم کرنے پر خرچ کرنے کے باوجود آج بھی ملک اس منزل سے محروم ہے جس کو قومی ترقی کہا جاتا ہے حقیقت یہ ہے کہ پولٹیکل بیس یا انڈسٹریل بیس  کا درجہ قومی ترقی میں نمبر ۲ پر ہے۔ نمبر ایک درجہ پر جو چیز در کارہے وہ انٹلکچول بیس ہے اور وہ ابھی صحیح معنوں میں ملک کو حاصل نہیں ہوئی۔

اس کے مقابلے میں آپ جاپان کو دیکھئے۔ جاپان نے اپنا موجودہ سفر تقریباً اسی وقت شروع کیا جب کہ ہندستان نے آزادی کے بعد اپنا سفر شروع کیا۔ آج جاپان عالمی ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں ٹاپ پر شمار ہوتا ہے جب کہ ہندستان عالمی ترقی کے نقشہ میں کہیں موجود نہیں ۔

 اس کی سب سے بڑی وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ جاپان نے اوّل دن تعلیم کی اہمیت کو سمجھا۔ چنانچہ جاپان میں نہ صرف لازمی تعلیم رائج کی گئی۔ بلکہ وہاں اسکول کے معیار کو اتنا اونچا کیا گیا کہ اسکول کے ماسٹروں کے لیے    منسٹروں کی تنخواہیں مقرر کی گئیں۔ ان کو سماج میں سب سے معززدرجہ دیا گیا۔ اور اس فیصلہ پر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ عمل شروع کر دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جاپان کی جدید نسل پوری کی پوری ایسے تعلیمی اداروں میں پہنچ گئی جہاں ان کو پڑھانے کے لیے    ملک کے بہترین قابلیت والے لوگ موجود تھے۔ اس کا فائدہ انھیں یہ ملا کہ صرف ربع صدی میں جاپان میں ایک نئی تعلیم یافتہ نسل تیار ہوگئی۔

یہ تعلیم جاپان کی ترقی کے لیے    انتہائی ضرور ی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ کےبعد جاپان کو ایک نیا انقلابی فیصلہ لینا تھا۔ وہ فیصلہ جس کو جاپانیوں نے معکوس راستے (reverse course) کا نام دیا ہے۔ جاپان ، دوسری عالمی جنگ سے پہلے ، جنگ اور ٹکراؤ کے راستے پر چل رہا تھا ۔ جنگ کے بعد نئی ترقی کے امکان کو حاصل کرنے کے لیے    اس کو امن اور مفاہمت کے راستہ پر چلنا تھا۔ یہ گویا پہیہ کے رخ کو الٹی طرف گھمانا تھا۔ یہ بلاشبہ انتہائی مشکل فیصلہ تھا اور صرف اعلیٰ درجہ کے باشعور دماغ ہی ایسا انقلابی فیصلہ لے سکتے تھے۔ جاپان کے لیے    تعلیم پر زور دینے کی وجہ سے یہ ممکن ہوا کہ وہ اتنا انقلابی فیصلہ لے سکے اور مختصر مدت میں اس کا پھل پاسکے۔

دوسری عالمی جنگ سے پہلے جاپان کے لوگ وحشی سمجھے جاتے تھے ۔ آج وہ بہترین مہذب لوگ ہیں۔ اس سے پہلے وہ سب سے زیادہ جنگ جو قوم تھے ، آج سب سے زیادہ امن پسند قوم ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کی ہاری ہوئی اور بر باد قوم نے چالیس سال کے مختصر عرصہ میں صنعتی دیو (industrial giant) کی صورت اختیار کر لی ہے اور یہ سب کا رنامہ ہے اس بات کا کہ انھوں نے اپنے افراد کو تعلیم یافتہ افرادبنانے پر سارا زور صرف کیا۔

میرے نزدیک ہندستان کی ترقی کار از صرف ایک ہے ، اور اس وقت تک ترقی رکی رہے گی جب تک یہ شرط پوری نہ کی جائے۔ اور وہ ہے افراد کو تعلیم یافتہ بنانا۔ اب ہمار اسب سے پہلا نشانہ صرف ایک ہونا چاہیے      ۔ یعنی لاز می تعلیم اور صد فی صد تعلیم۔ اس سے کم کی کوئی بھی چیز ہمیں ترقی یافتہ قوم نہیں بنا سکتی۔

ہندستان کی  ۷۵  فی صد آبادی ابھی تک تقریباً جاہل ہے ۔ ایسی حالت میں ہندستان جیسے بڑے ملک کے لیے    "لازمی تعلیم اور صد فی صد تعلیم" کا منصوبہ کوئی سادہ سی بات نہیں ۔ یہ بلاشبہہ انتہائی مشکل کام ہے۔ اس پر سچائی کے ساتھ عمل کرنے کے لیے    ہمیں اپنی سوچ میں انقلابی تبدیلی لانی پڑے گی۔مثلا ً ملکی دفاع کے موجودہ بجٹ میں قابل لحاظ حد تک کمی کرنا ، وغیرہ ۔ ہمیں خطرات کو نظر انداز کر کےاس کام کی طرف آگے بڑھنا ہو گا۔ اس کے بغیر قوم کو تعلیم یافتہ بنا نا ہرگز ممکن نہیں۔

یہاں میں دوبارہ کہوں گا کہ اگر ہم ایسا حوصلہ کر یں تو ہم اس میدان میں اکیلے نہیں ہوں گے۔ مثلاً جاپان نے جو معجزاتی ترقی کی ہے۔ اس کی ایک زبر دست قیمت اس کو ادا کرنی پڑی۔ اس کو وہ کام کرنا پڑا جس کو جاپان کے سابق شہنشاہ ہیرو ہیٹو نے "ناقابل برداشت کو برداشت کرنا" بتایا تھا۔

 یہ نا قابل برداشت چیز امریکہ کے سیاسی اور فوجی غلبہ کا مسئلہ تھا۔ جاپان اگر دوسری عالمی جنگ کے بعد اس مسئلہ کو چھیڑتا تو وہ تعلیم و ترقی کی راہ میں آگے نہیں بڑھ سکتا تھا۔ چنانچہ اس نے اس اصول پر عمل کیا کہ –––––  مسائل کو نظر انداز کرو اور مواقع کو استعمال کرو :

Starve the problems feed the opportunities.

جاپان نے امریکی غلبہ کے مسئلہ کو نظر اند از کیا ، اور جو میدان اب بھی اس کے لیے    کھلا تھا ، یعنی اپنی نسل کو تعلیم یافتہ بنانا ، اس پر اپنی ساری توجہ لگا دی۔ اس تد بیر کا نتیجہ یہ ہوا کہ چالیس سال میں پوری تاریخ بدل گئی ۔

آخر میں  یہاں میں پیغمبر اسلام کا ایک واقعہ نقل کر نا چا ہتا ہوں جو اس معاملہ میں ہمارےلیے    بہت حوصلہ افزا مثال پیش کرتا ہے۔

پیغمبر اسلام کو اپنے مخالفین کے ساتھ چند دفاعی جنگیں لڑنی پڑیں۔ ان میں سے ایک جنگ وہ ہے جو جنگ بدر کہی جاتی ہے ۔ اس جنگ کے بعد آپ کے پاس دشمن کے  ۷۰  افراد جنگی قیدی کے طور پر آئے۔ یہ لوگ مکہ کے تھے۔ آپ نے ان قیدیوں کا یہ فدیہ مقررکیا کہ ان میں سے ہر ایک شخص اگر مسلمانوں کے دس نوجوانوں کو لکھنا پڑ ھنا سکھا دے تو اس کو رہا کر دیا جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔

یہ اسلام کی تاریخ میں پہلا اسکول تھاجو خود پیغمبر نے قائم کیا۔ اس اسکول کے تمام ٹیچرنہ صرف غیرمسلم بلکہ اسلام کے ثابت شدہ دشمن تھے۔ مزید یہ کہ ان لوگوں کو رہا کرنے میں یہ یقینی خطرہ تھا کہ وہ لوگ دوبارہ منظّم ہو کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جارحیت کریں گے۔ مگر ان تمام نا موافق پہلوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے آپ نے ان کے ذریعہ سے اپنے بچوں کی تعلیم کا انتظام کیا۔

 علم اور تعلیم کو یہ غیر معمولی اہمیت دینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ دور اوّل کے مسلمانوں میں یہ روایت قائم ہوگئی کہ علم سب سے بڑی چیز ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کو جب مواقع ملے تو انھوں نے سب سے زیادہ علم  کی طرف توجہ دی۔ انھوں نے اپنی ہر مسجد اور ہر گھر کو مدرسہ بنا دیا۔ انھوں نے بے شمار تعداد میں یونیورسٹیاں اور کتب خانے قائم کئے۔ تمام دنیا کی کتابیں (بشمول ہندستان) جمع کر کے ان کا عربی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ وغیرہ وغیرہ ۔

ان علمی اور تعلیمی سرگرمیوں کے نتیجےمیں ایک نئی تہذیب وجود میں آئی ۔ تو ہماتی دور کی جگہ ایک نیا سائنٹفک دور پیدا ہونا شروع ہوا۔ یہاں تک کہ وہ واقعہ ظہور میں آیا جس کو ایک امریکی انسائیکلو پیڈیا میں "اسلام "کے مقالہ کے تحت بتا یا گیا ہے کہ اسلام نے انسانی تاریخ کے رخ کو بدل دیا :

Its advent changed the course of human history.

علم ہی تمام ترقیوں کی بنیاد ہے، خواہ مذہبی ترقی کا معاملہ ہو یا سیکولر ترقی کا معاملہ۔اس لیے    جو لوگ بھی حقیقی ترقی چاہتے ہوں، انھیں چاہیے    کہ سب سے زیادہ تعلیم اور مطالعہ پر زوردیں۔ تعلیم اور مطالعہ افراد کو باشعور بناتا ہے، اور باشعور افراد ہی کسی گہری بات کو سمجھتے ہیں،باشعور افراد ہی اس دنیا میں کوئی بڑا کا رنامہ انجام دے سکتے ہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom