بے حسی کا مرض

انسانی بیماریوں میں ایک ڈراؤنی قسم کی بیماری وہ ہے جس کو جذام (leprosy) کہا جاتا ہے۔ یہ مہلک بیماری ایک مخصوص جراثیم کے سبب سے پیدا ہوتی ہے ۔ یہ جراثیم جسم کے محیطی اعصاب کو برباد کر دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر حساسیت کا مادہ ختم ہو جاتا ہے :

It is caused by Hansen's bacillus. Destruction of the peripheral nerves by the bacillus leads to a loss of sensation. (VI/159)

مثلاً جذام کے مریض کا ہاتھ اگر آگ پر پڑ جائے تو ہاتھ جلتا رہے گا مگر وہ اپنے ہاتھ کو آگ سے ہٹانے کے لیے حرکت میں نہیں آئے گا۔ اس کی وجہ یہی حسّاسیت کا خاتمہ ہے ۔ آدمی کے جسم میں باریک قسم کے نازک اعصاب ہوتے ہیں۔ یہ اعصاب بے حد حسّاس ہوتے ہیں۔ جسم کے کسی حصہ میں کوئی حادثہ پیش آئے تو وہ اسی وقت اس کی خبر دماغ کو پہونچاتے ہیں۔ دماغ فوراً اس حصہ ٔجسم کو مقامِ حادثہ سے ہٹانے کا حکم دیتا ہے ۔ اور ایک لمحہ میں جسم کا وہ حصہ وہاں سے ہٹا لیا جاتا ہے ۔ جذام کے مریض کے اندر یہ مخصوص اعصاب مردہ ہو جاتے ہیں۔ اس لیے اگر اس کا ہاتھ آگ پر پڑ جائے تو دماغ تک اس کی خبر نہیں پہونچ سکے گی، اس لیے دماغ کا حکم بھی جاری نہیں ہو گا ۔ اور وہ ہاتھ جلتے رہنے کے باوجود وہیں پڑا رہے گا۔

یہ جسمانی بیماری ایک خدائی نشانی ہے جو ہم کو ایک روحانی بیماری کی پہچان کراتی ہے ۔ یہ روحانی بیماری وہی ہے جس کو قرآن میں قساوت (الحدید ۱۶) کہا گیا ہے ۔ یہ اخلاقی اور روحانی موت کی ایک حالت ہے جب کہ برائی اور اچھائی کے بارے   میں آدمی کی حسّاسیت مردہ ہو جاتی ہے۔ وہ اس قلبی تڑپ سے محروم ہو جاتا ہے جو آدمی کو مجبور کرتی ہے کہ جب وہ بھلائی کو دیکھے تو اس کی طرف دوڑے اور برائی کو دیکھے تو اس سے بھاگ کر اپنے آپ کو اس سے بچائے۔

ایمانی حسّاسیت سے اس محرومی کی مثالیں قرآن وحدیث میں کثرت سے بتائی گئی ہے۔ مثلاًغزوه بنی المصطلق (۶ ھ) کے بعد ایک سادہ واقعہ کو شوشہ بنا کر مدینہ کے کچھ لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھاکے خلاف ایک جھوٹا قصہ گھڑا۔ اس کے بعد دوسرے لوگ بلا تحقیق اس کو ایک دوسرے سے بیان کرنے لگے ۔ اس پر قرآن میں کہا گیا کہ جب تم اس کو اپنی زبانوں سے نقل کر رہے تھے ، اور اپنے منہ سے ایسی بات کہہ رہے تھے جس کا تمہیں کوئی علم نہ تھا۔ اور تم اس کو ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے،حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے (النور  ۱۵)

کسی شخص کے بارے   میں ایک بری خبر سن کر اس کو بلا تحقیق پھیلانے لگنا ، حسّاس دل کے لیے نہایت سنگین بات ہے ۔ مگر جن لوگوں کی روحانی موت ہو چکی ہو، وہ اس کو بے تکّلف چھاپنا اور نقل کرنا شروع کر دیں گے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ، جذام کے مریض کی طرح ، ان کی وہ حسّاسیت ختم ہو چکی ہوتی ہے جو اس طرح کے معاملہ میں انھیں چونکائے اور ان کو یہ کہنے پر مجبور کر دے کہمَّا يَكُونُ لَنَآ ‌أَن ‌نَّتَكَلَّمَ بِهَٰذَا (ہم کو حق نہیں کہ ہم ایسی بات زبان پر لائیں ) النور ۱۶ ۔

 بخاری میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ اللہ کی ناراضگی کی ایک بات کہتا ہے ، وہ اس کی کچھ پروا نہیں کرتا ، حالاں کہ اس کی وجہ سے وہ جہنم میں جا گرتا ہے (وَإِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللَّهِ عز وجل، لَا يُلْقِي لَهَا بَالًا ‌يَهْوِي ‌بِهَا ‌فِي ‌جَهَنَّمَ)(صحیح  البخاری، 6113)

 ایک بات جس سے کسی کی آبرو ریزی ہوتی ہو ، کسی کے اوپر جھوٹا الزام عائد ہوتا ہو۔ اس سے کسی کی کردارکشی ہو رہی ہو، اس قسم کی بات اپنی زبان سے نکالنا ایسے آدمی کے لیے ہمالیہ پہاڑ سر پر اٹھانے کے برابر ہے جس کا دل خوف خدا سے کانپ رہا ہو۔ مگر جس آدمی کے اندر احتساب خداوندی کا احساس مردہ ہو جائے وہ ایسی باتوں کو اس طرح دہرائے گا جیسے وہ کوئی پُر لطف قصہ بیان کر رہا ہے ۔

جذام کی بیماری جسمانی حسّاسیت کھونے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے ۔ اسی طرح غیر ذمہ دارانہ بات کرنا اور بلا تحقیق الزامات کو پھیلانا بھی ایک روحانی بیماری ہے۔ یہ بیماری اس آدمی کے اندرپیدا ہوتی ہے جس کی حسّاسیت آخرت کی پکڑ کے بارے   میں مردہ ہو جائے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom