قسط ––– ۲
انھوں نے کہا کہ اس" تعمیری لاوا "کو پکانے کے لیے الرسالہ کا مسلسل جاری رہنا ضروری ہے ، پھر آپ نے اپنے بعد اس کا کیا انتظام کیا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ مشن آج بھی اللہ کی مدد سے جاری ہے ، اور آئندہ بھی اللہ نے چاہا تو اسی کی مدد سے وہ جاری رہے گا۔ تا ہم اسباب کے درجہ میں میں کہہ سکتا ہوں کہ جس قسم کے افراد دوسری تحریکوں کے پاس ہیں اور ان تحریکوں کو جاری رکھےہوئے ہیں ، اس قسم کے افراد ہمارے پاس بھی موجود ہیں۔ پھرجس درجہ کے افراد دوسری تحریکوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی درجہ کے افراد اس تحریک کو کیوں جاری نہیں رکھ سکتے۔
اس کا نفرنس میں میں نے کوئی مقالہ پیش نہیں کیا۔ یہ کانفرنس مقالات کے لیے نہیں تھی ۔ اس میں کسی کا بھی کوئی مقالہ پیش نہیں ہوا۔ اس کا نفرنس کا خاص موضوع دو چیزوں پر غور کرنا تھا۔ ایک مختلف علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں کا اتحاد ۔ دوسرے ، عالم اسلام کو پیش آنے والے خطرات و مسائل۔
لوگوں نے اپنے اپنے ذہن کے مطابق مختلف باتیں کہیں۔ میری رائے یہ تھی کہ مسلم دنیا کا اتحاد محض ایک کا نفرنس کر کے حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے مستقل اور متواتر کوشش کرنا ہو گا۔ اس کوشش کا خاص نکتہ یہ ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کے اندر یہ ذہن بنایا جائے کہ وہ اختلاف کے باوجود متحد ہونا جانیں ۔ اس دنیا میں کبھی اتحاد کی بنیاد پرا تحاد نہیں ہوتا بلکہ اختلاف کی بنیاد پر اتحاد ہوتا ہے۔
موجودہ زمانے کے مسلمان اس نکتہ سے بے خبر ہیں ۔ اس لیے وہ جگہ جگہ لڑ رہے ہیں ۔ وہ اعراض کرنے والی باتوں میں ٹکر اؤ کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کے اندر جس دن "اختلاف کے باوجود اتحاد "کا مزاج آجائے گا اسی دن ان کے درمیان عملاً اتحادقائم ہو چکا ہوگا۔
خطرات ومسائل کے بارے میں میں نے کہا کہ خطرات و مسائل اگر چہ بظاہر ہمارے باہر نظر آتے ہیں۔مگر خطرات و مسائل کے اسباب ہمارے اپنے اندر ہیں۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی بے شعوری ، ان کے اندر مقابلہ کی استعداد کی کمی ، زمانی قوت میں ان کا پیچھے ہو جانا، یہ اصل اسباب ہیں جنھوں نے موجودہ مسلمانوں کو ہر جگہ خطرات و مسائل میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس لیے اس بظاہر بیرونی مسئلہ کے لیے بھی ہمیں سب سے زیادہ اپنے داخلی محاذ پرمحنت کرنا چاہیے ۔
ہوٹل کے طعام گاہ میں ایک میز پر ہم تین آدمی دن کا کھانا کھا رہے تھے ۔ میرے سوا ایک شارجہ کے تھے اور دوسرے مصر کے ۔ کچھ دیر بعد ایک اور مصری دکتور آئے ۔ وہ ہمارے قریب والی کرسی پر بیٹھ گئے ۔ انھوں نے ایک منٹ انتظار کے بعد ہوٹل کے آدمی کو مخاطب کرتے ہوئے مزاحیہ انداز میں کہا : هل المتأخرون يأكلون أم لا یأکلون ( بعد کو آنے والے کھائیں گے یا نہیں) تھوڑی ہی دیر میں آدمی نے کھانے کی پلیٹ لاکر ان کے سامنے رکھ دی ۔ حالانکہ عام حالت میں انھیں دیر میں کھانا پہنچنا چاہیے تھا۔ انھوں نے کہا کہ مزاح اکثر حالات میں بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔ وہ کھانے کےپورے وقت میں مزاحیہ انداز میں باتیں کرتے رہے۔
اکثر لوگوں کا انداز یہی ہوتا ہے۔ مگر مجھے ذاتی طور پر یہ انداز بالکل پسند نہیں ۔ جس وقت کھانا سامنے رکھا ہوا ہو ، وہ انتہائی سنجیدگی کا وقت ہوتا ہے۔ کھانا اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نعمت ہے۔ یہ وقت وہ ہوتا ہے جب کہ آدمی پر سب سے زیادہ شکر کا جذبہ طاری ہونا چاہیے ۔ ایسے موقع پرمزاحیہ کلام شکر کے احساسات کا قاتل ہے۔ دستر خوان کے اوپر سب سے بڑا کام یہ ہے کہ آدمی خاموش رہےاور اللہ کو یاد کرتے ہوئے کھانا کھائے ۔
ایک مشہور عرب شخصیت کے بارے میں ایک صاحب نے بتا یا کہ وہ آپ کی الإسلام یتحدّیٰ جیسی کتابوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ مگر اسی کے ساتھ ان کا کہنا ہے کہ وحید الدین خاں آخرت پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں ، مگر قرآن میں آخرت کی اتنی زیادہ اہمیت نہیں پائی جاتی(الشَّيْخ وَحِيدُ الدِّين يُرَكِّزُ عَلَى الْآخِرَةِ ، وَالْآخِرَةُ لَيْسَ لَهَا أَهَمِّيَّةٌ فِي الْقُرْآنِ(
میں نے کہا کہ قرآن کے بارے میں یہ ایک ایسے شخص کا تاثر ہے جو مسلمان ہے۔دوسری طرف ہندستان میں ایک ہند و تعلیم یافتہ شخص کو قرآن کا ہندی ترجمہ دیا گیا۔ اس نے پڑھنے کے بعد اپنا تاثر بتاتے ہوئے کہا کہ قرآن کو پڑھ کر تو میں بہت ڈر گیا۔ کیوں کہ اس میں تو سب آخرت اور حساب و کتاب کی باتیں لکھی ہوئی ہیں۔
ایک مجلس میں ایک صاحب نے کہا کہ مسلم ملکوں میں ہر جگہ جبر ہے ۔مگر اس جبر کو ختم کرنے کے لیے کوئی طاقت ور تحریک نہیں اٹھتی۔ میں نے کہا کہ یہ تفکیر پیغمبرانہ تفکیر کے مطابق نہیں۔ پیغمبر کا طریقہ یہ ہے کہ وہ جبر (سیاست میں بگاڑ )کو برداشت کرتا ہے ۔ وہ اپنی ساری کوشش شرک (عقیدہ میں بگاڑ) کو درست کرنے پر لگا دیتا ہے ۔ جبر کو ختم کرنے کا کام خود خدا نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ البتہ شرک کو ختم کرنے کی ذمہ داری داعی کے اوپر ڈالی گئی ہے۔
جبر کو قانونِ خداوندی کے تحت بہر حال ختم ہونا ہے۔ اس لیے کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ عقیدہ کی اصلاح ، ذہن کی تربیت اور اخلاق کی تعمیر پر محنت صرف کی جائے ۔ تاکہ جب خدا جابروں کے اقتدارکو توڑے تو صالح افراد کا ایک قابل اعتما دگر وہ اس کی جگہ لینے کے لیے معاشرہ میں موجود ہو ۔
موجودہ زمانے میں مسلم قائدین کی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے سیاسی جبر کے نظام کو توڑنے کو اوّلین اہمیت دے دی۔ وہ اپنی ساری توجہ اور محنت اسی محاذ پر صرف کرنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب ایک سیاسی جبر ٹوٹا تو اس کی جگہ دوسرے سیاسی جبر نے لے لی کیونکہ اس کی جگہ لینے کے لیے کوئی قابل اعتماد صالح گروہ وہاں موجود نہ تھا۔
مثلاً مصر کے اسلام پسندوں نے شاہ فاروق کے سیاسی جبر (۱۹۵۲) کو توڑا تو اس کے فورا ً بعد جمال عبد الناصر کا سیاسی جبرقائم ہو گیا۔ پاکستان کے اسلام پسندوں نے ایوب خاں کے سیاسی جبر(۱۹۶۹) کو توڑ اتو اس کے بعد جو چیز وہاں قائم ہوئی وہ مسٹر بھٹو کا سیاسی جبر تھا۔
ایک صاحب نے جنرل محمد ضیاء الحق کی بہت تعریف کی۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے خیال میں جنرل ضیاء الحق صاحب کا خاص کارنامہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میرے نزدیک ان کا سب سے بڑا تاریخی کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اقوام متحدہ کے ایوان میں حق کی آواز بلند کی۔
میں نے کہا کہ جنرل محمد ضیاء الحق نے اپنے ساڑھے گیارہ سالہ دور حکومت (۸۸ - ۱۹۷۷) کے دوران میرے نزدیک اسلام یا ملت اسلام کا کوئی حقیقی کام نہیں کیا ۔ جو کام ان کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں (مثلاً اقوام متحدہ میں تقریر کرنا ) وہ سب اخبار ی اہمیت کے کام ہیں نہ کہ حقیقی اہمیت کے کام۔ البتہ صدر ضیاء الحق کے ذریعہ ایک کارنامہ ضرور انجام پایا ہے۔ اور وہ ہے ایک افسانےکا خاتمہ۔ ان کے ذریعہ پاکستان کا اسلام پسند طبقہ مکمل طور پر اکسپوز (expose) ہوگیا۔ ضیاء الحق صاحب نے حکومت کے اندر اور حکومت کے باہر وہاں کی اسلام پسند جماعت اور وہاں کے علماء کو مکمل مواقع دئے ۔ مگر ان لوگوں نے صرف یہ ثابت کیا کہ وہ لوگ اس کام کے لیے آخری حد تک نا اہل ہیں۔ وہ نہ حکومتی عہدوں کو اسلامی انداز پر سنبھالنے کی استعد ادر کھتے ہیں اور نہ حکومت کے باہر کوئی گہراتعمیری کام کرنے کی صلاحیت ان کے اندر موجود ہے۔
موجودہ حالت میں کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ خاموش فکری مہم کے ذریعہ ذہنوں کو بدلاجائے ۔ اس کو"تعمیر شعور" کی مہم کہا جاسکتا ہے۔ یہ کام اگر صحیح انداز میں کیا جائے تو کچھ عرصہ کے بعد ایک طرف اعلیٰ صلاحیت کے افراد کی ایک باشعور ٹیم تیار ہو جائے گی جو ذمہ دارانہ مناصب کو چلانے کی اہل ہو ۔ دوسری طرف عمومی سطح پر معاشرہ میں صالح تعمیری فضا پیدا ہو جائے گی۔ یہی دونوں وہ چیزیں ہیں جو ایک جابرانہ نظام کے ٹوٹنے کے بعد دوسرے صالح نظام کے قیام کی ضمانت بن سکتی ہیں ۔ یہی وہ " صبر" ہے جس کا قرآن کی اس آیت میں ذکر ہے : وَجَعَلۡنَا مِنۡهُمۡ أَئِمَّةٗ يَهۡدُونَ بِأَمۡرِنَا لَمَّا صَبَرُواْۖ [السجدة: 24] ۔
یہاں جس نشست یا جس مجلس میں بھی مجھ کو بولنے کا موقع ملا ، میں نے دعوت کی بات کہی ۔ ایک نشست میں میں نے کہا کہ اللہ کی سب سے بڑی مرضی، قرآن وحدیث کے مطابق ، یہ ہے کہ اس کے بندے آگ میں جانے سے بچیں ۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہے کہ اس کے دین کا پیغام ہر ملک میں اور ہر گھرمیں پہنچ جائے۔ اس کام کی تکمیل دور آخر میں ہونے والی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ لَا يَبْقَى عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ بَيْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللهُ كَلِمَةَ الْإِسْلَامِ ۔ (مسند احمد، 23814)حدیث کے راوی اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اس وقت دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے گا (قُلْتُ : فَيَكُونُ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ)
اس کے ساتھ اس واقعہ کو ملالیجئے کہ موجودہ زمانہ میں پہلی بار وہ وسائلِ اعلام انسان کے قبضہ میں آئے ہیں جو اس قسم کی عالمی اشاعتِ دین کو ممکن بنا دیں۔ ان دونوں باتوں کو سامنے رکھنے کے بعد یہ کہنا صحیح ہو گا کہ آج اللہ تعالی کی سب سے بڑی مرضی یہ ہے کہ اللہ کے سچے دین کی آواز تمام دنیا اور ہر گھر میں پہنچانے کی کوشش کی جائے ۔ یہ کام اتنا اہم ہے کہ مسلمانوں کو ہردوسرا کام چھوڑ کر اس کو انجام دینا ہو گا۔ کیوں کہ اس کے بغیر اس کام کو موٴثر طور پر انجام نہیں دیا جاسکتا۔ مثال کے طور پر اگر ہم اسلام کی مخاطب قوموں سے غیر دعوتی عنوانات پر ٹکر اؤ کرتے رہیں تو وہ فضا درہم برہم ہو جائے گی جب کہ کسی شخص تک دین کا پیغام پہنچایا جائے اور وہ اس کو سنجیدگی کے ساتھ سنے اوراس پر غور کرے۔
ایک اور نشست میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ موجودہ زمانے میں جو مسلم جماعتیں مسلم حکمرانوں سے ٹکر ارہی ہیں ، اس کو میں سراسر لغو سمجھتا ہوں ۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اسلام کا مقصد صالح نظام بنانا ہے۔ اور صالح نظام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ موجودہ زمانہ کی مسلم حکومتیں ہیں جو سیاسی جبر کے اوپر قائم ہیں۔ اگر ہم اس سیاسی جبر کا خاتمہ نہ کریں تو ہم کبھی بھی صالح نظام قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
میں نے کہا کہ جبر (اجباری نظام) کو توڑنے کے لیے ہمیں براہ راست جدو جہد کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ کام خود خدا کی طرف سے زیادہ موثر طور پر انجام دیا جا رہا ہے۔ اصل یہ ہے کہ اس دنیا کوخد انے امتحان کی مصلحت کے تحت بنایا ہے۔ امتحان کی مصلحت کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ لوگوں کو اپنے عمل کی آزادی ہو ۔ اگر کسی آدمی کا ہاتھ پاؤں باندھ دیا جائے تو اس پر یہ الزام نہیں لگایا جا سکتاکہ اس نے مسجد میں جاکر نماز ادا نہیں کی۔
رات کا اندھیرا ضرور ختم ہوتا ہے ۔ رات کو ختم کرنے کے لیے ہمیں اس سے براہ راست لڑنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اپنے اندر یہ استعداد پیدا کریں کہ جب رات ختم ہو کر دن آئے تو ہم اس کو پوری طرح استعمال کر سکیں۔ اسی طرح نظام جبر کے دوران ہمیں یہ تیاری کرنا چاہیے کہ جب خدا اس کو ختم کر سے تو ہم نئے مواقع کو استعمال کر کے صالح نظام کی تعمیر کر سکیں۔
۹۰-۱۹۸۹ کے درمیان روس میں جو کچھ ہورہا ہے وہ خدا کے اسی قانون کی بنا پر ہے ۔ سوویت یونین نے زمین کے ایک بڑے رقبہ پر کامل جبر کا نظام قائم کر دیا تھا۔ یہ صورت حال خدا کی مصلحت کے سراسر خلاف تھی۔ یہ خدا کی دی ہوئی امتحانی آزادی کو ساقط کرنے کے ہم معنی تھا۔ چنانچہ خدا کی طاقت ظاہر ہوئی اور اس نے حیرت انگیز طور پر سوویت ایمپائر کو توڑ دیا۔
موجودہ زمانے کے اسلام پسند رہنما اپنے حصہ کا کام نہیں کرتے۔ وہ خد اکے حصہ کا کام کرنے کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب خدا نظام جبر کو توڑتا ہے تو اسلام پسند قائدین اس حیثیت میں نہیں ہوتے کہ وہ سابق نظام کی جگہ لے سکیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک جبر کے بعد دو سرا جبراس کی جگہ لے لیتا ہے۔ یا نظام جبر ٹوٹنے کا فائدہ صرف ان لوگوں کے حصہ میں چلا جاتا ہے جو آزادی کو بے راہ روی کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔
کھانے کی میز پر دو آدمی بات کر رہے تھے۔ ایک قبرص کے تھے، دوسرے سرینام کے۔ دونوں میں تعارف ہوا، گفتگو ہونے لگی۔ ایک صاحب اپنے ملک کی پارلیمنٹ کے ممبر تھے، دوسرےصاحب ایک تنظیم کے سکریٹری تھے۔ ایک نے دوسرے سے کچھ معلومات اپنے ملک کے بارے میں بھیجنے کے لیے کہا۔ دوسرے نے کہا کہ ضرور بھیجوں گا ۔ آپ اپنا فیکس (fax) نمبر دیدیجئے۔
یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جدید وسائل کے ظہور نے موجودہ زمانہ میں مواصلات کو کتنا تیز رفتار بنا دیا ہے ۔ ڈاک اور تار اور ٹیلکس اب "فرسودہ " چیز بن چکے ہیں ۔ اب آدمی "فیکس" کی رفتار سے مواصلاتی تعلق قائم کرنا چاہتا ہے۔
ہمارے اسلامی ادارے ابھی اس سے بہت دور ہیں کہ ان کے یہاں فیکس کا طریقہ استعمال ہونے لگے ۔ اگر کسی ادارہ میں کسی "شیخ "کی فیاضی سے فیکس کی مشین لگ گئی ہو ، تب بھی وہ عملاً بے فائدہ ہے۔ مواصلاتی ذرائع کا مشینی ارتقاءجس بلندی تک پہنچا ہے ، اسلامی اداروں کا شعوری ارتقاء بھی جب تک اس بلند ی تک نہ پہنچے ، اس وقت تک فیکس جیسی چیزوں کا صحیح استعمال ان اداروں میں ممکن نہیں ۔
عربوں کی ایک مجلس میں میں نے اسلام کے روحی پہلو پرگفتگو کی ۔ میں نے کہا کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا حال اس آیت جیسا ہو رہا ہے کہ يَعۡلَمُونَ ظَٰهِرٗا مِّنَ ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَا وَهُمۡ عَنِ ٱلۡأٓخِرَةِ هُمۡ غَٰفِلُونَ [الروم: 7] وہ عظمت ظاہری کو جانتے ہیں مگر وہ عظمت معنوی کو نہیں جانتے۔ دین کا معنوی پہلو ہی اس کا اصل پہلو ہے۔ مگر اپنی اس کمی کی بنا پر وہ اس کے ادر اک سے عاجز ہو رہے ہیں اور ظاہری پہلوؤں میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔
ایک بار کا واقعہ ہے۔ مجھے یورپ کے ایک بڑے ہوٹل میں کھانا کھانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ لوگ کھانوں سے بھری ہوئی میز کے سامنے بے فکری کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ چھری کانٹے کی دھیمی موسیقی میں لوگوں کے قہقہے بلند ہو رہے ہیں ۔ ہر آدمی تفریحی باتیں کر کے اپنی بے فکر ی کا اظہار کر رہا ہے۔ میں نے اپنے قریب بیٹھے ہوئے ایک عرب ساتھی سے کہا کہ لوگوں کو جنت کیسے مل سکتی ہے جب کہ ان کا یہ حال ہو کہ اس کے لیے عمل کرنا تو درکنار ، انھوں نے خداسے اس کو مانگا بھی نہیں۔( كَيْفَ تَكُونُ لَهُمْ الْجَنَّةُ وَهُمْ لَمْ يَسْأَلُوا اللَّهَ الْجَنَّةَ ، فضلاً عَنْ أَنْ يَعْمَلُوا لَهَا )
میں نے کہا کہ جنت کا مستحق بننے کے لیے کم سے کم جو چیز در کار ہے ، وہ یہ کہ آدمی کے دل میں اس کی شدید طلب پیدا ہو ۔ ایک طرف اپنی بے مائگی کا احساس اور دوسری طرف جنت کا اشتیاق،اس دو طرفہ احساس کے نتیجے میں ان کی زبان سے بے اختیارانہ نکل پڑے کہ خدایا ، میرے پاس کوئی عمل نہیں جو مجھ کو جنت میں لے جائے ۔ لیکن خدایا ، میں عاجز ہوں ۔ جہنم کو برداشت کرنے کی طاقت میرے اندر نہیں ۔ میں تجھ سے جنت کا سوال کرتا ہوں ۔ تو مجھے جنت دیدے ، اس لیے نہیں کہ میں نے اس کے لیے عمل کیا، بلکہ اس لیے کہ میں نے تجھ سے اسے مانگا :
يَا رَبِّ لَيْس عِنْدِى عَمَلٌ يُؤَدِّى بِى إِلَى الْجَنَّةِ ، وَلَكِنْ أَنَا عَاجِزٌ لَا أَسْتَطِيعُ الصَّبْرَ عَلَى النَّارِ۔ فَأَنَا أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ - رَبِّ هَبْ لِى الْجَنَّةَ ، لَا لأَنِّى عَمِلْتُ لَهَا بَلْ لِأَنِّى سَأَلْتُهَا مِنْکَ۔اکثر بالواسطہ نتیجہ زیادہ بڑا نتیجہ ہوتا ہے۔ لیکن لوگ اپنی ظاہر پسندی کی وجہ سے صرف براہ راست واقعات کو دیکھ پاتے ہیں ۔ اور اسی کی بابت بحث و مباحثہ میں الجھے رہتے ہیں۔ مثلاً جمال عبد الناصر کے سوشلزم اور قوم پرستی کے نظریات مسلم پریس میں زیادہ تنقید کا موضوع رہے ہیں۔ حالانکہ اس سے زیادہ دور رس نتائج وہ ہیں جو جمال عبد الناصر کی لایعنی پالیسیوں کےذریعہ بالواسطہ طور پر بر آمد ہوئے ۔
ایک صاحب نے کہا کہ میں نے سید قطب اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کی کتا بیں پڑھیں ہیں اس کے بعد گفتگو کے دوران جمال عبد الناصر کا ذکر آیا تو وہ جمال عبد الناصر کی پالیسیوں پرسخت تنقید کرنے لگے۔
میں نے کہا کہ مجھے جمال عبد الناصر کے سوشلزم اور ان کے قوم پرستی کے نظریات سے اتفاق نہیں ، تاہم یہ جمال عبد الناصر ہی کی" برکت "ہے کہ ان شخصیتوں کو عرب دنیا میں وہ مقبولیت حاصل ہوئی جن کا آپ نے ذکر کیا۔ یہ گویا ناصرازم کا بالواسطہ نتیجہ تھا۔
جمال عبد الناصر نے سوشلزم کا نعرہ لگایا اور روس سے اپنا رشتہ جوڑا ۔ وہ عالم عرب کا لیڈ ربننے کا خواب دیکھنے لگے۔ اپنے اس جوش کے تحت انھوں نے یہ حماقت کی کہ انھوں نے کمیونسٹ یمن کی تائید کی اور یمن کے راستہ سے اپنی فو جیں سعودی عرب میں داخل کر دیں۔
ناصر کی ان پالیسیوں کے نتیجے میں ناصر اور سعودی حکمرانوں کے درمیان شد ید رقابت قائم ہوگئی مشہور ہے کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ چونکہ سید ابوالاعلی مودودی فکر ی حیثیت سے اورسید قطب سیاسی رقیب کی حیثیت سے ناصر کے مخالفین میں تھے ، اس لیے ان دونوں( اور بعض دوسرے افراد کو) سعودی عرب میں پذیرائی حاصل ہوگئی۔ ان کی کتا بیں سعودی عرب کی قیمت پر ہر زبان میں بڑی تعداد میں پھیلائی جانے لگیں۔
سید ابو الاعلیٰ مودودی اور سید قطب کی کتابوں کے بڑے پیمانہ پر پھیلنے کا خاص سبب یہی سعودی تعاون ہے۔ حالانکہ استدلالی اعتبار سے دونوں صاحبان کی کتابیں سطحی تھیں۔ ان کی اہمیت زیادہ تر ان کی انشاء پردازی میں تھی نہ کہ ان کی علمی حیثیت میں۔ خریداری کی بنیاد پر یہ کتا بیں کبھی نہ پھیلتیں۔ مگر مفت تقسیم کی بنا پر وہ ہر جگہ پہنچ گئیں۔
ایک عرب عالم اخوان سے تعلق رکھتے تھے اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی تحریروں سے کافی متاثر تھے ۔ انھوں نے میرے بارے میں کہا کہ آپ کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ اسلام دعوت کا نام ہے۔ اسلام کا سیاست اور حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔ پھر انھوں نے مولانا مودودی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مودودی سے پہلے اسلام صرف نماز اور عبادت کا نام تھا۔ مودودی نےبتایا کہ اسلام ایک کامل اور شامل نظام ہے۔
میں نے کہا کہ آپ جیسے لوگ دین کو ایک ڈھانچہ کی شکل میں دیکھتے ہیں ۔ آپ نماز کو بھی ایک ظاہری ڈھانچہ سمجھتے ہیں اور نظام حکومت کو بھی ایک ظاہری ڈھانچہ ۔ اس لیے آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ نماز دین کا جزئی ڈھانچہ ہے اور نظامِ حکومت دین کا مکمل ڈھانچہ ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دین ایک معنوی حقیقت کا نام ہے نہ کہ ظاہری ڈھانچہ کا۔ یہ ایک ہی معنوی حقیقت ہے جو مسجد میں نماز کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور سیاست میں اسلامی نظام حکومت کی صورت میں۔
میرے فکر اور دوسروں کے فکر میں آپ کا یہ تقابل صحیح نہیں ۔ دونوں میں اصل فرق یہ ہےکہ ہم دین کو ایک معنوی حقیقت سمجھتے ہیں جس کو شریعت میں تقوی کہا گیا ہے ، اور آپ نے دین کو ایک ظاہری ڈھانچہ سمجھ رکھا ہے ۔ ہم دین کے احیاء کے لیے اس کی معنویت کے احیاء کی کوشش کر رہے ہیں ، اور دوسرے لوگ دین کے احیاء کے لیے اس کے خارجی نظام کا احیاء کرنا چاہتے ہیں ۔
طرابلس کے ہندستانی سفارت خانہ میں بھی جانے کا اتفاق ہوا ۔ جناب ذکر الرحمٰن صاحب وہاں سکنڈ سکریٹری کے طور پر ہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ مسٹر رحمن کو سفارت خانہ میں بہت باعزت مقام حاصل ہے۔ ہر ایک ان کا احترام کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنا کام نہایت مستعدّی کے ساتھ انجام دیتے ہیں ۔ اور اکثر اپنی واقعی ڈیوٹی سے زیادہ کام کرتے ہیں ۔ شاید یہی و ہ حقیقت ہے جس کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان لفظوں میں بیان کیا : أِنَّ قِيمةَ المَرْءِ مَا يُحْسِنُه۔
آدمی جب کوئی بر اکام کرے تو لوگوں کو صرف اس کی برائی یا درہتی ہے۔ ہر آدمی اس کو بری نظر سے دیکھنے لگتا ہے۔ اس کے برعکس آدمی جب کوئی اچھا کام کرے تو وہ صرف اس اچھے کام کے واسطہ سے جانا جانے لگتا ہے۔ اس کا اچھا کام ہی اس کی تصویر بناتا ہے۔ اس کی زندگی میں اگر کچھ کمتر پہلوہیں ، تو وہ سب پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔
ایک عرب عالم سے ملاقات ہوئی ۔ وہ ہمارے مشن سے پوری طرح واقف ہیں۔ گفتگو کے دوران انھوں نے نہایت تاثر کے ساتھ کہا کہ آپ کا یہ مشن عربوں کے لیے رحمت ہے۔ کیوں کہ اگر وہ اس فکر کو اختیار کر لیں تو ان کے لیے ممکن ہوجائے گا کہ وہ انٹگریٹی کے ساتھ زندگی گزار سکیں ۔ کیوں کہ موجودہ زمانہ کی اسلامی تحریکوں نے عالم عربی میں جو حالات پیدا کر دئے ہیں ، اس کے بعد ان کے لیے دو برائیوں میں سے ایک برائی کو اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ یا قید یا نفاق ۔ اگر وہ چاہیں کہ وہ اپنے موجودہ دینی خیالات کے ساتھ زندہ رہیں تو انھیں عذاب سے دو چار ہونا پڑے گا۔ اور اگر وہ سیاسی نظام کے ساتھ موافقت کر کے زندہ رہیں تو یہ ان کے لیے منافقت ہو گی ، کیونکہ ان کے دل میں کچھ ہو گا اور عمل میں کچھ :
أِنَّ رِسَالَتَك هَذِهِ رَحْمَةٌ لِلْعَرَب لِأَنّ بِهَذِه الرِّسَالَة هُم يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يَعِيشُوا بِشَخْصِيَّةٍ اِنْسِجامِيَّةٍ ، فَفِى الْأَحْوَال الْقَائِمَة الَّتِى تُوجَد فِى العَالَمِ العَرَبِيِّ الْيَوْم بِسَبَب الْحَرَكَات الْإِسْلَامِيَّة الْمُعَاصَرَة ، لَمْ يَبْقَ لَهُمْ إلَّا الِاخْتِيَار بَيْن الشَّرَّيْن ، أِمَّا السِّجْنُ وَأِمَّا النِّفَاقُ۔ بِحَيْثُ إَنَّهُمْ إذَا أَرَادُوا أَنْ يَعِيشُوا طَبْقاً لِمَشَاعِرِهِم الدِّينِيَّة عُذِّبُوا وَإِن اَرَادُو أَنْ يَعِيشُوا وَفْق النِّظَام یُنَافِقُوا۔ایک عرب ملک کے متعلق مجھے معلوم ہواکہ وہاں ایک اسلامی جماعت کے افراد گھر یلو انداز پر اپنا اجتماع کیا کرتے تھے ۔ اس پر حکومت کی طرف سے پابندی لگادی گئی۔ بعد کو ان لوگوں نے ذمہ داروں سے مل کر اس کی اجازت حاصل کر لی ۔ مگر یہ اجازت انہیں صرف اس وقت ملی جب کہ انھوں نے اقرار کیا کہ ان کا کوئی تعلق سیاست سے نہیں ہے۔ یہ اقرار ان کے تصور دین کے مطابق سراسر خلاف واقعہ تھا۔ کیوں کہ ان کا جو تصور اسلام ہے اس کی بنیاد ہی سیاست پر قائم ہے۔
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ کی شام کو عربوں کی ایک مجلس میں میں نے کہا کہ امت مسلمہ کا اصل مقصد شہادت علی الناس ہے۔ یعنی خالص دعوتی انداز میں وہ کام کرنا جس کو قرآن میں انذار و تبشیر کہاگیا ہے۔ یہ از اول تا آخر ایک فکری مہم ہے، اس کا کوئی تعلق جنگ اور قتال سے نہیں ۔ حتی کہ فریق ثانی اگر اشتعال انگیزی کرے تب بھی ہمیں ٹکراؤ سے یک طرفہ اعراض کرنا ہے تاکہ داعی اور مدعو کے درمیان معتدل فضا باقی رہے۔ مسلمان اگر اس کام کو نہ کریں تو وہ خدا کی پکڑ سے بچ نہیں سکے۔
اس سلسلہ میں میں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ۱۹۶۲ میں چین نے آسام کی سرحد پر ہندستان کے علاقہ میں اپنی فوجیں داخل کر دیں۔ اس وقت تیز پور (آسام کا کمشنر ) اپنے دفتر سے بھاگ کر اپنے گھر آگیا۔ گھر پر اپنے بچوں کے ساتھ قیام کرنا عام لوگوں کے لیے کوئی جرم نہیں ۔مگر مذکورہ کمشنر کے لیے یہ چیز جرم بن گئی۔ کیوں کہ اس نے اپنی ڈیوٹی چھوڑ دی تھی۔ جب کسی آدمی کو کسی خاص ڈیوٹی پر مقرر کیا جائے تو اس کی ساری قیمت اس ڈیوٹی کے مقام پر ہوتی ہے۔ کسی اور مقام پربظاہر وہ کوئی درست کام کر رہا ہو تب بھی اس کے کام کی کوئی قیمت نہیں ۔
اس پر ایک عرب نوجوان نے کہا کہ آپ کی مثال سے قتال کا حکم ثابت ہوتا ہے ۔ کیوں کہ تیز پور کے کمشنر کی غلطی یہی تھی کہ اس نے قتال کے محاذ کو چھوڑ دیا اور غیرقتال کے میدان میں واپس آگیا۔
میں نے کہا کہ مثال کا یہ مطلب نہیں۔ اصل یہ ہے کہ مثال کی دو قسمیں ہیں، ایک مثال برائے استدلال ۔ دوسری مثال برائے توضیح۔ آپ کا اعتراض اس وقت صحیح ہو سکتا تھا جب کہ میں نے یہ مثال برائے استدلال دی ہو ، حالاں کہ میں نے یہ مثال برائے توضیح دی ہے۔
جب آپ ایک نقطۂ نظر کو قرآن و حدیث سے ثابت کر دیں اور اس کے بعد ایک مثال بطور توضیح نقل کریں تو اس مثال کا صرف وہ جزء وہاں چسپاں ہو گا جو آپ کی بات سے متعلق (relevant) ہے۔ دوسرے پہلو جو غیر تعلق(irrelevant) ہیں وہ اپنے آپ حذف ہو جائیں گے۔
میں نے اپنے نقطۂ نظر کو اولاً قرآن و حدیث سے ثابت کیا۔ اس کے بعد تو ضیح کے لیے تیز پور کے کمشنر کی مثال دی ۔ اس مثال میں صرف ڈیوٹی کا پہلو میری گفتگو سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لیے اس کا ڈیوٹی کا پہلو لیا جائے گا، اور قتال کا پہلو اپنے آپ حذف ہو جائے گا۔ میری بات کی تردید کے لیے آپ کو قرآن و حدیث سے دلیل لانی ہوگی ، کیونکہ میرا بنائے استدلال قرآن و حدیث ہے نہ کہ کمشنر کی مثال ۔
ایک عرب ملک کے کچھ عرب نوجوانوں سے ملاقات ہوئی۔ یہ ملک وہ ہے جو عام طور پر بدنام ہے کہ وہاں جبر ہے۔ وہاں کے حکمراں بے دین ہیں۔ وہاں اسلامی کام کے مواقع نہیں ہیں۔ مگر ان نوجوانوں کا تجربہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کام کرنے والوں کے لیے ہر جگہ کام کے مواقع ہیں۔
ان عرب نوجوانوں نے راقم الحروف کی عربی مطبوعات پڑھیں اور انگریزی الرسالہ کا مطالعہ کیا۔ اس سے ان کے اندر دعوتی کام کا ذہن پیدا ہوا۔ ان کے ملک میں باہر کے ملکوں کے بہت سے غیر مسلم لوگ کام کرتے ہیں۔ ان کار کن غیر مسلموں کے درمیان انھوں نے دعوتی کام کرنا شروع کیا۔ اب تک وہ بہت سے لوگوں کو اسلام میں داخل کر چکے ہیں۔
انھوں نے مجھے کچھ عربی کے فارم دکھائے۔ یہ فل اسکیپ سائز میں عمدہ کاغذ پر عمدہ چھپے ہوئے فارم تھے۔ ان میں ایک تصویر کا خانہ تھا جہاں نومسلم کی تصویر لگائی جاتی تھی۔ اس کے ساتھ فارم میں مختلف خانے تھے جن کو نو مسلم بھر کر اپنا دستخط کر تا تھا۔ یہ فارم اس ملک کی حکومت نے نومسلموں کے لیے چھپوا ر کھے ہیں۔ مذکورہ نوجوانوں نے سرکاری دفتر سے ربط قائم کر کے یہ فارم حاصل کئے اور اسلام قبول کرنے والوں پر اس کو استعمال کرنا شروع کیا۔
اس طرح ایک بد نام ملک میں آزادانہ طور پر ایک دینی کا م انجام پا رہا ہے۔ مزید یہ کہ یہ دینی کام وہ ہے جس کی بابت حدیث میں آیا ہے کہ وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔
ایک عرب نوجوان عمر الہادی سے ملاقات ہوئی ۔ وہ ایک عرب یونیورسٹی میں میڈیکل سائنس کے طالب علم ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ الرسالہ انگریزی اور مرکز کی عربی مطبوعات کو پڑھ کر ان کے اندر دعوت کا جذبہ پیدا ہوا۔ اپنی یونیورسٹی کے غیر مسلم پر وفیسروں سے انھوں نے ربط قائم کیا۔ اور ان کو انگریزی کتا بیں، مثلاً قرآن کا انگریزی ترجمہ ، گا ڈار ائزز، پرافٹ آف ریوولیوشن وغیرہ۔پڑھنے کے لیے دیں ۔ اس سلسلہ میں انھوں نے بڑے حوصلہ افزا تجربات بتائے ۔ مثلاً انھوں نے کہا کہ ان کی یونیورسٹی میں فزیالوجی کے ایک پروفیسر ڈاکٹر" بی آر" ہیں ۔ انھوں نے پروفیسر موصوف کو کتا بیں پڑھائیں۔ پڑھنے کے بعد ایک ملاقات میں انھوں نے عمر الہادی سے کہا کہ میرے بیٹے، یقین کرو، اگر تم نے اس حقیقت کو دنیا کے سامنے پہنچا دیا ، تو تم دیکھو گے کہ دنیا کے ۹۰ فیصد لوگوں نے اسلام قبول کر لیا ہے :
My son, believe me, if you can introduce this truth to the world as you have done to me, you will see that 90% of the world will become Muslim.
نائجیریا کے ایک مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے اپنا نام نمدی (Namdi) بتایا۔ ان کی تعلیم بیرونی ملکوں میں ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ میرا خاندان مسلمان ہے۔ مگر مجھے مسلمانوں کی اس بات سے سخت اختلاف ہے کہ وہ لڑائی (جہاد) کو بہت زیادہ گلوریفائی کرتے ہیں۔ میں کسی بھی قسم کی لڑائی کے سخت خلاف ہوں ۔ اسلام اگر سچا مذہب ہو تو وہ لڑائی کا مذہب نہیں ہوسکتا۔ اس معاملہ میں اپنے خاندان سے میرا اتنا اختلاف ہوا کہ میں نے خاندان کو چھوڑ دیا۔ اسلام اگریہی ہے تو میں اس کو نہیں مانتا۔
میں نے سوچا کہ انسان کی فطرت ایسا دین چاہتی ہے جس میں امن ہو ۔ مگر موجودہ مسلمانوں کے ماحول میں اس کو ایسا اسلام نہیں ملتا۔ یہاں وہ دیکھتا ہے کہ اسلام جنگ کا مبلغ ہے۔ وہ اپنی فطرت کی آواز پر چلے تو اس کو اپنے مسلم خاندان کو چھوڑنا پڑتا ہے، وہ اگر خاندان پر چلے تو اپنی فطرت کو ۔
عرب اخبارات میں آجکل روز انہ دعوت اسلام اور قبول اسلام کی خبریں ہوتی ہیں۔ مثلاً طرابلس کے اخبار الدعوۃ الاسلامیہ کے صرف ایک شمارہ ( ۲۱ مارچ ۱۹۹۰ء )میں اس قسم کی کئی خبریں موجود تھیں۔ ایک خبر میں بتایا گیا تھا کہ پچھلے سات سال میں ہانگ کانگ کے سات ہزار باشندوں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا ہے ( ۷ آلاف مواطن في هونج كونج يشهرون إسلامهم في سبعة أعوام )