مضحکہ خیز
اسٹیفن ہاکنگ (Stephen W. Hawking) ۱۹۴۲ میں پیدا ہوئے ۔ وہ کیمبرج یونیورسٹی میں میتھمیٹکس کے شعبہ میں لو کاسین پر وفیسر ہیں ۔ یہ وہ علمی منصب ہے جو اس سے پہلے نیوٹن اور ڈیر اک جیسے اعلیٰ سائنس دانوں کو حاصل رہا ہے ۔ وہ آئن سٹائن کے بعد سب سے زیادہ ممتاز نظریاتی طبیعیات داں (theoretical physics) سمجھے جاتے ہیں۔
اسٹیفن ہاکنگ کی ایک کتاب نیویارک سے ۱۹۸۸ میں چھپی ہے ۔ یہ ۲۰۰ صفحات پرمشتمل ہے۔اس کا نام ہے ––––– وقت کی مختصر تاریخ:
A Brief History of Times
یہ ایک بہت دلچسپ اور سبق آموز کتاب ہے۔ وہ اتنی مقبول ہوئی کہ صرف ایک سال میں اس کے چودہ اڈیشن چھاپے گئے۔ اس کتاب کا آغاز حسب ذیل سطروں سے ہوتا ہے :
"ایک مشہور سائنس داں نے ایک بار فلکیات کے موضوع پر ایک عوامی لکچر دیا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ برٹرینڈ رسل تھا۔ اس نے بتایا کہ کس طرح زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور کس طرح سورج ہماری کہکشاں کے مرکز میں گھومتا ہے جو کثیر ستاروں کا ایک مجموعہ ہے۔لکچرکے خاتمہ پر ایک چھوٹی بوڑھی عورت
A well-known scientist (some say it was Bertrand Russell) once gave a public lecture on astronomy. He described how the earth orbits around the sun and how the sun, in turn, orbits around the center of a vast collection of stars called our galaxy. At the end of the lecture, a little old lady at the back of the room got up and said: "What you have told us is rubbish. The world is really a flat plate supported on the back of a giant tortoise." The scientist gave a superior smile before replying, "What is the tortoise standing on?" "You're very clever young man. Very clever," said the old lady. "But it's turtles all the way down!"
Most people would find the picture of our universe as an infinite tower of tortoises rather ridiculous, but why do we think we know better? What do we know, about the universe, and how do we know it? Where did the universe come from, and where is it going? Did the universe have a beginning, and if so, what happened before then? What is the nature of time! Will it ever come to an end? Recent breakthroughs in physics, made possible in part by fantastic new Technologies, suggest answers to some of these longstanding questions. Someday these answers may seem as obvious to us as the earth orbiting the sun-or perhaps as ridiculous as a tower of tortoises. Only time (whatever that may be) will tell.
کمرہ کے پچھلے حصہ سے اٹھی اور کہا: تم نے جو کچھ ہمیں بتایا وہ بالکل لغو ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا پلیٹ کی مانند چپٹی ہے جو ایک بہت بڑے کچھوے کی پیٹھ پر ٹکی ہوئی ہے۔ سائنس داں جواب دینے سے پہلے فاتحانہ انداز سے مسکرایا اور پھر خاتون سے پوچھا کہ یہ کچھوا کس چیز کے او پر کھڑا ہے۔ بوڑھی عورت بولی: اے نوجوان ، تم بہت چالاک ہو، مگر یہ کچھوے پر کچھوا ہے اور اسی طرح یہ سلسلہ نیچے تک چلا گیا ہے۔
بہت سے لوگ ہماری دنیا کی اس تصویر کو مضحکہ خیز سمجھیں گے کہ کچھوؤں کا ایک لامتناہی کھمبا ہے جس کے اوپر یہ زمین ٹھہری ہوئی ہے۔ مگر کیوں ہم ایسا سمجھتے ہیں کہ ہم جو کچھ جانتے ہیں وہ اس سے بہتر ہے۔ ہم کائنات کے بارے میں کیا جانتے ہیں اور ہم کس طرح اس کو جانتے ہیں۔ کائنات کہاں سے آئی اور وہ کہاں جار ہی ہے۔ کیا کائنات کا ایک آغاز ہے اور اگر ایسا ہے تو اس سے پہلے جو گزراوہ کیا تھا۔ وقت کی نوعیت کیا ہے۔ کیا وہ بھی ختم ہو گیا۔ فزکس کے حالیہ انکشافات نے جزئی طور پر نئی حیرت ناک ٹکنالوجی کو ممکن بنا دیا ہے۔ اس سے کچھ قدیم سوالوں کے جواب معلوم کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ کچھ دن تک یہ جوابات ہم کو اسی طرح واضح دکھائی دے سکتے ہیں جیسے کہ سورج کے گرد زمین کا گھومنا۔ یا شاید وہ آئندہ اتنے ہی مضحکہ خیز نظر آنے لگیں جیسا کہ کچھؤوں کا کھمبا۔صرف وقت، خواہ وہ جو بھی ہو ، اس کے بارے میں بتا سکے گا "۔ صفحہ ۱-۲
جدید نظریات کے مضحکہ خیز ثابت ہونے کے لیے ہمیں مستقبل کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ اہل دانش کے لیے ان کا مضحکہ خیز ہونا آج ہی معلوم اور ثابت شدہ ہے۔ مثلاً جدید سائنسی فکرکے مطابق دنیا کے واقعات اسباب و علل کی ایک زنجیر میں بندھے ہوئے ہیں۔ ہر واقعہ کے پیچھے ایک سبب ہے ، اور پھر اس سب کے پیچھے ایک اور سبب۔ اس طرح یہ سلسلہ برابر چلا جا رہا ہے۔ اس قسم کا لامتناہی سلسلہٴ اسباب بلاشبہہ اتنا ہی مضحکہ خیز ہے جتنا کہ کچھؤوں کی لامتناہی قطار ۔
زندگی اور کائنات کی حقیقت کے بارے میں آج کا انسان عجیب عجیب غلط فہمیوں میں پڑا ہواہے۔ کوئی سمجھتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک بے مقصد ہنگامہ ہے ۔ وہ اپنے آپ شروع ہوا اور اپنے آپ ختم ہو جائے گا کسی کا خیال ہے کہ بہت سی رو حیں یا دیوتا ہیں جو اس دنیا کے مالک ہیں۔ کوئی اسباب و علل یا قانون اتفاق (law of chance) کے تحت اس کی تشریح کر رہا ہے، وغیرہ یہ تمام باتیں بلاشبہ لغو ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف ایک خدا ہے جو تمام چیزوں کا مالک ہے۔ اسی نے انسان کو اور کائنات کو پیدا کیا۔ وہی اس کو چلا رہا ہے۔ یہ دنیا کوئی الل ٹپ یا بے مقصد دنیا نہیں ۔ یہ خدا کے منصوبہ کے مطابق ہے۔ اس کا آغاز اور اس کا انجام دونوں منصوبہ ٴخداوندی کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : مذہب اور جدید چیلنج)
انسان کے بارے میں خدا کا منصوبہ یہ ہے کہ اس نے انھیں پیدا کر کے امتحان کے لیے موجودہ دنیا میں رکھا ہے ۔ اس کا یہ امتحان پیدائش سے موت تک جاری رہتا ہے۔ موت کے بعد ہر آدمی کے جزاء کا دور شروع ہو جاتا ہے ۔ موت کے بعد ہر آدمی اپنے دنیوی عمل کے مطابق ، یا تو جنت کی پر راحت زندگی پائے گا یا جہنم کے عذاب خانہ میں داخل کر دیا جائے گا۔
موجودہ دنیا میں آدمی کے پاس جو کچھ ہے وہ بربنائے امتحان ہے، آخرت میں جو کچھ اس کو دیا جائے گا وہ بر بنائے استحقاق ہو گا۔ یہ فرق پورے معاملہ کو آخری حد تک بدل دے گا۔ موجودہ دنیا میں ہر چیز ہر آدمی کو ملی ہوئی ہے۔ کیوں کہ امتحان کے لیے اس کو سب کچھ دینا ضروری تھا ۔ اگر چیزیں اور مواقع نہ دئے جائیں تو آدمی کا امتحان کیسے ہو گا۔ مگر موت کے بعد آنے والی دنیا میں صورت حال یکسر بدل جائے گی۔
جو آدمی موجودہ دنیا میں اپنا استحقاق ثابت نہ کر سکے ، وہ آخرت کے عالم میں اس طرح داخل ہوگا کہ وہاں وہ بالکل خالی ہاتھ ہوگا۔ ہوا اور پانی اور روشنی بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ وہ اچانک اپنے آپ کو بے بسی کے عالم میں پائے گا۔ موجودہ دنیا میں اس کو ہر چیز اپنی نظر آتی ہے۔ آخرت میں ہر چیز اس کے لیے غیر ہو جائے گی۔ وہ ایسے ماحول میں ہو گا جہاں اجنبیت اوربے چارگی کے سوا کوئی اس کا استقبال کرنے والا نہیں ۔
یہی وہ صورت حال ہے جس کو قرآن میں ان لفظوں میں بیان کیا گیا ہے : اور وہ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب ہے، اگر تم سچے ہو۔ کاش یہ انکار کرنے والے اس وقت کو جانتے جب وہ آگ کو اپنے سامنے سے نہ روک سکیں گے اور نہ اپنے پیچھے ہے۔ اور نہ ان کو مدد پہنچے گی ۔ بلکہ وہ اچانک ان پر آجائے گی ، پس وہ حیران رہ جائیں گے ، پھر وہ نہ اس کو دفع کر سکیں گے اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی (الانبیاء ۳۸ - ۴۰ )
ایک سوال
کہا جاتا ہے کہ خدا کی بنیاد پر کائنات کی توجیہہ کر نا بھی مسئلہ کا حل نہیں ۔ کیوں کہ پھر فوراً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر خدانے کائنات کو بنا یا تو خدا کو کس نے بنایا۔
مگر یہ ایک غیر منطقی سوال ہے۔ اصل مسئلہ "بے سبب" خدا کو ماننا نہیں ہے۔ بلکہ دو "بے سبب" میں سے ایک بے سبب کو ترجیح دینا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ ہمارے سامنے ایک پوری کائنات موجود ہے ۔ ہم اس کو دیکھتے ہیں۔ ہم اس کا تجربہ کر رہے ہیں۔ ہم کائنات کے وجود کو ماننے پر مجبور ہیں ۔ ایک شخص خدا کو نہ مانے ، تب بھی عین اسی وقت وہ کائنات کو مان رہا ہوتا ہے۔
اب ایک صورت یہ ہے کہ آدمی کائنات کو بے سبب مانے۔ مگر اس قسم کا عقیدہ ممکن نہیں۔ کیوں کا ئنات میں تمام واقعات بظاہر اسباب و علل کی صورت میں پیش آتے ہیں ۔ ہر واقعہ کے پیچھے ایک سبب کار فرما ہے۔ اس طرح خود کائنات کی اپنی نوعیت ہی یہ چاہتی ہے کہ اس کے وجود کا ایک آخری سبب ہو ۔ جب کائنات کے حال کا ایک سبب ہے تو اس کے ماضی کا بھی لازمی طور پر ایک سبب ہوناچاہیے۔ یعنی وہی چیز جس کو علت العلل کہا گیا ہے۔
بے سبب کائنات کو ماننا ممکن نہیں ۔ اس لیے لازم ہے کہ ہم اس کا ایک سبب مانیں ۔ کائنات لازمی طور پر اپنا ایک آخری سبب چاہتی ہے۔ یہی منطق لازمی قرار دیتی ہے کہ ہم خدا کو مانیں۔ اس لا ینحل مسئلہ کو حل کرنے کی دوسری کوئی بھی تد بیر ممکن نہیں ۔ بے سبب خدا کو مان کر ہم اپنے آپ کوبے سبب کا ئنات کو ماننے کے ناممکن عقیدہ سے بچالیتے ہیں۔
خدا کو ماننا عجیب ہے ۔ مگر خدا کو نہ ماننا اس سے بھی زیادہ عجیب ہے۔ خدا کومان کر ہم صرف زیادہ عجیب کے مقابلہ میں کم عجیب کو اختیار کرتے ہیں۔