فخر کا نقصان
ایک مسلم رہنما نے اسلامی تعلیمات پر ایک کتاب لکھی ہے ۔ اس کا آغاز وہ ان الفاظ سے کرتے ہیں ––––– "دنیا میں جتنے مذاہب ہیں ان میں سے ہر ایک کا نام یا تو کسی خاص شخص کے نام پر رکھا گیا ہے یا اس قوم کے نام پر جس میں وہ مذہب پیدا ہوا۔ مثلاً عیسائیت کا نام اس لیے عیسائیت ہے کہ اس کی نسبت حضرت عیسٰی کی طرف ہے ۔ بودھ مت کا نام اس لیے بودھ مت ہے کہ اس کے بانی مہاتما بدھ تھے ۔ زردشتی مذہب کا نام اپنے بانی زردشت کے نام پر ہے۔ یہودی مذہب ایک خاص قبیلہ میں پیدا ہوا جس کا نام یہوداہ تھا ۔ ایسا ہی حال دوسرے مذاہب کے ناموں کا بھی ہے ۔ مگر اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کسی شخص یا قوم کی طرف منسوب نہیں ہے۔ بلکہ اس کا نام ایک خاص صفت کو ظاہر کرتا ہے جو لفظِ اسلام کے معنی میں پائی جاتی ہے ۔ یہ نام خود ظاہر کرتا ہے کہ یہ کسی ایک شخص کی ایجاد نہیں ہے۔ نہ کسی ایک قوم کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اس کو شخص یا ملک یا قوم سے کوئی علاقہ نہیں۔ صرف اسلام کی صفت لوگوں میں پیدا کرنا اس کامقصد ہے"۔
مگر انھیں مسلم رہنما نے بیسویں صدی عیسوی کے وسط میں اپنے ملک میں اسلامی نظام کے قیام کی تحریک اٹھائی تو اس کا نام انھوں نے "نظام مصطفٰے" رکھا ۔ یعنی محمدی نظام نہ کہ اسلامی نظام۔ جس مذہب کی شان انھوں نے یہ بیان کی تھی کہ اس کا نام کسی شخص کے نام پر نہیں ہے، اسی مذہب کو شخص کے نام پر منسوب کر کے اپنی پوری تحریک چلادی۔ یہ تضاد کیوں پیش آیا ۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے ۔ انھوں نے کتاب میں جو کچھ لکھا، وہ اپنے فخر کا اظہار تھا۔ جو چیز فخر کے اظہار کے طور پر ہو وہ آدمی کی نفسیات کا جزء نہیں بنتی اور اسی لیے وہ اس کے حقیقی عمل میں شامل نہیں ہوتی ۔
فخر ہمیشہ دوسروں کے سامنے کیا جاتا ہے ۔ کوئی آدمی کسی جزیرہ میں بالکل تنہا ہو تو وہاں فخریہ کلام اس کی زبان پر جاری نہیں ہو گا۔ جب وہاں اس کی اپنی ذات کے سوا کوئی دوسرا شخص موجود نہیں تو وہ فخر کرے گا تو کس کے لیے کرے گا۔ وہ کس کے مقابلہ میں اپنے کو اونچا دکھائے گا۔بالفاظ دیگر، فخریہ کلام دوسروں کے لیے نکلتا ہے نہ کہ خود اپنے لیے۔ اور جو کلام دوسروں کے لیے نکلے وہ اپنی اصلاح کا ذریعہ کیوں کر بن سکتا ہے۔
موجودہ زمانے میں ظہور میں آنے والی تقریروں اور تحریروں کو کسی ایک خانہ میں رکھنا ہو تو وہ یقینی طور پر فخر کا خانہ ہو گا۔ "ہمارا نبی سب سے افضل ، ہمارا دین سب سے کامل ، ہماری تاریخ سب سے شاندار" یہی وہ نفسیات ہے جو موجودہ زمانے کے لکھنے اور بولنے والوں کے کلام میں رچی بسی ہوئی ہے۔ شعراء نظم کے اسلوب میں اور مصنفین نثر کے اسلوب میں اسی کے نغمے گا رہے ہیں۔ اس نفسیات نے موجودہ زمانے میں ہماری تمام کوششوں کو "اندر رخی "کے بجائے "با ہر رخی "بنا دیا ہے۔
ہم اس لیے لکھتے اور بولتے ہیں کہ دوسروں کے مقابلے میں اپنے فخر کا اظہار کریں، دوسروں کے درمیان اپنی بڑائی ثابت کر کے خوش ہوں۔ اس طرح ہمارا کلام اپنے آغاز ہی میں دوسروں کے لیے ہو جاتا ہے۔ وہ ہمارے اپنے لیے نہیں رہتا۔ جس کلام کا مقصد پُر فخر جذبات کی تسکین ہو اس کا نشانہ بالکل فطری طور پر دوسرے ہو جاتے ہیں۔ آدمی کی اپنی ذات اس کی زد میں نہیں آتی ۔ آدمی اپنی برتری کے جذبات کی تسکین حاصل کر کے مطمئن ہو جاتا ہے کہ جو مطلوب تھا وہ اس کو مل گیا۔ اس کے بعد خود اپنی ذات کو اس کی میزان پر کھڑا کرنے کا خیال اسے کبھی نہیں آتا ۔ کیونکہ وہ اس کا مقصود ہی نہ تھا۔