عبادت

قرآن میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان اور جن کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں ۔وَمَا ‌خَلَقۡتُ ٱلۡجِنَّ وَٱلۡإِنسَ إِلَّا لِيَعۡبُدُونِ[الذاريات: 56] یہ آیت حقیقت ِواقعہ کے اتنا زیادہ مطابق ہے کہ اگر صرف اسی ایک آیت پر غور کیا جائے تو وہ کسی آدمی کے اندر یہ یقین پیدا کرنے کے لیے کافی ہوگی کہ قرآن خداوند عالم کی کتاب ہے ، انسان جیسی ایک مخلوق اس قسم کی کتاب وجود میں لانے پر قادر نہیں ۔

 انسان کی ہستی کے دو پہلو ہیں ۔ ایک نفسیاتی (یا روحانی )اور دوسرے جسمانی۔ ان دونوں پہلوؤں سے انسان کی ترکیب ایسی ہے گویا وہ عبادت الٰہی کے لیے ہی پیدا کیا گیا ہے ۔ عبادت کا سب سے زیادہ کامل مظہر نماز (صلاۃ) ہے ۔ اس آیت کی روشنی میں نماز اور انسانی شخصیت کا مطالعہ کیجئے۔

 انسان کی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان عین اپنی تخلیق کے اعتبار سے یہ چاہتا ہے کہ کوئی ہو جس کے آگے وہ اپنے آپ کو جھکا دے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر انسان کسی نہ کسی کے آگے اپنے آپ کو جھکائے ہوئے ہوتے ہیں ، اور اس جھکاؤ سے انھیں خصوصی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ مگر غیر خدا کے آگے جھکنااس جذبہ کا غلط استعمال ہے ۔ اس طرح آدمی غیر خدا کو وہ چیز دے دیتا ہے جو اسے صرف خدا کو دینا چاہیے۔

 نماز میں جب آدمی خدا کے آگے جھکتا ہے تو اس کو اپنے اس جذبہ کی پوری تسکین حاصل ہوتی ہے۔ نماز میں خدا کے آگے جھک کر وہ اپنے وجود کے اس پورے تقاضے کا جواب پالیتا ہے جو اس کے اندر اس طرح رچا بسا ہوا تھا کہ وہ اس کو نکالنا چاہے تب بھی وہ اس کو نکال نہ سکے ۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ انسان کے فطری جذبہ کا مرجع حقیقی طور پر خدا کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔

اس کے بعد انسان کے جسم کو لیجئے ۔ آپ کسی آدمی کو نماز پڑھتے ہوئے شروع سے آخر تک دیکھیں۔ آپ محسوس کریں گے کہ نماز آدمی کے پورے جسم کا مکمل استعمال ہے ۔ آپ کو ایسا معلوم ہوگا گویا آدمی اسی لیےبنایا گیا ہے کہ وہ نماز پڑھے ۔

نماز کے لیے آدمی کا اپنے دونوں پیروں پر کھڑا ہونا، قبلہ رخ متوجہ ہونا ۔ پھر ہاتھ باندھنا۔ زبان سے نماز کے کلمات ادا کرنا اور امام کی آواز سن کر ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف جانا ، دونوں ہاتھ گھٹنے پر رکھ کر رکوع کرنا، ہاتھ اور پیشانی اور بقیہ پورے جسم کو استعمال کرتے ہوئے سجدہ میں جانا ، پھر چہرہ کو دائیں اور بائیں گھما کر سلام کرنا، دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ سے دعا کرنا۔ وغیرہ یہ ساری چیزیں انسان کے جسم سے اتنا زیادہ مطابقت رکھتی ہیں، اور ان حرکات میں انسان کے تمام اعضاء اس طرح شامل ہو جاتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا انسان کا پورا جسم اسی لیے بنایا گیا تھا کہ وہ نماز کی شکل میں اپنے رب کی عبادت کرے۔

تمام انسان فطرت اللہ پر پیدا کیے گئے ہیں۔ یہ فطرت اللہ یہ ہے کہ آدمی اللہ کی طرف متوجہ ہو جائے اورنماز کی صورت میں اس کی عبادت کرے۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے :

فَأَقِمۡ وَجۡهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفٗاۚ فِطۡرَتَ ٱللَّهِ ٱلَّتِي فَطَرَ ٱلنَّاسَ عَلَيۡهَاۚ ‌لَا ‌تَبۡدِيلَ لِخَلۡقِ ٱللَّهِۚ ذَٰلِكَ ٱلدِّينُ ٱلۡقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكۡثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعۡلَمُونَ۔ مُنِيبِينَ إِلَيۡهِ وَٱتَّقُوهُ وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَلَا تَكُونُواْ مِنَ ٱلۡمُشۡرِكِينَﵞ [الروم: 30-31]پس تم یکسو ہوکر اپنا رخ اس دین کی طرف سیدھا رکھو۔ اللہ کی فطرت جس پر اس نے لوگوں کو بنایا ہے۔ اس کے بنائے ہوئے کو بدلنا نہیں۔ یہی سیدھا دین ہے ۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ اسی کی طرف متوجہ ہو کر اور اسی سے ڈرو اور نماز قائم کرو اور مشرکین میں سے نہ بنو۔

نماز کی یہی خاص صفت ہے جس کی بنا پر تاریخ میں اس طرح کی مثالیں ملتی ہیں کہ بہت سے لوگوں نےصرف مسلمانوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر اسلام قبول کر لیا۔

 آدمی کے اندر جو فطرت ہے وہ عبادت کی فطرت ہے۔ آدمی کا پورا وجود عبادت کا طالب ہے۔ دوسرےلفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ ہر آدمی پیدائشی طور پر نماز پڑھنے کا جذبہ لیے ہوئے ہے ۔ ہر آدمی کا پورا جسم اور اس کے تمام اعضاء نماز کی صورت میں ڈھل جانے کا خاموش داعیہ لیے ہوئے ہیں۔

اب جب ایک آدمی کسی نمازی کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کا پورا وجود کہہ اٹھتا ہے کہ یہی وہ عمل ہے جس کی طلب وہ اپنے اندر لیے ہوئے تھا۔ نماز اس کو خود اپنی تلاش کا جواب معلوم ہونے لگتی ہے۔ اس کی فطرت کی یہ تڑپ اس کو مجبور کرتی ہے اور وہ نمازیوں کے ساتھ نماز میں جھک جاتا ہے۔وَٱرۡكَعُواْ مَعَ ‌ٱلرَّٰكِعِينَ [البقرة: 43]

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom