کاروان ملت

غالباً ۱۹۳۶ کی بات ہے جب کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ (۱۹۳۵) کے تحت ہندستان کا پہلا الکشن ہوا۔ ہر طرف انتخابی سرگرمیوں کی دھوم تھی ۔ لوگ نہایت جوش و خروش میں تھے۔ اسی زمانہ میں مولانا اقبال احمد سہیل (۱۹۵۵ - ۱۸۸۷) کا یہ شعر پہلی بار میرے کانوں نے سنا :

اے کاروان ملت اٹھ تو بھی گام زن ہو           ہر سمت سے صدائیں آتی ہیں طَرِّقُو  کی

۱۹۳۶ سے پہلے اور اس کے بعد کی تاریخ بتاتی ہے کہ ملت کے قافلے اٹھے ۔مسلم رہنماؤں نے بے شمار تعداد میں طوفان خیز تحریکیں چلائیں۔ ان سرگرمیوں سے لوگوں نے بہت بڑی بڑی امیدیں وابستہ کر لیں جس کا ریکارڈ ماضی کے نظم و نثر کے ذخیرہ میں اب بھی موجود ہے۔ طفیل احمد منگلوری نے "روشن مستقبل" کے نام سے ضخیم کتاب لکھی۔ مولانا ظفر علی خاں (۱۹۵۶-۱۸۷۱)نے اپنی ایک نظم میں یہ اعلان کیا :

عنقریب اسلام کی فصل ِبہار آنے کو ہے

ان سرگرمیوں پر نصف صدی سے زیادہ کی مدت گزرچکی ہے ۔ مگر ابھی تک اس کا کوئی نتیجہ سامنے نہ آسکا۔ اب ہمارے لکھنے اور بولنے والے دشمنان اسلام کی ان "سازشوں" کے انکشاف میں مشغول ہیں جنھوں نے ہماری پچھلی نسل کی طوفانی کوششوں کو بے نتیجہ کر دیا۔ مگر یہ صرف خود فریبی ہے۔ کیوں کہ خدا کا اٹل قانون ہے کہ اس دنیا میں کوئی قوم ہمیشہ اپنی داخلی کمیوں کی بناپربازی ہا رتی ہے نہ کہ بیرونی سازشوں کی بنا پر ۔

موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں نے اپنی قوم کو جو رہنمائی دی ، وہ ایک لفظ میں یہ تھی کہ –––––  ایک ہاتھ میں قر آن اور دوسرے ہاتھ میں تلوار لے کر آگے بڑھو اور ساری دنیا میں اسلام کا جھنڈا گاڑ دو۔ چنانچہ سو سال سے بھی زیادہ عرصہ سے مسلمان لفظی یا عملی تلوار بازی کے اسی مشغلہ میں مصروف رہے ہیں ۔ آج  کل پاکستان اور کشمیر میں یہی منظر دیکھا جاسکتا ہے جہاں مسلم نوجوان دہشت گردی کے عمل میں مشغول ہیں اور پُر جوش طور پر یہ ترانہ گارہے ہیں :

دل میں ہے اللہ کا خوف         ہاتھ میں ہے کلاشنکوف (Kalashnikov)

اس رہنمائی میں بیک وقت دو غلطیاں تھیں ۔ اس میں انتہائی معصومانہ طور پر یہ فرض کر لیا گیا کہ مسلمانوں کے ہاتھ میں قرآن ہے اور ان کے دل میں اللہ کا خوف موجود ہے ۔ حالاں کہ اصل واقعہ یہ تھا کہ صدیوں کے زوال کے نتیجےمیں قرآن سے مسلمانوں کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا، اور قساوت کےنتیجے میں ان کے دل اللہ کے خوف سے خالی ہو چکے تھے ۔

 ایسی حالت میں ضرورت تھی کہ لمبی اور خاموش جد وجہد کے ذریعہ جدید مسلم نسلوں کے دماغ میں دوبارہ قرآن کی روشنی پیدا کی جائے اور ان کے دلوں کو دوبارہ خدا کے خوف سے کانپنے والا بنایا جائے ۔ یہ ایک بے حد صبر آزما کام تھا۔ مگر مسلم رہنماؤں نے اس داخلی محاذ پر محنت کیے بغیر خارجی نعروں پر قوم کو دوڑا نا شروع کر دیا ۔ چنانچہ ان کی ساری کوششوں کا انجام اس چھت کا سا ہوا جودیمک زدہ لکڑی کے او پر کھڑی کر دی گئی ہو۔

اس رہنمائی میں دوسری بھیانک غلطی یہ تھی کہ انھوں نے زمانےکے فرق کو نہیں سمجھا ۔ قدیم زمانےمیں "تلوار"  طاقت کا نشان تھی ، موجودہ زمانہ میں "علم"  طاقت کا نشان ہے۔ مگر مسلم رہنما اندوہناک حد تک اس فرق سے بے خبر رہے ۔ انھوں نے ناقابل فہم نادانی کے تحت سائنس کے دور میں ہر طرف تلوار کا ترانہ گانا شروع کر دیا ۔

اس غلط رہنمائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری کی پوری نسل جنگ جویانہ ذہنیت میں مبتلا ہوگئی۔ ہرشخص بس جنگ اور ٹکراؤ کی اصطلاحوں میں سوچنے لگا۔ جس کے پاس تلواری جنگ چھیڑنے کا موقع تھا۔ اس نے اپنے مفروضہ دشمنوں کے خلاف تلواری جنگ چھیڑ دی ۔ اور جن لوگوں کے پاس صرف الفاظ تھے ، انھوں نے الفاظ کی لامتناہی بم باری کا مشغلہ اپنے لیے اختیار کر لیا۔

اس انداز کار کے نتیجے میں نوبت یہاں تک پہونچی ہے کہ اب مسلمانوں میں وہی آوازیں مقبولیت کا درجہ حاصل کرتی ہیں جو جنگ جویانہ لہجے میں بولی گئی ہوں ۔ تعمیر اور حقیقت پسندی کی بات مسلمانوں کو اپیل نہیں کرتی۔ جنگ جویانہ نعروں پر فی الفور ان کی بھیڑ جمع کی جا سکتی ہے مگرپر امن اور خاموش پروگرام کے نام پر انھیں بلائیے تو آپ کا پنڈال بالکل سونا پڑا رہے گا ۔

موجودہ زمانےمیں مسلمانوں کا پورا ادب اور ان کی تمام سرگرمیاں اسی نہج پر قائم ہوگئی ہیں۔ ان کی ہر تحریک میں کسی نہ کسی اعتبار سے یہی روح کارفرما ہے۔ آپ ان کے جس فکری یا عملی رخ کا مطالعہ کیجئے ، ہر جگہ آپ کو اسی کی جھنکار سنائی دے گی ۔

نثر کے دور میں شاعری ، خاموش تدبیر کے دور میں خطابت، عملی منصوبہ بندی کے دور میں لفظی ہنگامہ آرائی۔ تعمیر کے دور میں تخریب ، پر امن جدوجہد کے دور میں عسکری سرگرمی ،سائنسی تفکیر کے دور میں روایتی تفکیر، حقائق کی بنیاد پر اٹھنے کے دور میں خوش خیالیوں کی بنیاد پر اٹھنے کا خواب  ––––––  سب اسی کے مظاہر ہیں، اور یہی مختصر طور پر موجودہ زمانے کے تمام مسلم رہنماؤں کی رہنمائی کا خلاصہ ہے ۔ اس قسم کی ہر کوشش خلافِ زمانہ حرکت (anachronism)کی مصداق تھی ، اور خلاف زمانہ حرکت کبھی کسی کے لیے نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی ۔

 ملت کے کاروان کو دوبارہ متحرک کرنے کے لیے شاعری اور خطابت اور انشا پردازی کا انداز صرف الٹا نتیجہ پیدا کرنے والا ہے۔ اس قسم کی پر جوش لفاظی کا نتیجہ صرف یہ ہو سکتا ہے کہ ایک پچھڑی ہوئی قوم دوبارہ خوش فہمیوں کے گڑھے میں گر کر رہ جائے۔

اس وقت کرنے کا کام یہ ہے کہ ملت کے افراد میں دوبارہ سچی دینی روح پیدا کی جائے۔ ان کو" کلمہ گو "کی سطح سے اٹھا کر "کلمہ فہم" کی سطح پر لایا جائے ۔ تقلیدی ایمان کی جگہ ان کے اندر زندہ اور شعوری ایمان پیدا کیا جائے ۔ ان کے عقیدہ کو دوبارہ فکری انقلاب بنا دیا جائے ۔

دوسرا کام یہ ہے کہ ملت کو عصر حاضر کے تقاضوں سے باخبر کیا جائے ۔ ایک روایت میں مومن کو بصيراً بزمانه (اپنے زمانہ سے با خبر انسان )بتایا گیا ہے ۔ یہ بلاشبہ انتہائی اہم ہے۔ اس کےبغیر ملت کا قافلہ اپنی مطلوبہ منزل تک نہیں پہونچ سکتا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom