اسلامی شناخت

ہندستان کی فرقہ پرست ہندو جماعتیں اگر یہ مطالبہ کریں کہ مسلمان اکثریت کا لباس (مثلاً دھوتی کرتا)پہنیں یا دونوں ہاتھ جوڑ کر سلام کریں تا کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا ہو ، تو تمام مسلم رہنما چیخ اٹھیں گے ۔ وہ کہیں گے کہ یہ ہمارے قومی  تشخّص کو ختم کرنے کی اسکیم ہے ، اور ہم کبھی اس پر راضی نہ ہوں گے۔

 یہ قومی تشخّص کے بارے   میں مسلم رہنماؤں کی حسّاسیت کا حال ہے۔ مگر یہی رہنما اسلامی تشّخص کے بارے   میں بالکل بے حس بنے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں نے موجودہ زمانے میں بہت بڑے پیمانہ پر اپنے اسلامی تشّخص کو ختم کر رکھا ہے ، مگر اس کے بارے   میں ہمارے رہنما کوئی مہم نہیں چلاتے ۔ شاید اس لیے کہ قومی تشّخص، کے لیے خطرہ غیر قوم کی طرف سے ہے ، اس لیے اس مسئلہ پر مسلمانوں کی بھیڑ جمع کی جاسکتی ہے۔ مگر" اسلامی تشّخص" کو مٹانے والے خود مسلمان ہیں ، اس لیے اس مسئلہ پر مسلمانوں کی بھیڑ جمع کر ناممکن نہیں۔

 اسلامی تشّخص کے پہلو سے ایک مثال لیجئے ۔ قرآن میں اہل ایمان کی صفت یہ بتائی گئی ہے کہ جب وہ لغو بات کو سنتے ہیں تو اس سے اعراض کرتے ہیں (القصص ۵۵ نیز الفرقان  ۷۲) اس کی تفسیریہ کی گئی ہے کہ نادان لوگ جب برے قول کے ذریعہ ان کے خلاف نادانی کرتے ہیں تو وہ برے قول کے ساتھ ان کا جواب نہیں دیتے۔ بلکہ وہ ان کو معاف کر دیتے ہیں اور ان سے درگزر کرتے ہیں۔ وہ بھلی بات کے سوا اور کچھ نہیں کہتے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال تھا کہ جاہل کی شدت صرف آپ کے حِلم اوربردباری کو بڑھاتی تھی ( تفسیر ابن کثیر، الجزء  الثالث، صفحہ ۲۵ - ۳۲۴)

یہی بات دوسری جگہ اس طرح کہی گئی ہے کہ اہل ایمان وہ ہیں کہ جب کسی لغو اور بے ہودہ چیز سےان کا گزر ہوتا ہے تو وہ سنجیدگی کے ساتھ اس سے گزر جاتے ہیں ( الفرقان  ۷۲) اس کی تشریح مقاتل نے یہ کی ہے کہ اہل ایمان جب کافروں سے گالی اور اذیّت کی بات سنتے ہیں تو وہ اس سے اعراض کرتے ہیں اور اس سے در گزر کرتے ہیں (و إذَا سَمِعُوا مِنْ الْكُفَّارِ الشَّتْمَ و الْأَذَى أَعْرَضُوا و اصْفَحُوا ،التفسير المظہری، المجلد السابع صفحہ ۵۴)

ان آیات اور اس طرح کی دوسری آیتوں اور حدیث کے مطابق ، اہل ایمان کا اسلامی تشخص یہ ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کی طرح سبّ وشتم کرنے والوں سے الجھتے نہیں، بلکہ وہ ایسی باتوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ وہ ایسے مقام سے متانت کے ساتھ گزر جاتے ہیں جہاں ان کے خلاف اذیّت ناک باتیں کی جارہی ہوں ۔

اب اس قرآنی حکم کی روشنی میں جائزہ لیجئے تو معلوم ہوگا کہ اس ملک کے مسلمانوں نے اس اعتبار سے اپنا اسلامی تشخص بالکل کھو دیا ہے۔ اس معاملہ میں انھوں نے اپنی اسلامی شناخت کو باقی نہیں رکھا ہے۔

 اس ملک میں بار بار ایسا ہو رہا ہے کہ ہندستان کی غیر مسلم اکثریت کے لوگ اپنا جلوس نکالتے ہیں۔ اس میں وہ وہی فعل کرتے ہیں جس کو قرآن میں "جہالت " کہا گیا ہے۔ وہ اپنا جلوس اس سڑک سے لے جاتے ہیں جو کسی مسلم محلہ سے گزرتی ہو۔ وہ اپنے جلوس میں ایسے نعرے لگاتے ہیں جو مسلمانوں کے لیےاذیت کا باعث ہوں ۔

ایسے موقع پر مسلمان کیا کرتے ہیں۔ وہ جلوس کو روکنے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ ان کے نعروں پرمشتعل ہو کر مختلف قسم کی جوابی کاروائیاں کرتے ہیں ۔ مسلمانوں کا یہ ردّ عمل سراسر اسلامی تعلیم کے خلاف ہے ۔ جس موقع پر قرآن نے واضح طور پر صبر واعراض کا حکم دیا ہے ، وہاں وہ جوابی اشتعال کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس طرح مسلمانوں نے اس معاملہ میں اپنے اسلامی تشخص کو مکمل طور پر ختم کر رکھا ہے۔

 یہ بلاشبہ لباس کے معاملہ میں اپنے قومی تشخص کو چھوڑنے سے بہت زیادہ بڑا مسئلہ ہے ۔ مگر یہاں تمام مسلم رہنما خاموش ہیں۔ ان مواقع پر وہ مسلمانوں سے نہیں کہتے کہ تم قرآنی حکم پر قائم رہو اور اس معاملہ میں اپنی اسلامی شناخت کو نہ چھوڑو۔

موجودہ مسلم رہنماؤں کا حال یہ ہے کہ وہ قومی شناخت بمقابلہ ہندو کے تحفّظ پر خوب بولتے ہیں، مگر اسلامی شناخت بمقا بلہ مسلمان کے مسئلہ پر کچھ نہیں بولتے۔ رہنماؤں کی یہ کوتاہی بلاشبہ حرم کی حیثیت رکھتی ہے۔ اپنی اس روش سے وہ موجودہ مسلمانوں کے درمیان اپنی مقبولیت کو باقی رکھنے میں کامیاب ہیں ۔ مگر سخت اندیشہ ہے کہ ان کی یہ روش خدا کے یہاں ان کو غیر مقبول بنادے ۔ اور پھر کوئی بھی لفظی مہارت ان کو بری الذمہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہ ہو ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom