دین میں تحریف

قدیم زمانہ مائتھالوجی (mythology) کا زمانہ تھا۔ اس کے تحت مشرک قوموں میں تجسّد یا تجسیم (incarnation) کا عقیدہ رائج ہو گیا۔ مثلاً  رومی اور یونانی سورج کو دیوتاقرار دے کر اس کو پوجتے تھے اور اس کو خدا کا بیٹا کہتے تھے ۔

یہود و نصاری نے بھی اپنے بگاڑ کے زمانہ میں اس عقیدہ کو اپنے مذہب میں داخل کرلیا۔ عزیر اور مسیح  کو پیغمبر کہنا انھیں رومیوں اور یونانیوں کے خدائی باپ (divine fatherhood) کے نظریہ کے مقابلہ میں کمتر محسوس ہوا۔ چنانچہ انھوں نے اپنے پیغمبروں کو خدا کا بیٹا بنا دیا۔ مشرک قوموں کی زبان کو اپنا کر وہ کہنے لگے کہ عزیر خدا کے بیٹے ہیں اور مسیح خدا کے بیٹے ہیں( تو بہ  ۳۰) قرآن میں اس مذہبی تقلید کو مضاہاۃ  کہا گیا ہے۔ ارشاد ہوا ہے کہ یہودو نصاری ان لوگوں کی بات نقل کر رہے ہیں جنھوں نے خدا کے ساتھ کفر کیا ہے ۔ اللہ انہیں غارت کرے، یہ لوگ اپنی گمراہی میں کدھر بہکے جارہے ہیں (التوبہ ۳۰)

مضاہاۃ کی یہ گمراہی موجودہ زمانہ میں ایک اور صورت میں مسلمانوں کے اندر داخل ہوگئی ہے۔ وہ ہے اسلام کو" نظام" کی اصطلاحوں میں بیان کرنا ۔ مسلمانوں کے پڑھے لکھے طبقہ کے بہت سے لوگ نظامی طرز فکر سے متاثر ہیں۔ مگر یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے وہی گمراہی ہے جس میں پچھلی امتیں گمراہ قوموں کے زیر اثر مبتلا ہوئیں۔

موجودہ زمانےمیں سوشلزم اور ڈیمو کریسی جیسے سماجی اور سیاسی نظریات ظاہر ہوئے۔ ان کے اثر سے یہ ہوا کہ جدید انسان نظامی انداز میں سوچنے لگا ۔ فرد کی نجات اُس کو اس میں نظر آنے لگی کہ اجتماعی ڈھانچہ میں انقلابی تبدیلیاں لائی جائیں ۔ دوبارہ ایسا ہوا کہ مسلمانوں کو اسلام کا روایتی تصور کم تر دکھائی دینے لگا۔ انھوں نے اپنے آپ کو وقت کے ہم سطح بنانے کے لیے یہ کہنا شروع کیا کہ اسلام ایک سیاسی نظام ہے ۔ وہ اجتماعی انقلاب کا علمبر دار ہے، وغیرہ ۔

وہ چیز جس کو موجودہ زمانہ میں انقلابی تفکیر کہا جاتا ہے۔ وہ مبنی بر نظام (system-based) تفکیر ہے ۔ مگر اسلامی تفکیر، اس کے برعکس، مبنی بر فرد (individual-based) تفکیر ہے۔ اسلامی دعوت کا نشانہ نظام نہیں ہوتا ۔ اسلامی دعوت کا اصل نشانہ فرد ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق ، نظام کو نشانہ بنا کر تحریک چلانا گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنا ہے۔ کیونکہ نظام بذات خود کوئی چیز نہیں ۔ اس دنیا میں فرد سے نظام بنتا ہے ، نظام سے فرد کی تشکیل نہیں ہوتی ۔

موجودہ زمانہ میں "نظامی" انداز کی نام نہاد اسلامی تحریکوں سے اسلام کو بے پناہ نقصانات پہونچے ہیں۔ اس کا پہلا نقصان یہ ہے کہ قرآن کی وہ تمام آیتیں جن میں فرد کی شعوری اور روحانی غذا تھی ، اس کو غلط تفسیر کے ذریعہ نظام اور خارجی انقلاب سے جوڑ دیا گیا۔ سیاست بلاشبہ اسلام کا ایک جزء ہے ۔ مگر سیاسی مسئلہ کا ان آیتوں سے کوئی تعلق نہیں جن سے اس مسئلہ کو انتہائی جسارت کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے ۔

مثلاً  قرآن میں حکم تھا کہ وربّك فكبر ( اپنے رب کی تکبیر کر) اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی عظمت کا اعتراف کر۔ اللہ کی عظمت و کبریائی کو اپنے دل و دماغ میں اتار لے۔ مگر نظام پسند ذہن نے اس کی سیاسی تفسیر کر ڈالی۔ یہ کہہ دیا گیا کہ وَرَبَّكَ فَكَبَرْ کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں خدا کی سیاسی بڑائی قائم کرو۔سیاست کے ایوان پر خدائی اقتدار کا جھنڈا لہرادو۔اسی طرح بہت سی دوسری آیتوں کی غلط تفسیر کی گئی ۔

اس طرح کی تفسیریں بلاشبہ مضاہاۃ (التوبہ  ۳۰) ہیں ۔ مزید یہ کہ ان تفسیروں نے تواضع کے دین کو سرکشی کا دین بنا دیا ہے۔ انھوں نے امت کے افراد میں تعمیری ذہن کے بجائے تخریب کاری کا ذہن ابھارا ہے ۔ جو دین خوف ِخدا پیدا کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا، وہ ان تحریکوں کے نتیجے میں بے خوفی کا مزاج پیدا کرنے کا کارخانہ بن گیا ہے ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom