سب سے بڑی ضمانت
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ تقوی ٰوالے لوگ اللہ کے محبوب ہیں (التوبہ: ۳۶) ان کے لیے نہ خوف ہے اور نہ غم (الاعراف: ۳۵) ان کے لیے خدا آسانی پیدا کرتا ہے (اللیل: ۵) ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے (آل عمران: ۱۷۲) ان کے لیے زمین و آسمان کی برکتیں کھول دی جاتی ہیں (الاعراف: ۹۶) ان کو اللہ کی خصوصی مد دملتی ہے (آل عمران ۱۲۵) ان کے لیے اللہ گنجائش اور کشادگی پیدا کرتا ہے (الطلاق: ۲ ) ان کے معاملات میں آسانی پیدا کی جاتی ہے (الطلاق: ۴) وہ ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں (النو ر: ۵۲ ) انجام کارصرف ان کے لیے ہے (القصص: ۸۳ ) وغیرہ ۔
تقویٰ اہل ایمان کے لیے آخرت کی نجات کا ذریعہ ہے۔ اسی کے ساتھ وہ مخالفوں اور دشمنوں سے محفوظ رہنے کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔ تقوی سے یہ عظیم فائدے کس طرح حاصل ہوتے ہیں ، اس کے لیے مندرجہ ذیل روایت پر غور کیجئے :
أَنَّ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ سَأَلَ أُبَيَّ بْنِ كَعْبٍ عَنْ التَّقْوَ ىٰ۔فقال لَهُ أَمَّا سَلَكْتَ طريقاً ذَا شَوْكٍ قَال بلیٰ - قَالَ فَمَا عملتَ - قَال شَمَّرْتُ و اجتَهَدْتُ۔ قَالَ فَذَلِكَ التَّقْوَىٰ۔(تفسیر ابن کثیر ۱/۴۰)
حضرت عمر بن خطاب نے حضرت ابی بن کعب سے پوچھا کہ تقویٰ کیا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ کیا آپ کبھی ایسے راستہ پر نہیں چلے جہاں کانٹے ہوں ۔ انھوں نے کہا کہ ہاں ۔ انھوں نے پوچھا کہ پھر آپ نے کیا کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے دامن سمیٹ لیے اور خوب پچ بچ کر چلا۔ انھوں نے کہا کہ بس یہی تقویٰ ہے ۔
ابن المعتز نے تقوی کے اسی مفہوم کو اس طرح نظم کیا ہے :
خَلِّ الذُّنُوبَ صَغِيرَهَا وَكَبِيرَ هَا ذَاك الْتُقَى وَأَصْنَع كَماشٍ فَوْقَ أَرْضَ الشَّوْكِ يُحَذِّرُ مَا يَرىٰ
تقویٰ یہ ہے کہ تم چھوٹے اور بڑے گناہوں کو چھوڑ دو ، اور کانٹے دار زمین پر چلنے والا جس طرح بچ بچ کرچلتا ہے ، اسی طرح تم بھی کرو۔
تقوی (وقی ) کا اصل مفہوم بچاؤ ہے۔ یعنی اذیت اور ضرر والی چیزوں سے بچ کر رہنا (مفردات راغب اصفہانی)نجات اور کامیابی کو تقوی کے عمل سے وابستہ کر کے اللہ تعالیٰ نے زندگی کا اہم ترین راز بتایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کامیابی کو حاصل کرنے کی سب سے ضروری شرط ناکامی کے اسباب سے بچنا ہے۔ اس دنیا میں فائدہ اپنے آپ آرہا ہے ۔ شرط یہ ہے کہ آدمی ان نقصان والی چیزوں سے اپنے آپ کو بچائے جو آتے ہوئے فائدے کو اس کی طرف آنے میں مانع بن جائیں۔
گویا فائدہ اور کامیابی کا معاملہ عین وہی ہے جو سورج کا معاملہ ہے ۔ سورج کی روشنی اپنے آپ ہر آدمی کی طرف بے پناہ مقدار میں آرہی ہے ۔ آدمی کے ذمہ جو کام ہے ، وہ صرف یہ کہ وہ اپنے اور سورج کی روشنی کے درمیان کسی چیز کو آڑ یا رکاوٹ نہ بننے دے۔ اسی طرح دنیا اور آخرت کی کامیابی کے لیے بھی آدمی کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ ان چیزوں سے بچے جو آنے والی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بننے والی ہوں ۔ آدمی نے اگر اس کا اہتمام کر لیا توکامیابی اس کی طرف آکر رہے گی۔ وہ کسی حال میں رکنے والی نہیں۔
اس تقوی کا ایک پہلو یہ ہے کہ نفس اور شیطان کی ترغیبات سے اپنے آپ کو بچایا جائے۔ اور ان سے دور رہتے ہوئے زندگی گزاری جائے ۔ مثلاً خدا کی یاد سے غافل ہونا ۔ آخرت کی پکڑ سے نہ ڈرنا ، خدائی حدوں کو توڑنا ، اخلاق اور معاملات میں من مانی کا رروائی کرنا ۔ مخلوقات کی پرستش میں مبتلا ہونا ، اس قسم کی تمام چیزیں انسان کو گھاٹے میں ڈالنے والی ہیں۔ وہ آدمی کو جہنم کی طرف لے جاتی ہیں۔ آدمی پر لازم ہے کہ وہ ان چیزوں سے پوری طرح اپنے آپ کو بچائے۔ جو ایسا کرے گا وہی جنت میں پہنچے گا۔
یہ تقویٰ جو اہل ایمان کے لیے آخرت کی کامیابی کا ضامن ہے ، و ہی ان کی دنیا کی کامیابی کا ضامن بھی ہے۔ جو متقیانہ روش ان کی آخرت کو سنوارتی ہے، وہی ان کی دنیا کو سنوارنے کا بھی یقینی ذریعہ ہے۔
اس دنیا میں اچھے لوگ بھی ہیں اور شریر لوگ بھی۔ یہ شریر لوگ بد کلامی کر یں گے ۔ وہ طرح طرح سے تکلیف پہنچائیں گے۔ وہ اشتعال انگیز کارروائیاں کریں گے ۔ وہ اسلام کے خلاف سازشیں کریں گے ۔ وہ ایسے کام کر یں گے جن سے اہل ایمان کے جذبات میں برہمی پیدا ہو جائے ۔ مگر ایسے تمام مواقع پر اہل ایمان کو ہمیشہ صبر اور تقویٰ کی روش پر قائم رہنا ہے۔ برے انسان ان کی راہ میں کانٹے بچھائیں گے ، مگرانھیں ان کا نٹوں سے بچ کر اپنی زندگی کا راستہ طے کرنا ہے۔
اس دنیا میں کامیابی کاراز کا نٹوں سے بچنا ہے نہ کہ کانٹوں سے الجھنا۔