خبر نامہ اسلامی مرکز ۶۳

۱۔ صدر اسلامی مرکز نے مارچ  ۱۹۹۰  میں کچھ بیرونی ملکوں کا سفر کیا۔ اس سفر کے ذیل میں بہت سے لوگوں سے گفتگو ہوئی اور خطابات کے مواقع ملے۔ سفر کی روداد ان شاء الله الرسالہ میں شائع کر دی جائے گی۔

۲۔انگلینڈ کی برمنگھم یونیورسٹی میں ایک شعبہ ساؤتھ ایشین ریسر چ اسٹیڈیز کے نام سے قائم ہے۔ اس کے ایک انگریز پروفیسر سی ڈبلیو نارتھ (C. W. North) ۸ مارچ ۱۹۹۰ کو اسلامی مرکز میں آئے اور اسلام اور مسلمانوں کے بارے   میں صدر اسلامی مرکز سے تفصیلی تبادلہ ٔخیال کیا ۔ وہ کئی گھنٹے مرکز میں رہے۔ جاتے ہوئے انھیں مرکز کی کچھ انگریزی مطبوعات دی گئیں۔

۳۔غیرمسلم صاحبان کثرت سے اسلام کو سمجھنے کے لیے    مرکز سے رجوع کر رہے ہیں۔ مثلاً ۱۱  اپریل ۱۹۹۰ کو مسٹر پاریش ناتھ (ڈائر کٹر دہلی پریس پتر ی کا لمیٹڈ) صدر اسلامی مرکز سے ملے اور اسلام کے مختلف پہلوؤں کے متعلق معلومات  حاصل کیں۔ ان کو الرسالہ انگریزی کے کئی شمارے برائے مطالعہ دئے گئے۔ مسٹرڈ بلیو دھمیکا( بودھ گیا ،بہار )نے الرسالہ ( انگریزی)  کا ایک شمارہ پڑھا۔ اس کے بعد وہ چاہتے ہیں کہ اس کو مستقل اپنے مطالعہ میں رکھیں ۔ وہ الرسالہ انگریزی کی بابت اپنے خط میں لکھتے ہیں:

I found indeed, it is very interesting and very helpful for the present day world. (Wilbagedara Dhammika)

۴۔جاپانی اخبا رسیکائی نپو (Sekai Nippo) کے نمائندہ مسٹر کو نیو نیشی (Kunio Nishi) ۳۰ مارچ ۱۹۹۰  کو دوسری بار مرکز میں آئے اور اپنے اخبار کے لیے    صدر اسلامی مرکزکا تفصیلی انٹرویو لیا ۔ ان کے سوالات زیادہ تر ہندستانی مسلمانوں کے بارے   میں تھے۔

۵۔جناب اقبال احمد صاحب (مراد آباد) نے بتایا کہ انھوں نے اپنے چھوٹے صاحبزادہ کو جامعہ ملیہ (دہلی) میں داخل کرایا۔ وہاں ان کو ہاسٹل کا کمرہ بھی مل گیا۔ مگر صاحبزادہ کا دل نہیں لگا اور ایک مہینہ کے بعد وہ اپنا سامان لے کر اپنے گھر واپس چلے گئے۔ پوچھا گیا تو بتایا کہ میرا دل وہاں پڑھنے میں نہیں لگتا۔ اقبال احمد صاحب نے ان سے کچھ اور نہیں کہا۔انھوں نے اپنی الماری سے الرسالہ کا ایک شمارہ (مئی ۱۹۸۲) نکالا اور کہا کہ اس کو پڑھ ڈالو اور کئی بار پڑھو ۔ چند دن تک صاحبزادہ اس پر چہ کو پڑھتے رہے۔ اس کے بعد خود کہا کہ میں دہلی جا رہا ہوں۔ وہ دوبارہ آکر محنت سے پڑھنے لگے۔ اس طرح بہت سے لوگ الرسالہ کے ذریعہ اپنے بچوں کی تربیت کر رہے ہیں۔

۶۔عرب ملکوں میں بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ غیر مسلم لوگ رہتے ہیں جو پٹرول اور دوسرے شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ اطلاع ملی ہے کہ ان لوگوں کے درمیان انگریزی الرسالہ اور مرکز کی دوسری انگریزی مطبوعات کے ذریعہ اسلام کی دعوت پہنچائی جارہی ہے۔ بہت سے لوگوں نے اس کے بعد اسلام قبول کر لیا ہے۔ یہ لوگ مزید انگریزی لٹریچر کی مانگ کر رہے ہیں۔

۷۔الرسالہ کے مضامین مسلم اخبارات ورسائل کے علاوہ غیر مسلم پریس میں بھی برا بر چھپ رہے ہیں۔ مثلاً نئی دہلی کا انگریزی پرچہ لو کائن بلیٹن (مئی ۱۹۹۰ ) نے الرسالہ انگریزی کا ایک آرٹیکل دوبارہ پورے حوالہ کے ساتھ چھاپا ہے۔ اس طرح الرسالہ کی آواز وسیع تر حلقہ میں پہنچ رہی ہے۔

۸۔کئی لوگوں نے بتایا کہ ان کے لڑکے یورپ اور امریکہ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا وہاں کام کرتے ہیں ، وہ ہندستان میں انگریزی الرسالہ خریدتے ہیں اور اس کو پڑھنے کے بعد یورپ اور امریکہ میں اسے اپنے لڑکوں کو بھیج دیتے ہیں ۔ ایسا بہت سے لوگ کر رہے ہیں۔ اس طرح الرسالہ کا پیغام اپنے خریداروں کے ذریعہ بہت سے ملکوں میں پہنچ رہا ہے۔

۹۔اپریل  ۱۹۹۰  میں صدر اسلامی مرکز کی دو تقریریں آل انڈیا ریڈ یونئی دہلی سے نشر کی گئیں ۔ ایک تقریر ۱۹ اپریل کو اور دوسری تقریر ۲۶ اپریل کو ۔ دونوں تقریریں اخلاقی اور اصلاحی نوعیت کی تھیں۔ ان کو الرسالہ میں شائع کر دیا جائے گا ۔ ان تقریروں کے عنوانات یہ تھے : انتقام نہیں ، اور حقیقت پسندی۔

۱۰۔بدر الدین احمد صاحب ( مراد آباد ) اپنے کاروبار کے سلسلہ میں اکثر سفر کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ بیگ میں الرسالہ کے کچھ شمارے بھی ضرور ہوتے ہیں۔ وہ راستہ میں لوگوں کوالرسالہ پڑھاتے رہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں انھوں نے کئی واقعے بتائے۔ مثلاً وہ مراد آباد سے دہلی آرہے تھے۔ راستہ میں ایک مسلمان سے ملاقات ہوئی جو ایک ہائر سکنڈری اسکول میں استاد ہیں۔ انھوں نے ان کو الرسالہ جنوری  ۱۹۹۰  دیا اور کہا کہ پہلے اس کا مضمون ایک نمونہ (صفحہ ۲۳ ) پڑھئے ۔ انھوں نے پڑھنے کے بعد کہا" میں نے آج تک کسی عالم کو نہ پڑھا اور نہ دیکھا جو مسلمانوں کو اس طرح کی باتیں بتائے ۔ یہ ایک منفر در سالہ ہے۔ اب تک میں اس سے واقف نہ  تھا۔ اب میں اس کو برابر پڑھوں گا"۔ اس طرح وہ تقریباً دس سال سے کر رہے ہیں۔ انھوں نے بہت سے لوگوں کو الرسالہ کا قاری بنایا ہے۔ وہ ہندو مسافروں کو بھی پڑھاتے ہیں اور مسلم مسافروں کو بھی۔ غیر اردو دانوں کو پڑھ کرسناتے ہیں۔

۱۱۔ایک صاحب الرسالہ کے قاری ہیں ۔ انھوں نے بتایا کہ میرے بچے انگریزی درس گاہوں میں پڑھتے ہیں۔ وہ اردو سمجھتے ہیں مگر وہ اردو پڑھ نہیں سکتے۔ انھوں نے بتایا کہ جب الرسالہ آتا ہے تو میں اپنے بچوں کو بٹھاتا ہوں اور ان کو پڑھ کر سناتا ہوں۔ الرسالہ کے دوسرے بہت سے قاری بھی اپنے گھروں میں ایسا ہی کر رہے ہیں۔

۱۲۔مولانا مقبول احمد مفتاحی (اجرا، مدھوبنی) جامع مسجد میں امام ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ہر ہفتہ وہ جمعہ کے خطبہ سے پہلے آدھ گھنٹہ تقریر کرتے ہیں ۔ اس میں زیادہ تر الرسالہ سے اصلاحی باتیں لے کر لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے لوگ مختلف مقامات پر مسجدوں کے ذریعہ الرسالہ کا تعمیری پیغام پھیلا رہے ہیں۔

۱۳۔ایک صاحب لکھتے ہیں: آپ کی کئی کتا بیں میں نے پڑھ لیں ۔ ان سے بہت متاثر ہوں ۔ دین کامل جیسی ایمان افروز اور ولولہ انگیز کتاب آج تک میری نظر سے نہیں گزری۔ اس کو پڑھ کر معلوم ہوا کہ اسلام کا مطلب کیا ہے۔ اور وہ اپنے ماننے والے کو کیا بنا دیتا ہے۔ اس کو سمندر کا اضطراب اور ساحل کا سکوت عطا کرتا ہے۔ الرسالہ برابر مل رہا ہے۔ پڑھ کر عجیب روحانی کیف محسوس کرتا ہوں۔ فکر و تدبر کی نئی راہیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔ سچ ہے از دل خیزد بردل ریزد۔ (بد رجمال اصلاحی ، سرائمیر، اعظم گڑھ)

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom