ایک جائزہ

ظہیر الدین محمد بابر ( ۱۵۳۰ - ۱۴۸۳) نے ہندستان میں مغل سلطنت کی بنیا درکھی ۔ وہ ۱۵۱۹ میں بر صغیر ہند میں داخل ہوا۔ مختلف لڑائیوں کے بعد آخر کار ۱۵۲۶ میں اس نے دہلی اور آگرہ پر قبضہ کر کے مغل سلطنت کا آغاز کیا ۔ بابر کے بعد اس کا بیٹا ہمایوں تخت پر بیٹھا۔

جلال الدین محمد اکبر (۱۶۰۵ - ۱۵۴۲) ہمایوں کا بیٹا تھا۔ ہمایوں کی وفات کے بعد ۱۵۵۶ میں وہ مغل تخت پر بیٹھا۔ اس وقت مغل سلطنت ایک غیر مستحکم سلطنت کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ مغلوں کی حیثیت ایک بیرونی حملہ آور کی تھی اور اس بنا پر یہاں کے قدیم باشندوں میں ان کے خلاف ناراضگی پائی جاتی تھی۔ اس ناراضگی کو ختم کرنے کے لیے اکبر نے وہ تدبیر کی جو عام طور پر دینِ الٰہی کے نام سے مشہور ہے۔ دین الٰہی حقیقۃ ً کوئی دین نہ تھا، وہ ملک میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان نفرت کو ختم کرنے کی ایک تدبیر تھی۔ اپنے ظاہری بھونڈے پن کے باوجود یہ تدبیر کارگر ثابت ہوئی اکبر اس میں کامیاب ہو گیا کہ وہ اپنے سیاسی استحکام کے لیے ملک کی اکثریت کا تعاون حاصل کر سکے ۔

اکبر نے یہ کام اگر چہ اپنے سیاسی مفاد کے لیے کیا تھا ۔ مگر جب ملک میں ہندومسلم نفرت ختم ہوئی تو اس کا فائدہ اسلام کو بھی پہونچنے لگا۔ لوگ کثیر تعداد میں اسلام قبول کرنے لگے ۔ اکبر سے لے کر شاہجہاں تک لاکھوں کی تعداد میں مقامی باشندے اسلام میں داخل ہوئے ۔ اس میں سب سے بڑا دخل اسی معتدل فضا کا تھا جو اکبر کی پالیسی کے ذریعہ پیدا ہوئی۔

اکبر کی نیت کے بارے   میں ہمیں کچھ معلوم نہیں ، تاہم اگر بالفرض وہ اتنا ہی برا ہو جتنا کہ کچھ لوگ اس کو سمجھتے ہیں ، تب بھی ہمارے مذکورہ تجزیہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ اکبر کی میل ملاپ کی پالیسی کے نتیجے میں ہندستان میں اسلام تیزی سے پھیلنے لگا۔ نتیجہ کی حد تک یہ واقعہ بدستور مسلّم ہے۔ البتہ اگر وہ بالفرض ایک غلط آدمی رہا ہو تو اس کا معاملہ اس حدیث کے تحت شمار کیا جائے گاجس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ :

إِنَّ اللَّهَ ‌لَيُؤَيِّدُ ‌هَذَا ‌الدِّينَ بِالرَّجُلِ الْفَاجِرِ(بخاری، 2897)بے شک اللہ اس دین کی مددفاجر آدمی کے ذریعہ بھی کرے گا ۔

آخری مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر( ۱۷۰۷ - ۱۶۱۸) کے زمانے میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تعلقات دوبارہ خراب ہو گئے ۔ اور نگ زیب نے اپنی ناعاقبت اندیشانہ پالیسیوں سے راجپوت، مراٹھا اور سکھ ، ہر اک کو اپنا مخالف بنا لیا ۔ حتی کہ عام ہندو بھی اس کو نا پسند کرنے لگے ۔ اس کے نتیجہ میں از سر ِنو کشیدگی کا ماحول قائم ہو گیا ۔ اسلام کے پھیلنے کا جو عمل اکبر کے بعد اپنے آپ جاری ہو ا تھا، وہ رک گیا۔ ہندومسلم منافرت کی بنا پر وہ معتدل ماحول ختم ہو گیا جو اسلام کی اشاعت کے لیے ضروری ہے۔

اور نگ زیب کے بعد مغل سلطنت زوال کا شکار ہوگئی ۔ تاہم اللہ تعالٰی نے اس کے بعد صوفیاءکو کھڑا کیا ۔ سارے ملک میں صوفیاء اپنی خانقاہیں بنا کر بیٹھ گئے ۔ ان کا خاص مقصد لوگوں کو محبت کاپیغام دینا تھا۔ صوفیاءکو اپنے اس مشن میں غیر معمولی کامیابی ہوئی ۔ ہندو اور مسلمان دونوں بہت بڑی تعداد میں ان کے حلقہ میں شامل ہو گئے   ۔ یہاں تک کہ صوفیاء ہی سماج کا وہ عنصر بن گئے   جو سماج کے اوپر سب سے زیادہ اثر رکھتا تھا اور لوگوں کے مزاج کی تشکیل کرتا تھا۔

 بابر کی پیدا کی ہوئی نفرت کو اکبر نے ختم کیا تھا، اورنگ زیب کی پیدا کی ہوئی نفرت کو صوفیاءنے ختم کیا ۔ اس کے بعد دوبارہ وہ معتدل فضا قائم ہوگئی جو اسلام کی اشاعت کے لیے ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اورنگ زیب کے بعد اگرچہ مغل سلطنت پر زوال آگیا ، مگر اسلام کی اشاعت تیزی سے جاری ہو گئی ۔ اس دور میں دوبارہ لاکھوں لوگ اسلام کے حلقہ میں داخل ہو گئے   ۔

اسلام کی اشاعت کا یہ عمل بیسویں صدی کے آغاز تک جاری رہا۔ یہاں تک کہ مسٹرمحمد علی جناح (۱۹۴۸ - ۱۸۷۶) کا ظہور ہوا ۔ انھوں نے دو قومی نظریہ ایجاد کیا ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہندو مسلمانوں سے الگ ہیں اور مسلمان ہندؤوں سے الگ ۔ یہ علاحدگی اگر صرف اعتقادی معنوں میں ہوتی تو اس سے کوئی خاص خرابی نہ ہوتی ۔ مگر انھوں نے اس علاحدگی کو جغرافی مفہوم دیا۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ دونوں گروہوں کے درمیان نفرت اور مقابلہ آرائی ایک مستقل سیاسی اصول بن گیا ۔

دو قومی نظریہ حقیقۃ ً  دو قوموں کے درمیان نفرت کے ہم معنی تھا ۔ مخصوص اسباب کے تحت اس نظریہ کو مسلمانوں کے درمیان زبردست مقبولیت حاصل ہوئی ۔ پورے ملک میں دو قومی نفرت کی ایک نئی فصل اگ آئی۔ ہندو مسلم نفرت ہی دونوں فرقوں کا سب سے بڑا مذ ہب بن گیا ۔ اس زہریلی سیاست کی تکمیل ۱۹۴۷ میں ہوئی جب کہ پاکستان کی صورت میں دونوں فرقوں کے درمیان نفرت کی ایک ایسی دیوار کھڑی ہو گئی جو دیوار برلن سے بھی زیادہ مضبوط تھی ۔

بیسویں صدی کے وسط سے دوبارہ اس ملک میں اسلام کی اشاعت کا کام رک گیا ہے، اور اس کی سب سے بڑی وجہ مسٹر جناح کی وہ سیاست ہے جس نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت اور تلخی کی فضا پیدا کر دی ۔ اب دوبارہ زمین و آسمان کو کسی ایسے دن کا انتظار ہے جب کہ داعی اور مدعو   کے درمیان نفرت کا یہ ماحول ختم ہو اور اسلام کی اشاعت کا دروازہ دوبارہ کھل جائے جس طرح وہ اس سے پہلے کھلا ہو اتھا۔

اسلام دین فطرت ہے ۔ وہ تحریف سے پاک ہے۔ لمبی تاریخ کے نتیجےمیں وہ ایک قائم شدہ دین بن چکا ہے ۔ اسلام کی ان خصوصیات نے اب اس کے اندر یہ طاقت پیدا کر دی ہے کہ وہ اپنے آپ پھیلے ۔ وہ خود اپنے زور پر انسانوں کے دلوں میں داخل ہ ۔ خود بخود اشاعت کے اس عمل میں واحد رکاوٹ یہ ہے کہ اسلام اور اس کی مد عو قوموں کے درمیان نفرت اور تلخی کی فضا پیدا ہو جائے ۔ اسلام کی اشاعت کے لیے اب مسلمانوں کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے کسی عمل سے ایسی غیر موافق فضا پیدا نہ ہونے دیں۔ اگر مسلمان صرف اتنا کر سکیں تو اسلام اپنے آپ لوگوں کے اندر نفوذ کرنے لگے گا۔ اس کے بعد اسلام کی توسیع واشاعت کے لیے کسی براہ راست جدو جہدکی ضرورت نہیں ۔

تبلیغی جماعت کا اصل نشانہ اگر چہ مسلمانوں کی دینی اصلاح ہے ۔ مگر اس کے ذریعہ سے منافرت کو ختم کرنے کا وہ کام بالواسطہ طور پر انجام پارہا ہے جو اس سے پہلے صوفیاء کے ذریعہ زیادہ بڑے پیمانہ پر انجام پایا تھا، اگر یہ عمل قابلِ لحاظ حدتک بڑھ جائے تو ان شاء اللہ اشاعتِ اسلام کا رکاہوا کام دوبارہ ملک میں جاری ہو جائے گا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom