اوصاف انسانی
قرآن میں معمولی لفظی فرق کے ساتھ دو مقام پر یہ بات کہی گئی ہے کہ اللہ کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اس کو نہ بدل ڈالے جو اس کے جی میں ہے ۔إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنفُسِهِمۡۗ [الرعد: 11]اس خدائی سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی گروہ کے مابقوم (اجتماعی حالت) کا انحصار اس کے ما بأنفس (انفرادی حالت) پر ہے۔ اس کو دوسرے لفظوں میں اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ حیثیتِ قومی کا دار و مدار اوصاف انسانی پر ہے ۔ کسی قوم کے افراد میں انسانی یا اخلاقی اوصاف جیسے ہوں گے، اسی نسبت سے اس کو دنیا میں اجتماعی مقام حاصل ہو گا ، نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ ۔
اس معاملہ کو سمجھنے کے لیے موجودہ زمانہ کی ایک مثال لیجئے۔ یہ بات سبھی لوگ مانتے ہیں کہ جاپان نےدوسری عالمی جنگ کے بعد بہت غیر معمولی ترقی کی ہے۔ اس ترقی کا ایک خاص راز ان کا اتحاد ہے۔ جاپانی ہر کام کو متحدہ انداز میں کرتے ہیں۔ وہ اپنے اتحاد کو آخر وقت تک برقرار رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کی طاقت بہت بڑھ جاتی ہے۔ وہ ہر معاملہ میں غیر معمولی طور پر کامیاب رہتے ہیں ۔
جاپان کے اس اتحاد کا ر از ان کے افراد کا ایک شخصی مزاج ہے جو تقریبا ً تمام جاپانیوں کے اندرپایا جاتا ہے۔ پروفیسر چی نکانی (Chie Nakane) کی جاپانی زبان میں ایک کتاب ہے جس کا ترجمہ انگریزی میں جاپانی سماج (Japanese Society) کے نام سے شائع ہوا ہے۔ اس کتاب میں جاپانی پروفیسرنے لکھا ہے کہ جاپانیوں کا انفرادی مزاج یہ ہوتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ میں کسی کے ماتحت ہوں :
I am under someone (p. 51).
دوسرے لفظوں میں یہ کہ ہر جاپانی احساس ماتحتی میں جیتا ہے۔ اس لیے جب بھی کوئی اجتماعیت قائم ہوتی ہے تو وہ فوراً اس سے جڑ جاتا ہے ، وہ تنظیم کے سربراہ کو فوراً اپنا سر براہ مان لیتا ہے ، کیوں کہ وہ پہلے ہی سے یہ مانے ہوئے تھا کہ میں کسی کے ماتحت ہوں ––––––– یہ ہے جاپانیوں کے اس اتحاد کار از جس کے نتیجے میں انھوں نے موجودہ زمانے میں حیران کن ترقی حاصل کی ہے۔
اب موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو دیکھئے۔ مسلمانوں کا معاملہ جاپانیوں کے بالکل برعکس ہے ۔ مسجدسے لے کر سیاست تک کوئی معاملہ ایسا نہیں جس میں مسلمان متحد ہوں ۔ موجودہ مسلمان دنیا کی سب سے زیادہ بر باد قوم ہیں ، اور اس کی سب سے بڑی وجہ بلاشبہ ان کا عدم اتحاد ہے۔ اس بے اتحادی نے ایک ارب انسانوں کی عظیم قوم کو دنیا کی سب سے کمزور قوم بنا دیا ہے ۔
موجودہ مسلمانوں کی اس بے اتحادی کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب دوبارہ ان کے افراد کا وہ غلط مزاج ہے جو کسی بھی اتحاد کی راہ میں ایک مستقل رکاوٹ بن گیا ہے ۔
موجودہ زمانے میں جب مسلمان تنزّل اور مغلوبیت کا شکار ہوئے تو ان کے رہنماؤں کی تشخیص یہ تھی کہ مغرب سے مرعوبیت نے ان کو زوال سے دو چار کیا ہے ۔ چنانچہ تمام رہنماؤں نے ایک یا دوسری صورت میں یہ کیا کہ اسلام کو پر فخر انداز میں ان کے سامنے پیش کرنا شروع کر دیا۔ تاکہ ان کی مرعوبیت ختم کر سکیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی موجودہ پوری نسل فخر اور حاکمیت کے احساس پر پرورش پا کر اٹھی ہے۔ ہر آدمی نظری اور اعتقادی طور پر اپنے اندر برتری کا جذبہ لیے ہوئے ہے ۔ کیوں کہ یہی جذبہ اس کے اندر بھرا گیا تھا۔
یہ نفسیات اتحاد کی قاتل ہے ۔ اتحاد اس وقت قائم ہوتا ہے جب کہ ایک شخص کو بڑا بنا کر بقیہ تمام لوگ اس کے مقابلہ میں چھوٹے بننے پر راضی ہو جائیں۔ مگر مسلمانوں کی پُر فخر نفسیات اس میں مانع ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب ہر آدمی سردار بننا چاہتا ہے۔ ہر آدمی چاہتا ہے کہ اس کی بات چلے ۔ ہر آدمی چاہتا ہے کہ وہ حاکمانہ سیٹ پر بیٹھے ۔ ایسی حالت میں اتحاد قائم ہونا ممکن نہیں۔ اور مسلمانوں کی یہی وہ نفسیات ہے جس نے آج ان کے درمیان کسی بھی اتحاد کو سراسر نا ممکن بنا دیا ہے۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا اصل مسئلہ اقتدار کو کھونا نہیں ہے بلکہ انسانی اوصاف کو کھونا ہے۔ موجودہ مسلمان ، اپنے رہنماؤں کی غلط رہنمائی کے نتیجے میں ، اعلیٰ انسانی اوصاف سے خالی ہو گئے ہیں۔ اب سب سے پہلا ضروری کام یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر وہ اوصاف پیدا کیے جائیں جو اعلیٰ انسانیت کی تشکیل کرتے ہیں۔ جب تک یہ کام نہیں کیا جائے گا مسلمانوں کے احوال تبدیل نہیں ہو سکتے ۔ کوئی دوسری کوشش خواہ وہ کتنی ہی بڑی مقدار میں کی جائے ، مسلمانوں کے لیے کسی نئے بہتر مستقبل کی تخلیق نہیں کر سکتی ۔