وضو کی برکت

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے وضو کیا۔ پھر بہتر طریقہ پر وضو کیا ، اس سے اس کی خطائیں جاتی رہتی ہیں۔ حتی کہ ناخن کے نیچے کی بھی ۔مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ خَرَجَتْ خَطَايَاهُ مِنْ جَسَدِهِ حَتَّى تَخْرُجَ ‌مِنْ ‌تَحْتِ ‌أَظْفَارِهِ(صحیح مسلم،حدیث  نمبر 245 )

بہتر و ضو سے کیا مراد ہے، اس کی وضاحت دوسری روایتوں سے ہوتی ہے ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص بھی وضو کرے ، پھر وہ اس کو پوری طرح کرے ۔ اس کے بعد وہ کہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمداللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے   جاتے ہیں ، وہ جس دروازہ سے چاہے داخل ہو جائے ۔مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ يَتَوَضَّأُ فَيُبْلِغُ (أَوْ فَيُسْبِغُ) الْوَضُوءَ ثُمَّ يَقُولُ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، إِلَّا فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ ‌الْجَنَّةِ ‌الثَّمَانِيَةُ، يَدْخُلُ مِنْ أَيِّهَا شَاءَ (صحیح مسلم،حدیث  نمبر 234)اسی  طرح حدیث میں ہے کہ کوئی شخص جب وضو کرے تو اس کے بعد یہ دعا پڑھے کہ خدایا مجھ کو تو بہ کرنے والوں میں سے بنا، اور مجھ کو پاک صاف لوگوں میں سے بنا ۔اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي ‌مِنَ ‌التَّوَّابِينَ، وَاجْعَلْنِي مِنَ الْمُتَطَهِّرِينَ (سنن  الترمذی حدیث  نمبر 55) ایک اور روایت میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اس کے بعد آپ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ خدایا، مجھے خطاؤں سے پاک کر دے جس طرح سفید کپڑا دھو کر میل سے پاک کر دیا جاتاہے (اللَّهُمَّ ‌نَقِّنِي ‌مِنَ ‌الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ) (صحيح البخاري، حدیث  نمبر 744)

مختلف روایتوں میں یہ بات مختلف انداز سے بتائی گئی ہے کہ وضو سے آدمی کے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ وضو اس کے گناہوں کے میل کو دھوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے رب کے پاس اس حال میں پہنچتا ہے کہ وہ بالکل پاک صاف ہوتا ہے اور اس کو جنت میں داخل کر دیا جاتا ہے۔

 اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پانی سے ہاتھ پاؤں کو دھونا اپنے آپ آدمی کو گناہوں سے پاک کر دیتا ہے ۔ خطا اور گناہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے قلبی اعمال ہیں۔ ان کا تعلق آدمی کی نیت اور ارادے سے ہے۔ اس لیے وہ اسی وقت دھل سکتے ہیں جب کہ آدمی کا قلب دُھل جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی روایتیں اس انسان کے لیے ہیں جس کا جسمانی وضو اس کے لیے روحانی وضو بن جائے ۔ جو وضو کا عمل اس طرح کرے کہ اسی کے ساتھ اس کا قلب اور ذہن بھی دھلتا چلا جائے ۔ جس کی نفسیات اس کے وضو میں شامل ہو گئی ہو۔

 ایک شخص جس کے دل میں اللہ کا خوف اور آخرت کا فکر سمایا ہوا ہو ، وہ جب وضو کرتا ہے تواس کے اندرونی احساسات کے اثر سے اس کا وضو کا عمل ایک ربانی عمل میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس کا مادی عمل اس کی روحانی کیفیات کے ساتھ مل جاتا ہے۔ اس کے ہاتھ وضو کے ظاہری عمل میں مشغول ہوتے ہیں اور اس کا ذہن دعا اور ذکر کے باطنی عمل میں۔ وہ پکار اٹھتا ہے کہ خدایا  –––––––– جس ہاتھ اور پاؤں اور چہرے کو آپ نے آج کے دن پانی سے دھویا ہے ، اس کو کل کے دن اپنی رحمت سے دھو دیجیے  ۔ جس جسم کو آپ نے دنیا میں مادی اعتبار سے پاک کیا ہے ، اس کو قیامت کے دن اپنی رحمت اور مغفرت کے نورانی غسل سے پاک کر دیجیے۔

جب ظاہری وضو کے ساتھ یہ باطنی وضومل جائے تو یہی وہ وضو ہے جس کے بعد آدمی کے لیے جنت کے سب دروازے کھول دیے   جاتے ہیں اور اس سے کہہ دیا جاتا ہے کہ تم جس دروازےسے چاہو داخل ہو جاؤ۔

جسمانی وضو جسم کی پاکی ہے ، اور روحانی وضوروح کی پاکی ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom