تیوہار اور قومی یک جہتی

تیوہار کو عربی میں عید، ہندی میں تیوہار اور انگریزی میں فیسٹول (Festival) کہتے ہیں۔ تیوہار کا بنیادی مقصد اجتماعی روایات کو زندہ رکھنا اور فرد کو فرد سے جوڑنا ہے۔ انسانی تہذیب کی پوری تاریخ میں تیوہار کا رواج رہا ہے۔ سال کی خاص تاریخوں میں مشترک طور پر قومی تقریب منعقد کرنا، یا مشترک تصور کے تحت کسی یادگار دن کو اجتماعی خوشی منانا ، اسی کا نام تیوہار ہے۔

تیو ہار عام طور پر سال کی مقرر تاریخوں میں ہوتے ہیں۔ اس روز سب لوگ جمع ہو کر مخصوص انداز میں خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں ۔ اس طرح تیو ہار لوگوں کے اندر اجتماعیت اور یک جہتی پیدا کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔ وہ سماج کے ایک حصے کو اس کے دوسرے حصے سے قریب لے آتا ہے۔ تیوہار ملاقات اور تعلق کی مضبوط اور پائدار زمین فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔

تیو ہار کا ایک حصہ عام طور پر کسی مخصوص سماجی گروہ کے اپنے عقیدہ اور اپنی تاریخ سے تعلق رکھتا ہے۔ اور ایک حصہ عمومی ہوتا ہے جو صرف ایک سماجی گروہ کی دلچسپی کی چیز نہیں ہوتا بلکہ پورے سماج ، اور وسیع تر معنوں میں تمام انسانوں سے تعلق رکھتا ہے۔

 مثلاً عید میں دوگانہ نماز کا تعلق مسلم عقیدہ سے ہے۔ وہ مسلمانوں کے مذہب کا حصہ ہے۔مگر عید میں شیرینی کھانا اور کھلانا ایک ایسی چیز ہے جس کا تعلق تمام انسانوں سے ہے۔ وہ انسانی سطح پر میل جول کو بڑھانے والا ہے۔ وہ ایک عالمی چیز ہے نہ کہ کوئی گروہی چیز ۔ اسی طرح دیوالی میں لکشمی کی پوجا کرنا ہندو عقیدہ سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ ہندو مذہب کا جزءہے لیکن گھر کی صفائی ایک ایسی چیز ہے جس میں ہر آدمی کے لیے   دلچسپی کا سامان موجود ہے ۔ اس کو ہر آدمی خوشی سے اختیار کر سکتا ہے۔

میں آزادی (1947) سے پہلے والے ہندستان میں پیدا ہوا۔ مجھے اپنے بچپن کی یہ بات اچھی طرح یاد ہے کہ جب دیوالی کا تیوہار آتا تو مسلمان ہندوؤں کے یہاں تحفے بھیجتے ۔ ہم لوگ بھی اپنےگھروں کی صفائی اسی طرح کیا کرتے تھے جس طرح ہندو لوگ اس تیوہار میں اپنے گھروں کی صفائی کرتے ہیں۔ اسی طرح جب عید کا تیوہار آتا تو ہندو بچے بھی مسلم بچوں کی طرح نئے کپڑے پہنتے۔ ہندوگھروں میں شیرینی کا اہتمام کیا جاتا اور وہ اپنے مسلم پڑوسیوں کی تواضع کر کے خوش ہوتے۔

اس طرح مسلمانوں نے ہندو تیو ہاروں میں اپنے لیے   دلچسپی کا سامان پا لیا تھا اور ہندو، مسلمانوں کے تیوہاروں میں اپنی دلچسپی کا سامان پارہے تھے۔ دونوں فرقوں کے تیو ہار ایک اعتبار سے ان کے اپنے فرقے کے تیوہار ہوتے تھے اور دوسرے اعتبارے ان کی حیثیت مشترک تیو ہار کی ہوتی تھی۔ اس دوسرے اعتبار سے دونوں گویا ایک دوسرے کے تیوہاروں کو مل جل کر مناتے تھے۔ اس طرح دونوں فرقوں میں رواداری کو فروغ  ملتا تھا۔ دونوں بار بار ایک دوسرے سےقریب ہوتے رہتے تھے۔

اس چیز نے اس زمانے میں ہندوؤں اور  مسلمانوں کے درمیان کا مل ہم آہنگی اور یک جہتی پیدا کر رکھی تھی۔ دونوں میں کسی قسم کی اجنبیت حائل نہ تھی۔ دو نوں اپنے آپ کو مسلم اور ہندو سمجھتے ہوئے وسیع تر ہندستانی قوم کا حصہ  بنے  ہوئے تھے۔ دونوں اس عظیم ملک سے یکساں محبت کرتےتھے جس کا نام اب تاریخ میں بر صغیر ہند (Indian sub-continent) لکھا جاتا ہے۔

یہی وہ دور ہے جس کی بابت سرسید نے اپنی ایک تقریر (27 جنوری 1883) میں کہا تھا : "ہندو ہونا یا مسلمان ہونا انسان کا اندرونی خیال یا عقیدہ ہے، جس کو بیرونی معاملات اور آپس کے برتاؤ سے کچھ تعلق نہیں۔ ہندوستان ہی ہم دونوں کا وطن ہے۔ ہندوستان ہی کی ہوا سے ہم دونوں جیتے ہیں۔ مقدس گنگا اور جمنا کا پانی ہم دونوں پیتے ہیں۔ ہندستان ہی کی زمین کی پیداوار . ہم دونوں کھاتے ہیں ۔ مرنے میں ،جینے میں دونوں کا ساتھ ہے۔ درحقیقت ہندستان میں ہم دونوں باعتبارِ اہلِ وطن ہونے کے ایک قوم ہیں۔ اور ہم دونوں کے اتفاق اور باہمی ہمدردی اور آپس کی محبت سے ملک کی اور ہم دونوں کی ترقی اور بہبود ی ممکن ہے۔ اور آپس کے نفاق اور ضد و عداوت اور ایک دوسرے کی بدخواہی سے ہم دونوں برباد ہونے والے ہیں "۔

پھر یہی وہ ہندستان ہے جس کا ترانہ اقبال نے اپنے اشعار میں گا یا تھا ۔ ان کا یہ شعر اس مشترکہ جذبے کی بہترین عکّاسی کرتا ہے جس کو ہندستان کے تقریباً ہر شخص نے سنا ہے اور بے شمارلوگوں نے اس کو گایا ہے :

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا    ہم بلبلیں ہیں اس کی وہ گلستاں ہمارا

اس طرح کے مشترک ماحول اور یک جہتی کی فضا پیدا کرنے میں تیو ہار نہایت اہم رول ادا کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ نفرت اور باہمی دوری کے قاتل ہیں۔ اگر تیوہاروں کو صحیح جذبےکے ساتھ اور مشترک انداز میں منایا جائے تو ہمارے سماج سے ہر قسم کے جھگڑے اور فساد کا ہمیشہ کےلیے   خاتمہ ہو جائے۔

مجھے مدھیہ  پر دیش کے ایک صاحب نے بتایا۔ وہاں کے ایک قصبے میں فرقہ وارانہ تناؤ کا ماحول تھا۔ ہولی کے تیوہار کا زمانہ آیا تو سخت اندیشہ پیدا ہو گیا کہ اس موقع پر فرقہ وارانہ فساد ہو کررہے گا۔ ہولی کا رنگ انسانی خون کے رنگ میں تبدیل ہو جائے گا۔

اس وقت ایک بزرگ ہندو مسلمانوں کے علاقے میں گئے ۔ انھوں نے مسلمانوں سے کہا کہ میں آپ لوگوں کا خیر خواہ ہوں اور آپ لوگوں کو ایک مشورہ دینے آیا ہوں جس میں ہم سب کی بھلائی ہے۔ اگر آپ میرے اس مشورہ کو قبول کر لیں تو امید ہے کہ ہماری بستی بہت بڑی آفت سےبچ جائے گی۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت ہماری بستی کے جو حالات ہیں وہ آپ کے سامنے ہیں۔ مجھے بظاہر یقینی معلوم ہوتا ہے کہ یہ حالات باقی رہے تو ہولی کے موقع پر ضرور فرقہ وارانہ فساد ہو جائے گا اور ہماری سڑکوں پر رنگ کے بجائے خون بہے گا۔ اس مسئلے کے حل کی ایک نہایت آسان تدبیرہے اور اس وقت میں آپ کو وہی تدبیر بتانے آیا ہوں۔

انھوں نے کہا کہ ہولی کے دن جب ہندو لڑکے ہولی کھیلتے ہوئے مسلمانوں کے محلے کے پاس پہنچیں تو مسلمان اس سے الگ نہ رہیں۔ بلکہ مسلمان لڑ کے بھی باہر نکل کر ان کی پارٹی میں شامل ہو جائیں اور ان کے ساتھ ہولی کھیلنا شروع کر دیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر بالفرض آپ لوگوں کے کپڑوں میں ہولی کا رنگ لگنے کا کچھ عذاب ہو تو میں بھگوان سے کہتا ہوں کہ وہ اس کو میرے حصے میں ڈال دے اور اس تدبیر سے فساد کے ٹلنے کا جو ثواب ہے وہ سب آپ لوگوں کے حصے میں لکھ دیا جائے۔ یہ بات مسلمانوں کی سمجھ میں آگئی، چناں  چہ   انھوں نے ہولی کے موقع پر ایسا ہی کیا۔

ہولی کے دن حسب ِمعمول ہندو نوجوانوں کی پارٹی مسلم محلے سے گزرنے والی سڑک پر آئی۔ اس وقت ، پہلے سے طے کئے ہوئے منصوبے کے مطابق کچھ تفریح پسند مسلم نوجوان اپنے گھروں سے نکلے اور جوش و خروش کے ساتھ ہند و پارٹی میں مل گئے۔ وہ اس وقت انھیں جیسے بن کر ان کے ساتھ ہولی کھیلنے لگے۔

ایسا کرنے کے بعد اچانک ساری فضا بدل گئی۔ جو دن دو دشمنوں کے ٹکر اؤ کا دن بنتا وہ دو دوستوں کے ملاپ کا دن بن گیا ۔ ہولی کا رنگ جوتوں کے چھڑکاؤ کی صورت اختیار کرنے والا تھا ، وہ پیار و محبت میں بدل کر لوگوں کے اوپر گلاب جل کا چھٹر کاؤ بن گیا۔

اسی طرح مہاراشٹر کے ایک شہر کا قصہ ہے۔ وہاں ہر سال ایک خاص تاریخ کو گن پتی کا جلوس نکلتا ہے جو گویا ان کا ایک سالانہ تیوہار ہے۔ ہندو اس میں بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں کئی سال ایسا ہوا کہ جلوس جب مسلم محلے سے گزرنے والی سڑک پر پہنچا تو کسی نہ کسی بات پر دونوں فرقوں میں اشتعال پیدا ہو گیا اور فساد کی نوبت آگئی۔

پچھلے سال وہاں کے مسلمانوں نے مشورہ سے یہ طے کیا کہ وہ جلوس کے خلاف روک ٹوک نہیں کریں گے اور نہ اس کی روٹ بدلنے پر اصرار کریں گے۔ چناں  چہ   جب جلوس آیا تو انھوں نے پچھلے سالوں کے برعکس جلوس کا استقبال اور اس کو راحت پہنچانے کی کوششیں کیں۔ مثلاً یہ گرمی کا موسم تھا۔چناں  چہ   انھوں نے راستے میں جگہ جگہ ٹھنڈے پانی کا انتظام کر دیا۔ وغیرہ

اس کا نتیجہ نہایت خوش گوار نکلا۔ دو فرقے جو اس سے پہلے ایک دوسرے کو حریف کی نظر سے دیکھتے تھے ، وہ ایک دوسرے کو دوست کی نظر سے دیکھنے لگے۔ جلوس کا قافلہ جو عام حالت میں دونوں کے درمیان کشیدگی پیدا کرنے کا سبب بنتا ، وہ دونوں کے درمیان دوستی اور یک جہتی پیدا کرنے کا ذریعہ بن گیا۔

تیوہار کو اگر صحیح طریقے سے منایا جائے تو بلاشبہ وہ رواداری اور اتحاد اور یک جہتی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ وہ پورے سماج کو مشترک انسانی رشتے میں جوڑ کر صالح معاشرہ کی تشکیل کرتا ہے۔ اور صالح معاشرہ سے پیدا ہونے والے نتیجہ ہی کا دوسرا نام یک جہتی ہے۔

نوٹ : یہ تقریر آل انڈیا ریڈیو نئی دہلی سے24 اپریل 1989 کو نشر کی گئی۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom