شاہ کلید
مانٹگومری واٹ (W. Montgomery Watt) کی ایک کتاب ہے جس کا نام ہے : اسلام کی عظمت رفتہ (The Majesty that was Islam) یہ کتاب اگرچہ اسلام کی تعریف پر ہے ۔ مگر اس کا نام بہت زیادہ غلط فہمی پیدا کرنے والا ہے ۔ کتاب کے اس نام کو دیکھ کر شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ تصورقائم ہوتا ہے کہ اسلام اپنی ساری عظمتوں کے باوجود ماضی کی چیز تھا، وہ مستقبل کی چیز نہیں ۔کتاب کا یہ نام ماضی کے بارے میں فخر اور مستقبل کے بارے میں مایوسی کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
مصنف نے کتاب کے پانچویں باب میں فلکیات کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ فلکیات کا فن عربوں کے لیے ایک عملی سائنس تھی ۔ کیوں کہ ان کے لیے اپنے مذہب کی رو سے یہ ضروری تھا کہ وہ ہر اسلامی شہر سے مکہ کے رخ کو جانیں ۔ تاکہ نمازوں کے وقت اپنے چہرہ کا رخ اس کی طرف کر سکیں :
Astronomy was a practical science for the Arabs... because they had to know the direction of Mecca from every Islamic city, in order to face in this direction in their prayers (p. 228).
یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کے عبادتی اعمال غیر متعلق رسوم نہیں ہیں، بلکہ ان کا رشتہ دوسرے انسانی علوم سے براہ راست طور پر جڑا ہوا ہے –––––– نماز کا تعلق سمتوں کے علم سے ہے۔ اسی طرح روزہ کا تعلق کیلنڈر سے ۔ زکوٰۃ کا تعلق علم الحساب سے۔ حج کا تعلق علم جغرافیہ سے، وغیرہ ۔
مسلمانوں کے درمیان اسلام اگر حقیقی شکل میں زندہ ہو تو اسی کے ساتھ دوسری تمام چیزیں بھی ان کے درمیان زندہ ہو جائیں گی۔ اسلام کا قیام اپنے آپ دوسری چیزوں کے قیام کا ذریعہ بن جائے گا۔ اسلامی تاریخ کے دور ِاول میں ایسا ہی پیش آیا ۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے درمیان اسلام اپنی حقیقی صورت میں زندہ نہیں۔ اسی لیے دوسری چیزیں بھی ان کے درمیان زندہ نظر نہیں آتیں––––– اسلام شاہ کلید (Master key) ہے، دینی امور کے لیے بھی ، اور اسی کےساتھ ہر قسم کے دنیوی امور کے لیے بھی ۔