اسلوب عصر
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے جو رسول بھی بھیجا اس کو اس کی قوم کی زبان میں بھیجا تاکہ وہ ان سے بیان کردے (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ( ابراهیم:4(
پیغمبر، اور پیغمبر کے بعد اس کی تبعیت میں داعی ، لسانِ قوم میں کلام کرتا ہے۔ اس انداز کلام کی اہمیت دعوت کے اعتبار سے بھی ہے اور تربیت کے اعتبار سے بھی ۔ جو لوگ دین کے دائرہ سے باہر ہیں، ان کے لیے لسان عصر میں کلام کرنے کی ضرورت اس لیے ہے تاکہ وہ اس کو پوری طرح سمجھیں اور ان کے اوپر خدا کے دین کی حجت تمام ہو سکے۔ اگر لسان غیر قوم یا لسان غیر عصر میں کلام کیا جائے تو دعوت پہنچانے کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ اس بنا پر یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ ان پر حجت تمام کر دی گئی ہے۔
جو لوگ اسلام کے دائرے میں داخل ہیں، ان کے لیے لسان قوم یا زمانےمیں رائج اسلوب کی اہمیت تربیت کے اعتبار سے ہے۔ کوئی بات جب تک مخاطب کی اپنی زبان یا اس کے اپنے قابل فہم اسلوب میں نہ کہی جائے وہ اس کے ذہن کا جز نہیں بنتی ، وہ اس کے اندر شعوری انقلاب بن کر داخل نہیں ہوتی۔
مثال کے طور پر ایک حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى(صحيح البخاري، حدیث نمبر 1427) ( اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے) اگر آپ اس حدیث کا صرف ترجمہ کر دیں یا روایتی طور پر صرف یہ بتا دیں کہ صدقہ دینے والا ہاتھ صدقہ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے تو وہ اتنی شدت کےساتھ سننے والے کے ذہن میں جگہ نہیں بنا سکتا جیسا کہ فی الواقع اس سے مطلوب ہے ۔
لیکن اگر آپ اس کو جدید زبان میں اس طرح کہئے کہ اس حدیث میں دینے والےگروه (Giver group) اور لینے والے گروہ (Taker group) کا فرق بتایا گیا ہے ، تو آج کا انسان فوراً اس کی معنوی اہمیت کو سمجھ لے گا۔ کیوں کہ یہ آج کی زبان ہے، اور کسی بات کو جب آج کی زبان میں کہہ دیا جائے تو وہ آج کے ذہن میں پوری طرح اتر جاتی ہے۔ وہ اس کے شعوری فکر کا جزء بن کراس کے اندر داخل ہو جاتی ہے ۔