نازک مسئلہ
خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفان پر کچھ شورش پسند مسلمانوں نے قاتلانہ حملہ کیا اور 18 ذی الحجہ35ھ کو انہیں شہید کر ڈالا۔ اس وقت آپ کی عمر 82سال تھی ۔ آپ کی مدت خلافت 12 سال ہے ۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ اس وقت حج کی ادائگی کے بعد مکہ سے مدینہ کی طرف جارہی تھیں۔ وہ مقام سرف تک پہونچی تھیں کہ حضرت عثمان کی شہادت کی خبر ملی ۔ اس کے بعد وہ راستہ ہی سے مکہ کی طرف واپس روانہ ہو گئیں۔ مکہ پہو نچیں تو ان کی آمد کی خبر سن کر لوگ آپ کی سواری کے گرد جمع ہو گئے ۔ حضرت عائشہ نے مجمع کے سامنے ایک تقریر کی جس میں کہا کہ خداکی قسم ، عثمان مظلوم مارے گئے ۔ خدا کی قسم ، میں ان کے خون کا بدلہ لوں گی (قُتل والله عثمان مظلومًا والله لأطلبنّ بدمہ ، العبقريات الاسلامیہ ، صفحہ ۷۲۱)
حضرت عائشہ اونٹ پر سوار ہو کر مکہ سے بصرہ کے لیے روانہ ہوئیں ۔مکہ اور اطراف مکہ میں منادی کر دی گئی کہ ام المؤمنین عائشہ بصرہ جارہی ہیں۔ جو شخص اسلام کا حامی ہو اور خون عثمان کابدلہ لینا چاہے ، وہ قافلہ میں شریک ہو جائے ۔
مکہ سے ڈیڑھ ہزار آدمیوں کا لشکر روانہ ہوا۔ باہر نکلے تو اطراف و جوانب سے لوگ جوق در جوق آکر قافلہ میں شریک ہونے لگے۔ یہاں تک کہ جلد ہی اس لشکر کی تعداد تین ہزار ہوگئی۔
یہ لوگ چلتے ہوئے ایک مقام پر پہونچے جہاں ایک چشمہ تھا۔ حضرت عائشہ کے اونٹ کو دیکھ کر وہاں کتّوں نے بھونکنا شروع کر دیا۔ حضرت عائشہ نے یہ منظر دیکھ کر چشمہ کا نام پوچھا بتایا گیاکہ یہ موأب کا چشمہ ہے ۔ یہ نام سنتے ہی حضرت عائشہ نے کہا کہ مجھ کو لوٹاؤ۔
لوگوں نے سبب دریافت کیا تو حضرت عائشہ نے کہا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کی بیویاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں بھی وہاں موجود تھی۔ آپ نے اپنی بیویوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ کاش مجھ کو معلوم ہوتا کہ تم میں سے کس کو دیکھ کر موأب کے کتّے بھونکیں گےیہ کہہ کر حضرت عائشہ نے اونٹ کی گردن پر ہاتھ مارا۔ اونٹ وہیں بیٹھ گیا۔ اس کے بعد حضرت عائشہ ایک دن اور ایک رات وہیں مقیم رہیں ۔ تمام لشکر بھی آپ کے ساتھ وہیں ٹھہرا رہا۔
اس کے بعد کچھ لوگوں نے منصوبہ بنا کر اچانک شور کر دیا کہ جلدی کرو، جلدی کرو علی تم تک پہنچ گئے ۔ یہ سن کر تمام لشکر نہایت عجلت کے ساتھ بصرہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ کچھ لوگوں نے حضرت عائشہ کے اونٹ کو بھی تیزی سے اٹھا کر بھیڑ کے ساتھ روانہ کر دیا ۔ حضرت عائشہ کے سوال پر انھیں بتایا گیا کہ کسی نے غلطی سے آپ کو اس چشمہ کا نام موأب بتا دیا تھا۔ در حقیقت یہ چشمہ وہ چشمہ نہیں ہے۔ اور نہ موأب کا چشمہ اس راستہ میں آتا ہے۔
یہ لوگ چلتے رہے ، یہاں تک کہ وہ بصرہ کے قریب پہونچ گئے جہاں خلیفہ ٔچہارم حضرت علی بن ابی طالب مقیم تھے۔ یہیں وہ جنگ پیش آئی جو اسلامی تاریخ میں جنگ جمل (36ھ) کے نام سے مشہور ہے ۔ اس جنگ میں خود مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف لڑے تھے۔ ایک گروہ کے قائد حضرت علی تھے جن کے ہاتھ پر حضرت عثمان کے بعد خلافت کی بیعت ہوئی تھی۔ دوسری طرف حضرت عائشہ تھیں جو خونِ عثمان کا بدلہ لینے کے نام پر وہاں پہنچی تھیں، کیوں کہ انہیں یہ غلط فہمی ہوگئی تھی کہ حضرت علی خون عثمان کے معاملے کو دبار ہے ہیں اور قاتلینِ عثمان سے انتقام لینے پر تیار نہیں ہیں۔ حضرت عائشہ اس وقت ایک اونٹ پر سوار تھیں، اس لیےاس جنگ کا نام جنگ جمل پڑگیا ۔
جنگ جمل کی تفصیل تاریخ کی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ مختصر یہ کہ بوقت مقابلہ حضرت عائشہ کی طرف سے لڑنے والوں کی تعداد تقریباً 30ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ دوسری طرف حضرت علی کی فوج کی تعداد تقریباً 20 ہزار تھی۔ حضرت عائشہ کے لشکر میں سے 9 ہزار آدمی میدان جنگ میں مارے گئے ۔ اور حضرت علی کی فوج میں سے ایک ہزار ستر آدمی کام آئے ۔ گویا مجموعی طور پر تقریبا ً دس ہزار مسلمان خود مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہو گئے ۔
اس واقعے میں یہ سبق ہے کہ عوامی تحریک اٹھانا جتنا آسان ہے ، اس کو کنٹرول کرنا اتنا آسان نہیں۔ خواہ اس کی قیادت ام المؤمنین جیسی مقدس ہستی کیوں نہ کر ر ہی ہو ۔ جو لوگ جذباتی اشو پر پُر جوش تقریریں کر کے بڑی بڑی تحریکیں اٹھاتے ہیں اور عوام کی بھیڑ اکٹھا کرتے ہیں انہیں چاہیےکہ وہ ہمیشہ آغاز سے زیادہ انجام پر غور کریں۔
اس قسم کی عوامی تحریکوں میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ابتدائی مرحلہ میں لیڈر نمبر 1 پر ہوتا ہےاور عوام نمبر 2 پر۔ مگر جب جوش و جذبے میں بھرے ہوئے عوام کی بھیڑ اکٹھا ہو چلی ہو تو اس کے بعد صورتِ حال یکسر بدل جاتی ہے۔ اب عوام کو نمبر 1کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے اور لیڈر نمبر 2 کے مقام پر چلا جاتا ہے۔ اب تحریک کی رہنمائی کے لیے عملی طور پر صرف عوام کا جوش رہ جاتا ہے نہ کہ رہنماؤں کا ہوش ۔
ذمہ داری کا تقاضا ہے کہ اس قسم کے عوامی کام کو بہت زیادہ سوچ سمجھ کر شروع کیا جائے۔ کیوں کہ اس قسم کے کام کو شروع کرنا ہمیشہ انتہائی آسان ہوتا ہے، مگر اس کو نیک انجام تک پہنچانا انتہائی حد تک مشکل ہے۔ حضرت عائشہ اگرحج کے بعد گھر( مدینہ) واپس جانے کا فیصلہ کرتیں تو یہ ان کے لیے بالکل سادہ اور آسان سی بات ہوتی۔ مگر مو أب کے چشمہ پر جب کہ وہ بھیڑ کے درمیان تھیں تو یہی سادہ سی بات ان کے لیے ناممکن کے درجہ میں مشکل ہو گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ ایسے ہنگامی مواقع پر بیچ سے رائے بدلناممکن نہیں ہوتا ۔ ایسے کاموں میں بیچ سے رائے بدلنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص دریا کو چھلانگ کے ذریعہ پار کرنا چاہے ، اور جب وہ اس کے درمیان میں پہنچے تو یہ فیصلہ کرے کہ مزید تیاری کے لیے اس کو پیچھے کی طرف لوٹ جانا چاہیے۔