ابو طالب
مکہ میں جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیغمبر ہونے کا اعلان کیا تو مردوں میں سب سے پہلے جو شخص ایمان لایا وہ حضرت علی بن ابی طالب تھے جن کی عمر اس وقت تقریباً 10سال تھی۔ اس وقت مکہ کے حالات اتنے سخت تھے کہ نماز بھی آپ کو چھپ کر پڑھنی پڑتی تھی ۔ چناں چہ آپ حضرت علی کے ساتھ مکہ کے باہر پہاڑوں کی طرف چلے جاتے اور وہاں لوگوں کی نظروں سے دور ہو کر نماز ادا کرتے ۔ ایک روز مکہ کی گھاٹی میں آپ حضرت علی کے ساتھ نماز ادا کر رہے تھے کہ اتفاقاً ابو طالب وہاں آگئے ۔ نماز کا طریقہ انھیں بالکل اجنبی معلوم ہوا۔ انھوں نے کہا کہ اے میرے بھتیجے، یہ کون سا دین ہے جو تم نے اختیار کیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب کو بتایا کہ اللہ نے مجھے اپنا پیغمبر بنایا ہے اور مجھےعبادت کا وہ طریقہ بتایا ہے جو اس کو پسند ہے ۔ آپ بھی اس دین کو قبول کر لیں ۔ ابو طالب نے جواب دیا کہ اے میرے بھتیجے ، میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ میں اپنے باپ، دادا کے دین کو اور جس پر وہ تھے اسے چھوڑ دوں (إنِّي لَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أفارقَ دِينَ آبَائِي وَمَا كَانُوا عَلَيْهِ) ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت علی کو انھوں نے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو ان سے اس کی بابت دریافت کیا کہ یہ کون سا دین ہے جس پر میں تم کو دیکھ رہا ہوں۔ حضرت علی نے کہا کہ اے میرے باپ، میں اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لایا ہوں اور جو کچھ وہ لائے ہیں اس کی تصدیق کرتا ہوں ۔ ان کے ساتھ میں نے نماز پڑھی ہے اور ان کی پیروی کی ہے۔ اس کے جواب میں ابو طالب نے اپنے بیٹے سے کہا : انھوں نے تم کو بھلائی کے سوا کسی اور چیز کی دعوت نہیں دی ہے ۔ تم اس پر جمے رہو (أَمَا إنَّهُ لَمْ يَدْعُك إلَّا إلَى خَيْرٍ فَالْزَمْهُ) )سيرة ابن هشام، الجزء الاول ، صفحہ265 (
اپنے آبائی بزرگوں کو ماننے کے لیے ابو طالب کو کوئی نیا فیصلہ نہیں کرتا تھا۔ مگر اپنے معاصر پیغمبر کو ماننے کے لیے ضروری تھا کہ وہ سچائی کو از سر نو دریا فت کریں۔ اور بلا شبہ اس دنیا میں پہلا کام سب سے زیادہ آسان کام ہے اور دوسرا کام سب سے زیادہ مشکل کام۔ "ابو طالب" ایک اعتبار سے ایک شخص کا نام ہے ، اور دوسرے اعتبار سے وہ ایک کردار کا نام ہے ۔ یہ کردار، کسی نہ کسی شکل میں ، ہر زمانےمیں موجود رہتا ہے۔