بے خبری

نومبر 1988 میں جزیرہ مالدیپ میں ایک واقعہ ہوا۔ مالدیپ کا ایک تاجر جس کا نام عبداللہ لطفی ہے، اس نے پڑوسی ملک سری لنکا میں اپنا خفیہ دفتر قائم کیا۔ وہاں اس نے دہشت پسند نوجوانوں کا ایک دستہ تیار کیا اور ان کو ہتھیار دے کر کشتیوں کے ذریعہ مالدیپ (Male) کے ساحل پر3 نومبر1988 کو اتار دیا ۔ اس کا مقصد مالدیپ میں "فوجی انقلاب" لانا تھا۔ چناں  چہ   اس نے فوراً مالدیپ کے صدر مامون عبدالقیوم کی رہائش گاہ کو گھیر لیا۔ اور اس کی دیواروں کو گولی کا نشانہ بنانا شروع کیا۔

مالدیپ بحر ہند کا ایک بہت ہی چھوٹا ملک ہے ۔ اس کے پاس اپنی کوئی فوج نہیں ہے۔ عبد الله لطفی کا خیال تھا کہ وہ غیرمسلح مالدیپ کو نہایت آسانی سے فتح کر کے وہاں اپنی حکومت قائم کر سکتا ہے ۔ مگر اس کو مکمل ناکامی ہوئی۔ اس کو گرفتار کر لیا گیا۔ اور اب وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مالدیپ کی جیل میں ہے ۔

مالدیپ کے حالات بظا ہر لطفی کے موافق تھے۔ اس کے باوجود اس کو اپنے مقصد میں ناکامی کیوں ہوئی ۔ اس کا سبب یہ تھا کہ لطفی معاملے کے ایک پہلو کو جانتا تھا، مگر وہ اس کے دوسرے پہلو سے بالکل بے خبر تھا۔ اس کو یہ معلوم تھا کہ مالدیپ کے پاس اپنی کوئی فوج نہیں ہے۔ مگر وہ اس دوسری حقیقت سے بے خبر رہا کہ جدید مواصلات کے اس دور میں مالدیپ نہایت آسانی سے باہرکے ملک سے فوج منگا سکتا ہے جو اس کا بچاؤ کر سکے۔

مالدیپ کا ٹیلیفونی نظام نہایت عمدہ ہے۔ وہ سٹلائٹ کے ذریعہ کسی بھی ملک سے فوری طور پر ربط  قائم کر سکتا ہے۔ چناں  چہ   جیسے ہی لطفی نے مالدیپ کے صدارتی محل پر حملہ کیا، مالدیپ کے صدر مامون عبد القیوم نے ہندستان کی حکومت سے ٹیلیفون پر رابطہ قائم کیا ۔ انھوں نے نئی دہلی کو صور تِ حال    سےباخبر کرتے ہوئے یہ درخواست کی کہ وہ فوراً ان کی مدد کے لیے اپنی فوجیں بھیج دیں ۔

ہندستان کے لیے یہ ایک سنہری موقع تھا ۔ اس حادثےنے ہندستان کو یہ موقع فراہم کر دیا کہ وہ بحر ہند میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کر سکے ۔ وہ مالدیپ کے معاملےمیں مداخلت کر کے اس علاقے میں اپنے آپ کو فوجی نجات دہندہ کی حیثیت سے پیش کر سکے۔ چناں  چہ   صدر مالدیپ کی درخواست ملنےکے بعد چھ گھنٹہ کے اندر ہندستانی فوج مالدیپ (Male) کے ہوائی اڈہ پر اترگئی۔ اس نے چند گھنٹوں کے آپریشن میں لطفی اور اس کے ساتھیوں کو عین اس وقت گرفتار کر لیا جب کہ وہ اپنی سمندری کشتیوں کے ذریعہ سری لنکا کی طرف بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ مامون عبد القیوم کی حکومت بحال ہوگئی ۔

 دہلی کے انگریزی ہفت روزہ انڈیاٹوڈے (30نومبر 1988) نے اس معاملے کی تفصیلی رپورٹ دی ہے۔ اس نے بجا طور پر لکھا ہے کہ مالدیپ پر حملہ کرنے والے اپنے حملہ میں کامیاب ہو سکتے تھے ، اگر انھوں نے احتیاطی تدبیر پر عمل کیا ہوتا۔ اور ٹیلی فون اکسینج اور ہوائی اڈہ پر قبضہ کر کےان کو نا قابل استعمال بنا دیتے :

The attackers could have made it if they had taken care to neutralize the telephone exchange and the airport (45).

عبدالله لطفی کو شاید قدیم صدارتی محل کا علم تھا ۔ جس کی حیثیت صرف مقامی قلعہ کی ہوتی تھی۔ اس کو جدید صدارتی محل کا علم نہ تھا جو مواصلات کے سائنسی وسائل کے ذریعہ پورے عالم سے مربوط ہوتا ہے۔ قدیم شاہی محل کے لیے سمندر اور پہاڑ حائل ہو جاتے تھے ۔ مگر جدیدشا ہی محل کی راہ میں کوئی سمندر یا کوئی پہاڑ حائل نہیں۔ وہ خلائی مواصلات کے ذریعہ پیغام رسانی کر سکتا ہے، اور فضائی سواریوں کے ذریعہ اپنے لیے مدد بلا سکتا ہے۔

مالدیپ کا یہ واقعہ علامتی طور پر جدید مسلم تاریخ کی تصویر ہے۔ وہ موجودہ زمانے میں مسلم رہنماؤں کے ناکام اقدامات کی حقیقت کو بتا رہا ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلم رہنماؤں نے بے شمار اقدامات کیے مگر ان کے تمام اقدامات بلا استثناء  ناکام رہے۔ اس کی وجہ دوبارہ وہی تھی جو عبداللہ لطفی کے مذکورہ واقعہ میں نظر آتی ہے۔ ہمارے رہنماؤں نے معاملہ کے ایک پہلو کو جانا مگر وہ معاملہ کے دوسرے پہلو سے بالکل بے خبر رہے۔ اور موجودہ دنیا میں جو لوگ اس قسم کی بے خبری کا ثبوت دیں، ان کے اقدامات کے لیے بد ترین ناکامی کے سوا کوئی اور انجام مقدر نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom