سفرنامہ امریکہ- ۳
صغیر احمد اسلم صاحب نے بتایا کہ 1969میں وہ لاس اینجلیس کی ایک بڑی فرم میں 35 اسٹور کے مینجر تھے۔ ان کو اپنے امریکی افسر کے ساتھ سفر کر نا پڑتا تھا۔ یہ جنرل منیجر تقریباً 35 سال کا تھا۔ اور ہوٹل کے زمانۂ قیام میں شراب اور عیاشی کے کاموں میں مشغول رہتا تھا۔ صغیر اسلم صاحب ایک با اصول آدمی تھے۔ ان کو اس قسم کی باتیں پسند نہ تھیں۔ آخر ایک سفر میں وہ جنرل منیجر کے کمرہ میں گئے اور دروازہ بند کر کے اس سے نہایت سخت گفتگو کی –––– تم عیاش ہو ، تم بالکل نکمے ہو، تم بزنس کرنا نہیں جانتے ، وغیرہ ۔
صغیر اسلم صاحب جنرل منیجر کو بری طرح ڈانٹ ڈپٹ کرنے کے بعد جب باہر جانے لگے تو جنرل منیجر نے ان کو پکڑ کر واپس بلایا اور کہا کہ تم جانتے ہو کہ میں کون ہوں۔ صغیر اسلم صاحب نے کہا کہ ہاں ، تم اس کمپنی کے مالک ہو۔ اس نے کہا کہ پھر تمہارے اندر یہ جراٴت (Courage) کہاں سے آئی کہ تم مجھ کو اس طرح خطاب کرو۔ صغیر اسلم صاحب نے کہا کہ تم یہی تو کر سکتے ہو کہ مجھ کو فائر ( برخاست) کر دو، تو میں اس سے پہلے کمپنی سے اپنا استعفا ء تیار کر چکا ہوں ۔ اس نے کہا کہ فائر کرنا تو درکنار، میں تم کو چھوڑوں گا بھی نہیں ، تم ہماری کمپنی کے لیے بہت قیمتی ہو۔
اس شخص کا نام جِب اسٹوارٹ میگرو ڈر (Jeb Stuart Magruder) تھا۔ میں نےصغیر اسلم صاحب سے پوچھا کہ آپ نے اس کے ساتھ اتنی سخت گفتگو کی ، پھر بھی وہ آپ کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوا، اس کا سبب کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ جانتا تھا کہ میں کمپنی کےلیے ایک مفید شخص ہوں۔ اپنے ذاتی جذبات پر اس نے کمپنی کے مفاد کو غالب رکھا۔
مذکورہ امریکی نے ذاتی رنجش کے باوجود صغیر اسلم صاحب کی قدر دانی کی ۔ یہ اعتراف اوریہ بلند حوصلگی جو امریکہ کے ایک شرابی میں پائی جاتی ہے ، وہ آج ہماری بڑی بڑی دینی شخصیتوں میں بھی موجود نہیں۔ ذاتی رنجش کے بعد کسی کی صلاحیت کا اعتراف بلا شبہ اعلی ترین اخلاقی قدر ہے،مگرہمارے تمام اکابر اس اخلاقی قدر سے مکمل طور پر خالی ہیں۔
ایک امریکی نوجوان سے ملاقات ہوئی ۔ اس کا ایک پاؤں کسی حادثہ میں ضائع ہو گیا تھا اور اس کی جگہ اس نے مصنوعی پاؤں لگا رکھا تھا۔ یہ نوجوان ایک پرکشش شخصیت کا مالک تھا، مگر پاؤں کا کھونا اس کے لیے ایک ناقابلِ تلافی محرومی بنا ہو ا تھا۔ یہ دیکھ کر بڑی عبرت ہوئی۔ میں نے کہا کہ انسان کا جسم ایک بے حد قیمتی مشین ہے ۔ مگر اس مشین کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں ایسا کوئی کارخانہ نہیں جہاں اس زندہ مشین کے اسپیر پارٹ (Spare Parts) تیار ہوتے ہوں۔ انسان کے لیے اپنی کمیوں کی تلافی کی صورت صرف ایک ہے –––––– وہ اپنے خالق کو راضی کرے تاکہ بعد کو آنے والی دنیا میں وہ اس کو ایک ابدی اور بے نقص جسم عطا کر دے ۔
ایک تعلیم یافتہ عیسائی نے کہا کہ میں نے اسلام کا مطالعہ شروع کیا ہے ۔ مگر بعض سوالات میرے ذہن کو الجھارہے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ وہ کون سے سوالات ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اسلام میں غلامی کا مسئلہ، پیغمبر کا کئی شادیاں کرنا ، حجرِ اسود کو چومنا ، وغیرہ ۔
میں نے کہا کہ اسلام یا کسی بھی نظام کا مطالعہ کرنے کا یہ طریقہ درست نہیں ۔ ہر مذہب یا ہر نظام میں کچھ بنیادی چیزیں ہوتی ہیں اور کچھ فروعی چیزیں ۔ ایک سنجیدہ متلاشی کا کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ پہلے زیر ِمطالعہ مذہب یا نظام کی بنیادی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرے جب ان کے بارےمیں پوری واقفیت حاصل ہو جائے ، اس کے بعد وہ وقت آتا ہے جب کہ فروعی یا ضمنی باتوں کو سمجھا جائے۔
میں نے کہا کہ اگر آپ امریکہ کے نظام ِتہذیب کو سمجھنا چاہیں تو اس کا آغاز آپ یہاں سے نہیں کریں گے کہ امریکہ کے سابق صدر رونالڈ ریگن اپنی جیب میں ہمیشہ سونے کی نعل کیوں رکھتے تھے۔ مطالعہ کا یہ طریقہ درست نہ ہوگا ۔ اس کے برعکس آپ یہ کریں گے کہ پہلے امریکہ کی تاریخ ، اس کے علوم ، اس کے قانون اور اس کے صنعتی اور تجارتی طریقوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ یہی طریقہ علمی طریقہ ہے اور یہی طریقہ آپ کو اسلام کے مطالعے میں بھی اختیار کرنا چاہیے۔
یہاں بہت سے نو مسلم امریکیوں سے ملاقات ہوئی ۔ مثلاً39سالہ پال یوسف جیول (Paul Yusuf Jewell) جو سفید فام نسل سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اور سراج وهاج جو سیاہ فام نسل میں پیدا ہوئے اور پھر اسلام قبول کیا۔ کانفرنس میں بھی بڑی تعداد میں نومسلم امریکی آئے ہوئے تھے ۔ ان میں سے بعض نے وہاں تقریریں بھی کیں ۔
ایک خاص بات یہ محسوس ہوئی کہ نو مسلم امریکیوں میں ، دوسرے مسلمانوں کے مقابلےمیں، زیادہ ایمانی جوش اور زیادہ جذبہ ٔعمل پایا جاتا ہے ۔ لوگوں کے ذریعہ یہاں کے جو حالات معلوم ہوئے ، ان سے اندازہ ہوا کہ یہاں کی سیاہ فام نسل میں اسلام کی اشاعت کے زبر دست امکانات پائے جاتے ہیں۔ اگر یہاں کے مسلمانوں میں دعوتی جذبہ پوری طرح بیدار ہو جائے اور وہ سیاہ فام نسل میں اسلام کی تبلیغ بڑے پیمانے پر شروع کر دیں تو عین ممکن ہے کہ ان کی پوری قوم اسلام میں داخل ہو جائے ۔
امریکہ میں اظہار ِخیال اور اشاعتِ افکار کی مکمل آزادی ہے ۔ یہاں وہ منافقت بھی نہیں کہ کاغذ پر کچھ لکھا ہو اور عمل کسی اور چیز پر کیا جاتا ہو ۔مسلمان اگر اس امکان کو استعمال کریں اور یہاں کی سیاہ فام نسل کو اسلام کے حلقےمیں داخل کر لیں تو اس کے بعد امریکہ میں ایک نئی تاریخ کا آغا ز ہو جائے گا ۔
امریکہ میں اس وقت یہودی غلبہ قائم ہے ۔ اگر مذکورہ واقعہ رونما ہو سکے تو یہ منحوس غلبہ ختم ہو کر یہاں ایک نیا صحت مند غلبہ شروع ہو جائے گا۔ بعض اعلیٰ تعلیم یافتہ امریکیوں کے خیالات ملنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہاں کے سنجیدہ لوگ یہودی غلبے کو بالکل پسند نہیں کرتے مگر اسلام کے سوا کوئی چیز نہیں جو امریکہ سے اس منحوس غلبہ کو ختم کر سکے۔ یہاں آکر اسلام خود امریکہ کی اپنی ایک ضرورت بن جاتا ہے۔
پاکستان میں راقم الحروف کی تمام کتابیں چھپ گئی ہیں اور وہاں عام طور پرملتی ہیں۔ یہاں کے ایک پاکستانی مسلمان نے کراچی سے "ظہور اسلام "حاصل کی تھی اور اس کو پڑھ چکے تھے ۔ انھوں نے کہا کہ آپ نے اس کتاب کے ایک باب (حسنین : تاریخ کے دو علامتی کردار ) میں نواسہ ٴرسول کے خلاف قلم اٹھایا ہے ، یہ کہاں تک درست ہے ۔ میں نے کہا کہ میں نے اس کے سوا اور کچھ نہیں کیا ہے کہ حسینؓ کے عمل کے مقابلے میں حسنؓ کے عمل کو ترجیح دی ہے، اور وہ بھی بہر حال نواسۂ رسول تھے ۔
پھر میں نے کہا کہ حسینؓ اور حسنؓ کا معاملہ امت کے لیے ایک آزمائش ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے سے اسلام کی ابتدائی تاریخ میں دو رول ماڈل (Role models) رکھ دیے تھے ۔ ایک رول ماڈل (نمونہ عمل) حسینؓ کا ، جس سے امت کو باہمی خوں ریزی کے سوا کوئی بھی مثبت فائدہ نہیں ملا۔ دوسرا رول ماڈل حسنؓ کا، جس سے اسلام اور امت اسلام کو زبردست فائدہ ےحاصل ہوئے (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ، ظہور اسلام )
اب اللہ آپ کا امتحان لے رہا ہے کہ آپ دونوں میں سے کس رول ماڈل کو اپنے لیے اختیار کرتے ہیں۔ حسینؓ کے رول ماڈل میں چونکہ جاہ طلب اور سیاست پسند لوگوں کے لیے گنجائش نکلتی ہے، اس لیے لوگ اس کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ مگر واقعات ثابت کرتے ہیں کہ جن لوگوں نے اس رول ماڈل کو اپنایا، انھوں نے دوبارہ اسلام کی تاریخ میں بربادی کے سوا کسی اور چیز کا اضافہ نہیں کیا۔ جب کہ حسنؓ کا رول ماڈل اپنانے والوں نے ہمیشہ تاریخ میں مثبت اضافے کیے ہیں ۔
ایک مجلس میں میں نے دیکھا کہ ایک صاحب روس کو برا کہہ رہے ہیں اور دوسرے صاحب امریکہ کو۔ میں نے کہا کہ روس اور امریکہ میں داخلی حالات کے اعتبار سے ضرور فرق ہے، مگر جہاں تک خارجہ پالیسی کا تعلق ہے ، دونوں کے درمیان کوئی بنیادی فرق نہیں ۔ دونوں میں سے کسی کی بھی خارجہ پالیسی اصول کی بنیاد پر قائم نہیں۔ وہ تمام تر استحصال کی بنیاد پر چلائی جارہی ہے۔
مثلاً افغانستان اور فلسطین کے معاملے کو تقابلی طور پر دیکھئے ۔ افغانستان میں روس مقامی کمیونسٹ عناصر کا حامی ہے ، اور امریکہ مقامی مسلم مجاہدین کا۔ اس کے بر عکس فلسطین میں امریکہ اسرائیل کا حامی اور سر پرست بنا ہوا ہے ، اور روس فلسطینی مسلمانوں کی تنظیم کی پشت پناہی کر رہا ہے ۔ گویا افغانستان میں روس امریکی کردار ادا کر رہا ہے اور فلسطین میں امریکہ روسی کردار ادا کرنے میں مشغول ہے ۔
اس اعتبار سے جنرل ضیاء الحق اور ڈاکٹر نجیب الله دونوں کا کیس ، باعتبارِ نوعیت تقریبا ً یکساں ہے۔ ضیاء الحق امریکہ نواز پالیسی پر کاربند تھے ، اس لیے وہ امریکہ کے مطلوب شخص بن گئے۔ اس کے برعکس نجیب اللہ روس نواز پالیسی پر عامل ہیں ، اس لیے وہ روس کے مطلوب شخص بنے ہوئے ہیں ۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی نفسیات بھی بڑی عجیب ہے ۔ امریکہ ظالم اسرائیل کی حمایت کر کے مسلم دنیا کے لیے سب سے بڑا مسئلہ پیدا کیے ہوئے ہے۔ ضیاء الحق اسی امریکہ کے حامی بن جاتے ہیں۔ اس کے باوجود ضیاء الحق کو یہ خوش قسمتی حاصل ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے اکابر ان کو مجاہد اسلام کا ٹائٹل عطا کریں۔ دوسری طرف نجیب اللہ اشتراکی روس کے حامی بنتے ہیں تو ان کے حصے میں یہ بدقسمتی آتی ہے کہ اکا برِ ملت ان کو غدار کے لقب سے نوازتے ہیں ۔
ایک دیندارمسلمان سے پاکستان کے الکشن (نومبر 1988) کے بارےمیں گفتگو ہوئی جس میں اسلامی اتحاد کو شکست دے کر بے نظیر بھٹو نے کامیابی حاصل کی ہے ، اور اب وہ کسی مسلم ملک کی پہلی خاتون وزیر ِاعظم کی حیثیت حاصل کیے ہوئے ہیں۔ مذکورہ مسلمان نے اس پر اپنے درد کا اظہار کر تے ہوئے کہا کہ "سقوط ِخلافت کے بعد یہ مسلم دنیا کے لیے دوسرا سب سے بڑا حادثہ ہے "۔ میں نے کہا کہ ایک لفظی ترمیم کے ساتھ مجھے آپ کے تبصرہ سے اتفاق ہے ۔ وہ یہ کہ ––––– سقوط خلافت کےبعد یہ مسلم دنیا کے لیے دوسرا سب سے بڑا سبق ہے ۔
پہلی عالمی جنگ کے بعد ترک خلافت کی حمایت میں جو ہنگامہ خیز تحریک چلائی گئی ، وہ گویا دیمک زدہ لکڑی پر" ملٹی اسٹوری بلڈنگ " کھڑا کرنے کی کوشش تھی ۔ چناں چہ عین فطری قانون کے مطابق وہ ناکام ہو گئی۔ اسی طرح پاکستان میں اسلامائزیشن کا ساڑھے گیارہ سالہ فوجی عمل کیا گیا۔ وہ بھی گویا بیچ ڈالے بغیر پھاوڑے کے ذریعہ فصل کاٹنے کی کوشش تھی جو دوبارہ خود فطری قانون کےتحت بے فائدہ ثابت ہوئی ۔
پیغمبرانہ طریقہ تزکیہ اور تدریج کا طریقہ ہے۔ یعنی پہلے ذہن بنایا جائے، اس کے بعد دھیرے دھیرے عملی احکام کا نفاذ کیا جائے۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر حالات پیدا کیے بغیر نہ بین اقوامی اسلامی خلافت قائم ہوسکتی اور نہ قومی اسلامی حکومت۔مگر مسلم رہنماؤں نے یہ اصلی اسلامی سبق نہ پہلے لیا اور نہ اب وہ ایسا سبق لے رہے ہیں۔ جس واقعہ سے سبق کی غذا حاصل کر نا تھا ، اس کو وہ ماتم سرائی کے خانے میں ڈالے ہوئے ہیں ۔
امریکہ کے لیے روانہ ہونے سے پہلے دہلی میں میری ملاقات ایک مسلمان سے ہوئی۔ انھوں نے ہندستانی مسلمانوں پر مظالم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج کی دنیا میں اگر کوئی چیز سب سے زیادہ بے قیمت ہے تو وہ ہندستانی مسلمان ہے ، مگر امریکہ کے سفر میں مجھ کو جو معلومات حاصل ہوئیں، اس کے بعد اندازہ ہوا کہ معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندستانی مسلمان آج سونے اور چاندی سے بھی زیادہ قیمتی حیثیت رکھتا ہے۔
یہاں مجھے معلوم ہوا کہ جو مسلم قائدین ہندستان میں" مسلمان خطرہ میں" والی سیاست کے چیمپین بنے ہوئے ہیں۔ وہ دراصل ہندستانی مسلمانوں کی لاشوں کے بہت بڑے تاجر ہیں ۔ یہ لوگ امریکہ میں (اور اسی طرح دوسرے دولت مند ملکوں میں )جاتے ہیں اور وہاں مسلمانوں کے اوپر ظلم کی داستانیں بتاکر بہت بڑی بڑی رقمیں حاصل کرتے ہیں۔ ہندستان کے اور دوسرے ملکوں کے مسلمان جو یہاں کافی دولت کمارہے ہیں، ظلم اور تعصب کی داستانیں سن کر ان کے اندر قومی ہمدردی کا جذبہ جاگتاہے ، اور وہ مختلف طریقوں سے بڑی مقدار میں رقمیں جمع کر کے ان نام نہادقائدین کو دےدیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ قائدین لاشوں کے تاجر ہیں ، اگر چہ نادان لوگ ان کو اپنا نجات دہندہ سمجھے ہوئے ہیں ۔
امریکی معاشرہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہاں تقریباً ہر آدمی مقروض ہوتا ہے۔ کار، مکان اور اس طرح کی دوسری قیمتی چیزیں عام بینکوں سے سودی قرض لے کر حاصل کی جاتی ہیں۔ یہ قرض محدود آمدنی والے بھی لیتے ہیں اور زیادہ آمدنی والے بھی۔ محدود آمدنی والوں کے لیے وہ ایک ضرورت ہے۔ عام طور پر لوگ اپنا خرچ بڑھائے رہتے ہیں۔ اس لیے وہ رقم پس انداز نہیں کر پاتے اور قیمتی چیزیں حاصل کرنے کے لیے انھیں بینکوں کی مدد لینی پڑتی ہے۔ تاہم بزنس والے لوگ جن کی آمدنی زیادہ ہوتی ہے، وہ بھی تقریباً صد فی صد مکانات قرض پر حاصل کرتے ہیں۔
دکتور کمال کامل عبدالحمید نمر( پیدائش 1937) ایک فلسطینی عرب ہیں ۔ وہ تقریباً دس سال سے امریکہ میں ہیں۔ آج کل وہ سعودی اکیڈمی (واشنگٹن )میں کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے امریکی مسلمانوں کے بارےمیں کئی سال تک ریسرچ کی ہے اور اس موضوع پر وسیع معلومات رکھتے ہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ کو لمبس سے بہت پہلے دسویں صدی عیسوی میں اسپین کے آٹھ مسلمان امریکہ کے جنوبی ساحل پر اتر چکے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ آج تو یہاں بسنے والے عرب خاندان اپنی عربی زبان بھول چکے ہیں۔ ان کی بیشتر تعداد نے عیسائی عورتوں سے شادیاں کرلی ہیں۔ مگر ان کو ایک بوڑھی عرب خاتون نے بتایا کہ میرے والد 1885 میں امریکہ آنے کے لیے کشتی پر سوار ہوئے۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا امریکہ میں مسجد ہے۔ کشتی والوں نے بتایا کہ نہیں۔ وہ ایسے کافر ملک میں جانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور فوراً کشتی سے اتر آئے (خَشِيَ أَنْ يُهَاجِرَ إلَى بِلَادِ الْكُفْرِ تِلْکَ وَ أَسْرَعَ بِمَغْادِرَةِ الْقَارِبِ عَلَى الْفَوْرِ)
اسی طرح انھوں نے اور بہت سی معلوماتی باتیں بتائیں ۔ 1892 میں امریکہ کا پہلا عربی رسالہ جاری ہوا جس کا نام " کو کب امریکا " تھا۔ نارتھ ڈاکوٹا کے شہر روس (Russ) میں یہاں کا پہلا جمعہ 1900 میں قائم ہوا۔ مشی گان کے شہر ہائلینڈ پارک میں 1919 میں پہلی باقاعدہ مسجد تعمیر کی گئی۔ مگر افسوس کہ اب وہ چرچ ہے (وهو الآن مع الأسف كنيسة ) اس وقت امریکہ میں 400سےزیادہ باقاعدہ مسجدیں ہیں ۔ گھروں کی سیکڑوں مسجدیں اس کے علاوہ ہیں ۔
انھوں نے ایک دلچسپ بات یہ بتائی کہ 1856 میں امریکہ نے عرب سے 33 اونٹ خریدے تھے جو کشتی کے ذریعہ امریکہ لائے گئے تاکہ یہاں کے جنوبی علاقے میں ان سے بار برداری کا کام لیا جاسکے ۔ مگر آج یہ حال ہے کہ خود عرب ممالک امریکہ سے کار اور ہوائی جہاز خرید رہے ہیں۔
ان کے بیان کے مطابق ، عربوں کے مقابلے میں دوسری قوموں کے لوگ اپنی زبان اور اپنےکلچر کی حفاظت کے معاملے میں زیادہ سخت ہیں۔ ایک عرب ایک بار ایک یہودی کے گھر گئے ۔ انھوں نے دیکھا کہ اس کا لڑکا ایک کونے میں دونوں ہاتھ اوپر کیے ہوئے ایک پاؤں پر کھڑا ہے اور رو رہا ہے ۔ دریافت کرنے پر یہودی نے بتایا کہ میں اس سے کہتا ہوں کہ گھر کے اندر عبرانی زبان بولو مگر وہ نہیں بولتا۔ اسی کی یہ سزا ہے ۔ ایک بوڑھے عرب نے انھیں بتایا کہ میرے لڑکے عرب اخلاق اور عرب زبان کو بھول چکے ہیں۔ اس نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ میرا اپنا گناہ ہے۔ میں نے اپنے بچوں کو امریکہ میں لاکر جرم کیا ہے (إِنَّہُ ذَنْبِي إَنَا - لَقَدْ أَجْرَمتُ بِإِحْضَارِ ابْنَائيی اِلَی أَمْرِیکَا)
نئی نسل اگر چہ امریکی سماج میں گھل مل گئی ہے۔ مگرقدیم نسل سخت غیر مطمئن ہے ۔ ایک بوڑھاعرب جو امریکہ کا شہری بن چکا ہے اور یہاں خوش حال زندگی گزار رہا ہے۔ اس نے دکتور نمر سے کہا کہ میری بدقسمتی ہے کہ میں امریکہ کے موٹر ساز کارخانہ میں محنت کر کے ڈالر کما تا رہا۔ یہی محنت اگر میں خود اپنے ملک میں کرتا تو وہاں بھی میں اپنے لیے ایک اچھی زندگی بنا سکتا تھا (وَلِسُوءِ الْحَظِّ فَقَدْ بَذَلْتُ مِنْ الْجُهْدِ فِي مَصَانِعِ السَّيَّارَاتِ مَا إنْ لَوْ بَذَلْتُہُ فِي بَلَدِي لَعِشْتُ أَفْضَلَ حَيَاةٍ)
امریکہ کے مسلمان مجھے ایک بڑے تضاد میں مبتلا نظر آئے ۔ یہاں آپ جس مسلمان سے بھی ملیں وہ آپ کو اس غم میں مبتلا نظر آئے گا کہ اس کے بچے "اسلامی تہذیب" سے دور ہوتے جارہےہیں۔ دوسری طرف ان مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ان میں سے ہر شخص (الا ماشاء اللہ ) سودی قرض پرزندگی گزار رہا ہے۔ بچوں کی تہذیبی شناخت کے معاملے میں ان کا اسلامی احساس زندہ ہے ، مگر اپنے آپ کوسودی قرض سے بچانے کے معاملے میں ان کا اسلامی احساس زندہ نہیں ۔
یہاں عام طور پر لوگ دوسبب سے سودی قرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ایک شخص ہے جس نے نیا نیا روزگار حاصل کیا ہے۔ اس کے پاس اپنے روزمرہ کے خرچ کے لیے تو معقول رقم ہوگی۔ مگر اس کے پاس اتنی رقم نہ ہوگی کہ وہ فوراً کار اور مکان بھی حاصل کر لے۔ اب ایک صورت یہ ہے کہ وہ دس سال تک کما کر رقم بچائے اور دس سال کے بعد کار اور مکان حاصل کرے۔ مگر ماحول کے زیر اثر وہ اس انتظار پر راضی نہیں ہوتا اور فوراً ہی کار اور مکان کا مالک بن جانا چاہتا ہے ۔ یہاں بینک اس کی مدد کرتا ہے اور کار اور مکان اور دوسری قیمتی چیزوں کے لیے اس کو سودی قرض فراہم کر دیتا ہے۔ اس طرح آدمی سودی قرض میں پھنس جاتا ہے اور پھر تمام عمر اس سے نکلنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔
کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے پاس رقم موجود ہوتی ہے (مثلاً تاجر حضرات ) مگر وہ بھی مکان جیسی زیادہ قیمتی چیزوں کو نقد خرید نا پسند نہیں کرتے ۔ وہ بینک سے قرض لے کر مکان خریدتے ہیں۔ اور خود اپنی رقم کو کاروبار میں لگا دیتے ہیں۔ کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بینک کو جتنا سود ادا کریں گے،اس سے زیادہ وہ کاروبار میں نفع کما کر حاصل کر لیں گے۔
امریکی مسلمانوں کا یہ تضاد بتاتا ہے کہ اپنے بچوں کی تہذیبی پہچان کے لیے ان کا غم اسلامی غم نہیں ہے ۔ اگر وہ اسلامی غم ہوتا تو اس کا اثر دونوں معاملات میں ظاہر ہوتا۔ یہ قومی جذبے کے تحت ہے نہ کہ حقیقتاً اسلامی جذبےکے تحت۔ اور یہ قومی جذبہ جس طرح مسلمانوں میں ہے اسی طرح وہ پوری شدت کے ساتھ دوسری قوموں میں بھی پایا جاتا ہے (ملاحظہ ہو مسٹر رام بکسانی کا بیان،مطبوعہ قومی آواز ، 4 جنوری 1988 ، صفحہ 2)
اس معاملہ کا اس سے بھی زیادہ عجیب پہلو یہ ہے کہ یہاں کے تمام مسلمان اس بات کی شکایت کرتے ہوئے نظر آئیں گے کہ امریکہ کی اقتصادیات پر یہودیوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ یہاں کی بینکنگ پوری طرح ان کے ہاتھ میں ہے۔ وہ یہاں کی دولت پر قبضہ کرکے اس کو بھر پور طور پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ مگر یہ بات صرف زبانی مذمت تک محدود ہے۔ عملی طور پر یہاں کا تقریباً ہر مسلمان یہودی اقتصادی اداروں سے سودی قرض لے کر ان کو تا عمر اپنی کمائی کا ایک حصہ ادا کرتا ہے تاکہ وہ خود اس کے اپنے اقرار کے مطابق، اس کو اسلام اور مسلمانوں کی جڑاکھاڑنے میں لگائیں ۔
لاس اینجلیس کی ایک خاتون بلی روتھ (Billie Ruth) نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ قبولِ اسلام کا سبب پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ میں ۱۸ سال پہلے کی عمر میں چرچ جاتی تھی۔ وہاں مجھے مسیحیت کے بارےمیں عجیب تجربہ ہوا۔ میں نے پایا کہ جو کچھ میں بائبل میں پڑھتی ہوں اور جو کچھ میں چرچ کے اندر سنتی ہوں ، دونوں ایک نہیں ہیں۔ میں نے سوال کرنا شروع کیا اور چرچ سوسائٹی کو چھوڑ دیا :
1 found that what I read in the Bible and what I heard in the Church was not the same. I started questioning and I dropped out of church society.
بعد کے مرحلے میں انھوں نے قرآن کو پڑھا اور اسلام قبول کر کے ایک انڈونیشی مسلمان (سلیمان) سے شادی کرلی، مطالعےکے بعد انھوں نے پایا کہ اسلام واحد مذ ہب ہے جس میں جو کچھ لکھا ہےوہی بتایا بھی جاتا ہے :
Islam is the only religion that reads and teaches the same.
بعض لوگ اس واقعےکو اسلامی دعوت کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کی عملی زندگیاں اسلام کے مطابق نہیں ہیں۔ مگریہ صورت حال کسی بھی درجے میں اسلامی دعوت کی راہ میں رکاوٹ نہیں ۔ عیسائیت ایک منظم مذہب ہے، اس بنا پر اس میں مذہب کے دو معیار بن گئے ہیں۔ ایک ان کا چرچ ، دوسر ے ان کی کتابِ مقدس۔ ان دونوں میں اگر فرق یا تضاد ہو تو وہ خود مسیحی مذہب کو مشتبہ قرار دینے کا سبب بن جائے گا۔ اس کے برعکس اسلام میں اصل معیار صرف ایک ہےاور وہ اس کی کتاب ِمقدس ہے۔ اس لیے مسلمانوں کا خلافِ اسلام عمل ، خالص نظریاتی اعتبار سے ، اسلامی دعوت کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ مسیحیت میں ریڈنگ اور ٹیچنگ کا فرق پیدا ہو گیا ہے۔ اس کے برعکس ، اسلام میں صرف ریڈنگ اور پریکٹس کا ۔
امریکہ اور دوسرے مغربی ملکوں میں بڑی تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے۔ ان نو مسلموں کے ذریعہ وہی دعوتی عمل دوبارہ زندہ ہونا چاہیے تھا جو دور اول کے نومسلموں کے ذریعہ ساری دنیا میں زندہ ہوا تھا۔ مگر عملاً ایسا نہ ہو سکا۔ محمد علی کلے (پیدائش 1942) ایک امریکی نو مسلم ہیں۔ ان کے اندر ابتداءً دعوت کا جذبہ تھا۔ مگر شاید میں عظیم ہوں (I am the greatest) کے شوق سے وہ چھٹکارا حاصل نہ کر سکے۔ اپنے کو سب سے بڑا ثابت کرنے کے لیے وہ بار بار باکسنگ کا خوفناک کھیل کھیلتے رہے۔ آخری کھیل (1981) ان کے لیے سخت مہلک ثابت ہوا۔ ان کےسر میں ایسی چوٹیں آئیں جس سے ان کا دماغی توازن بگڑ گیا ۔
محمد علی کے پاس شکاگو میں 16 کمروں کا نہایت وسیع مکان ہے ۔ وہ دو فارم کے مالک ہیں۔ جدید ترین گاڑیوں کا ایک پورا دستہ موجود ہے۔ بہت بڑا بینک بیلنس اس کے علاوہ ہے۔ مگر محمدعلی اب خود کچھ بھی نہیں ۔ وہ آج ایک ختم شدہ طاقت (Spent force) بن چکے ہیں۔ اب وہ عام انسان کی حیثیت سے بھی زندگی گزارنے کے قابل نہیں ، اسلامی داعی کی ذمہ داریوں کو ادا کرنا تو درکنار۔
اس سلسلے میں ایک عجیب مثال بلی روتھ سلیمان (Billie Ruth Suleiman) کی ہے۔ اس امریکی نومسلمہ سے پوچھا گیا کہ زندگی میں آپ کی خواہش کیا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ مجھے مدینہ سے گہری محبت ہے۔ اگر مجھے رہنے کے لیے کوئی ایک جگہ دی جائے تو میں پیغمبر کی مسجد کے قریب ترین رہنا پسند کروں گی :
O, I have deep love for Madina. If I were given one place to live, I would choose to be as close as possible to the Prophet's Mosque.
میرا خیال ہے کہ اس قسم کے احساسات موجودہ مسلم سماج کا نتیجہ ہیں نہ کہ اسلامی تعلیمات کا ۔ موجودہ مسلمان نہ صرف یہ کہ خود اسلامی دعوت کا کام نہیں کر رہے ہیں۔ مزید یہ کہ کوئی شخص اگر قرآن کو پڑھ اسلام قبول کرتا ہے تو اس کے لیے بھی وہ" ہر چیز کہ در کان نمک رفت نمک شد" کا مصداق ثابت ہوتے ہیں۔ کیوں کہ اسلام قبول کر کے وہ جس سماج میں داخل ہوتا ہے وہ اس قسم کے نغموں سے گونج رہاہے :
میرے مولا بُلالے مدینے میں
ماہنامہ برہان (نومبر1988) میں ایک واقعہ پڑھا۔ مطبوعہ الفاظ کے مطابق وہ یہ تھا : "امریکہ میں مقیم تحریک اسلامی کے ایک ذمہ دار بزرگ ڈاکٹر عرفان احمد صاحب نے2-5 جولائی 1988 کو علی گڑھ میں انٹر نیشنل اسلامک فیڈریشن آف اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن IFSO کے تحت منعقدہ ٹریننگ کیمپ میں تقریر کرتے ہوئے مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی ایک بات نقل کی۔ ایک بار دوران گفتگو مولانا نے امریکہ کی آزادی اور سیکولرزم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سوویت سیکولرزم اور ہندستانی سیکولرزم کے مقابلے میں امریکی سیکولرزم کم خطرناک ہے ۔ اس پر میں نے مولانا کی سادہ لوحی پر تعجب کا اظہار کیا اور عرض کیا کہ مولانا، امریکہ میں بسنے والے مسلمان عالمی دشمنِ اسلام نمبر ایک امریکہ ہی کو قرار دیتے ہیں ، اور وہ اس مسئلے میں اتنے حساس ہیں کہ اگر ان سے سوال کیا جائے کہ دنیا کا سب سے بڑا دشمن کون ہے تو چھوٹتے ہی وہ امریکہ کا نام لیتے ہیں" (صفحہ31-32)
یہ نہایت عجیب بات ہے کہ امریکہ میں بسنے والے مسلمان شدید حساسیت کی حد تک یہ رائے رکھتے ہیں کہ امریکہ اسلام کا دشمن نمبر ایک ہے ۔ اس کے باوجود ان کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے ملکوں کو چھوڑ کر اطمینان کے ساتھ امریکہ میں رہ رہے ہیں تاکہ اس سب سے بڑے دشمن اسلام کی مشین کا ایک پرزہ بن سکیں ۔ حتٰی کہ پہلا موقع ملتے ہی وہ امریکہ کی شہریت حاصل کر لیتے ہیں تاکہ اپنی آنے والی نسلوں تک کو اس عظیم دشمن اسلام کی خدمت گزاری کے لیے وقف کر سکیں۔ واضح ہو کہ امریکی شہریت کسی کو صرف اس وقت ملتی ہے جب کہ وہ امریکی نظام سے مکمل وفاداری کافارم بھرے ۔
تاہم اس سے قطع نظر، ذاتی طور پر مجھے دونوں میں سے کسی رائے سے بھی اتفاق نہیں۔ میرے نزدیک یہ بات بالکل اضافی ہے کہ کون دشمن نمبر1 ہے اور کون دشمن نمبر 2۔ اصل چیز دیکھنے کی یہ ہے کہ ظاہری ناموافق حالات کے باوجود امکانی طور پر مواقع کار کہاں پائے جاتے ہیں۔ موانع کودیکھنا اور مواقع کو نہ دیکھنا ہی بے بصیرتی ہے ، اور موجودہ زمانے میں ساری دنیا کے مسلمان اسی بے بصیرتی میں مبتلا ہیں ، ان کے اصاغر بھی اور ان کے تمام اکابر بھی۔
محمود السائس ایک مصری انجینیر ہیں۔ انھوں نے مصر کے بعد امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ آج کل وہ امریکہ کے ایک بڑے انجینیرنگ ادارہDatabase Systems Services) )میں منیجر ہیں۔ یہ کیلی فورنیا کی ایک کمپنی کا ادارہ ہے جو ہوائی جہاز بنانے کا کام کرتی ہے۔
محمود السائس کا کہنا ہے کہ" میں (اور اسی طرح دوسرے بہت سے لوگ جو یہاں ہیں ) وہ شناخت کے بحران (Identity crisis) میں مبتلا ہیں۔ انھوں نے امریکی شہریت حاصل کرنے کے لیے22 فروری 1978 کو ایک مخصوص فارم بھرا۔ اس کے تحت انھوں نے اس بات کا حلف لیا کہ میں ہر بیرونی وفا داری کو مکمل طور پر ترک کر کے پوری طرح صرف امریکہ کا وفادار رہوں گا۔مگر دس سال گزرنے کے بعد بھی میں دہرے جذبات کا شکار ہوں " انھوں نے کہا ۔
ایک طرف، محمود السائس کے الفاظ میں ، ان کے معاہداتی فرائض (Contractual obligations)ہیں جن کا تعلق امریکہ سے ہے۔ دوسری طرف ان کے جذباتی احساسات (Sentimental feelings) ہیں جو ان کے سابق وطن مصر سے وابستہ ہیں ۔ یہ بتاتے ہوئے انھوں نے جذباتی انداز میں کہا کہ ان دونوں چیزوں کے درمیان میں اپنی شخصیت کو متعین نہیں کر پاتا۔ کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ میری اصل قومیت کیا ہے :
Can you tell me what my true nationality is?
میرا اندازہ ہے کہ یہی ان تمام لوگوں کا حال ہے جنھوں نے یہاں کی شہریت حاصل کرلی ہے۔ ہر ایک دہری شخصیت کا انسان بنا ہوا ہے ۔ کچھ لوگ کش مکش میں مبتلا ہیں ۔ کچھ لوگ چھوڑ کر دوبارہ اپنے سابق وطن چلے گئے ۔ اور کچھ لوگوں نے اس جھنجٹ سے نجات حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو اس حد تک امریکی بنالیا کہ اب وہ غیر ذبیحہ کھاتے ہیں۔ اور "عید"کے بجائے" کرسمس" کو اپنےتیوہار کے طور پر مناتے ہیں ۔
مسلمان اگر مغربی ملکوں میں داعی بن کر آتے تو وہ وہی تاریخی کارنامہ انجام دیتے جو صحابہ کرام نے عرب کے باہر دوسرے ملکوں میں جا کر انجام دیا۔ مگر وہ داعی بن کر نہیں آئے نتیجہ یہ ہوا کہ وہ صرف دوسری قوموں کے مدعو بن کر رہ گئے ۔
امریکی مسلمانوں کے بارےمیں ایک رپورٹ پڑھی جس میں بتایا گیا تھا کہ اندازہ کیا گیا ہے کہ امریکہ میں چار ملین کی تعداد میں وہ مسلمان ہیں جو حال میں ہجرت کر کے یہاں آئے ہیں۔ اور چارملین سے کچھ زیادہ وہ لوگ ہیں جن کو پہلے بلیک مسلم کہا جاتا تھا، مگر اب وہ بقیہ مسلمانوں کے ساتھ شامل ہو چکے ہیں اور صرف مسلم کہے جاتے ہیں۔ یہ مسلمان چار ہزار سے زیادہ مسجدوں اور کلچرل مراکز میں اپنے مذہبی اعمال ادا کرتے ہیں :
In the U.S. it is estimated that there are 4 million Muslims of recent immigrants, and more than that of what was referred to, and is no more, of the black Muslims, because now the black Muslims have joined ranks with the rest and are all called Muslims. These Muslims practice their religion in over 400 smaller or larger mosques or cultural centers.
امریکہ کے کالے باشندوں (نیگرو) کو پہلے غلام سمجھا جاتا تھا ۔ تاہم اب انھیں قانونی طور پر یکسیاں شہری حقوق حاصل ہیں۔ اگر چہ اپنی تعلیمی پسماندگی کی بنا پر وہ اس قانونی امکان سے ابھی پورا فائدہ اٹھانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں ۔
امریکہ کے بعض نئے مفکرین نے سفید فام باشندوں اور سیاہ فام باشندوں کے درمیان یکساں حقوق کی وکالت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کے سیاہ فام باشندے مختلف مگر یکساں (Different but equal) ہیں۔ یہ نہایت صحیح تعبیر ہے۔ ٹھیک یہی معاملہ عورت اور مرد کے فرق کا بھی ہے ۔ عورت مرد سے مختلف ہے ، مگر حقوق اور انسانی احترام میں وہ یکساں ہے۔ لیکن امریکی مفکرین نے جس حقیقت کو سیاہ فام اور سفید فام باشندوں کے معاملے میں سمجھ لیا ہے ، وہ اس حقیقت کو ابھی تک عورت اور مرد کےمعاملے میں سمجھ نہ سکے ۔
اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ سفید فام اور سیاہ فام کے مسئلہ پر انھوں نے کھلے ذہن کے تحت سوچا، اس لیے وہ اس کی حقیقی نوعیت کو سمجھ گئے ۔ مگر عورت اور مرد کے معاملے میں سوچتے ہوئے ان کی خواہش رکاوٹ بن گئی۔ اس نفسیاتی پیچیدگی کی بنا پر وہ اس دوسرے معاملے میں اس کی حقیقی نوعیت کو سمجھنے میں ناکام رہے ۔
امریکہ کے سیاہ فام باشندوں کو نیگرو کہا جاتا تھا۔ ان کی حیثیت وہاں بالکل غلام کی سی تھی ۔ اس کے رد عمل میں ان کے درمیان مختلف تحریکیں اٹھیں ۔ ایک تحریک کے قائد الیجا محمد تھے ۔ انھوں نے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا اور اپنا مذہب اسلام بتایا ۔ ان کے پیروبلیک مسلم کہے جاتے تھے۔
1975 میں الیجا محمد کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد ان کے لڑکے وارث دین محمد ان کے جانشین مقرر ہوئے ۔ وارث محمد نے جلد ہی پورے نظام کو بدل دیا۔ انھوں نے اپنے فرقہ کے لیے "بلیک مسلم "کے بجائے" امریکن مسلم" کی اصطلاح استعمال کی ۔ انھوں نے اس سے انکار کیا کہ ان کے والد پیغمبر تھے۔ انھوں نے خالص اسلام (Pure Islam) کو اختیار کرنے کا اعلان کیا، یعنی وہی اسلام جو دوسرے تمام مسلمانوں کا ہے۔ انھوں نے امریکی حکومت سے وہ رقابت بھی ختم کردی جو ان کے والد غیر ضروری طور پر قائم کیے ہوئے تھے ۔ فرقہ کے کچھ افراد نے ان کی مخالفت کی، مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے ۔ 1960 میں ان لوگوں کی تعداد 10ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ مگر 1985 میں اس فرقے کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہو چکی تھی۔ اب ان کی تعداد چار ملین ہے ۔ اس فرقے کے بارےمیں امریکہ میں بہت سی معلوماتی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ ایک کتاب کا نام یہ ہے :
Charles E. Lincoln, The Black Muslims in America, 1982
الیجا محمد نے پیغمبر ہونے کا دعوی ٰکیا ۔ تاہم ان کی خوش قسمتی تھی کہ وہ امریکہ میں پیدا ہوئے۔ اگر وہ ہندستان یاپاکستان جیسے ملک میں پیدا ہوتے تو ان کا مستقبل بالکل دوسرا ہوتا۔ اب تک وہ اور ان کے متبعین کا فرقرار دے کر امت مسلمہ سے الگ کر دیے گئے ہوتے ۔ مگر آج الیجا محمد کے جانشین وارث محمد اپنے چارملین پیرؤوں کے ساتھ امت مسلمہ کا حصہ بن چکے ہیں ۔
ڈاکٹر میاں محمد سعید (پروفیسر جارج میسن یونیورسٹی، ورجینیا )نے بتایا کہ 1972 میں وہ ونیو زیلاکے شہر کا رکس (Carcas) گئے ۔ وہ ہوائی اڈہ پر اتر ے تو وہاں آدمیوں کا بہت بڑا ہجوم اکٹھا تھا۔ معلوم ہوا کہ یہ سب کے سب مسلمان ہیں ۔ انھوں نے پوچھا کہ یہ لوگ اتنی بڑی تعداد میں ہوائی اڈہ پر کیوں جمع ہیں ۔ مجمع میں سے ایک شخص نے کہا کہ آپ نہیں جانتے۔ آج محمد علی آنے والے ہیں۔ یہ سارے لوگ ان کے استقبال کے لیے یہاں آئے ہوئے ہیں۔ یہ واقعہ بتاتے ہوئے ڈاکٹرمیاں محمد سعید نے کہا کہ محمدعلی بلیک مسلم ہونے کی حیثیت سے الیجا محمد کا پیرو تھا۔ مگر ساری دنیا میں اس کا استقبال ایک مسلم ہیرو کی حیثیت سے کیا گیا :
He was welcomed all over the world as a Muslim hero
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ محمد علی کلے اپنے آپ کو مسلم ملت کا ایک فرد سمجھنے لگے۔ امریکہ کے کالے مسلمان عمومی طور پر مسلمانوں کے قریب آگئے ۔ یہ قربت بڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ کالے مسلمانوں کے موجودہ لیڈر وارث محمد نے حج کے لیے جانا چاہا تو ان کو بھی بلا روک ٹوک حج کی اجازت مل گئی۔ وہاں ان کی ملاقات تمام دنیا کے مسلمانوں سے ہوئی۔ اس سے ان کو اپنے خیالات کی تصحیح میں مدد ملی۔
نیو آرک (Newark) میں رابطہ عالم اسلامی کی کانفرنس ہوئی۔ اس میں وارث محمد کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ جب وہ وہاں پہونچے تو ان کا خصوصی استقبال کیا گیا۔ یہاں انھوں نے تقریر کرتے ہوئے کھلے طور پر اعلان کیا کہ ان کے باپ الیجا محمد عام انسان تھے، وہ پیغمبر نہیں تھے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت آخری طور پر ختم ہو چکی ہے ۔ ہم دوسرے مسلمانوں کے عقیدہ کو مانتے ہوئے۔ ان کے ساتھ یکساں طور پر شامل ہوتے ہیں۔ ان کے والد کا کہنا تھا کہ موجودہ زمانے میں صرف ان کی جماعت کو امت اسلام کی حیثیت حاصل ہے۔ چناں چہ اپنی جماعت کا نام انھوں نے(Last Found Nation of Islam) رکھا تھا۔ وارث محمد نے اس کو بدل کر اپنی جماعت کانام "امریکن مسلم " رکھ دیا۔ وغیرہ
قادیانی لیڈروں اور قادیانی فرقےکا معاملہ بھی عین یہی تھا۔ مگر یہاں ان کے ساتھ بالکل مختلف سلوک کیا گیا۔ صحیح طریقہ یہ تھا کہ ان کے معاملےمیں دعوت اور نصیحت کے اصول پر اصلاحی عمل کا آغاز کیا جاتا ۔ مگر مسلم علماء نے یہاں نفرت اور مناظرہ بازی اور تکفیر اور بائیکاٹ سے اپنے عمل کا آغاز کیا۔ وہ پہلے ہی مرحلہ میں ان کے دشمن بن کر کھڑے ہو گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قادیانیوں میں مزیدشدت بڑھتی گئی، وہ قریب ہونے کے بجائے اور زیادہ دور ہو گئے ۔
مسلمانوں نے محمد علی کلے کو اپنا ہیرو بنایا۔ مگر انھوں نے ڈاکٹر عبدالسلام کو اپنا ہیرو نہیں بنایا۔حالانکہ محمد علی نے جو کارنامہ باکسنگ کے میدان میں انجام دیا تھا ، وہی کارنامہ ڈاکٹر عبد السلام نے سائنس کے میدان میں انجام دیا تھا۔ اگر مسلمان دونوں کے ساتھ یکساں اخلاقی سلوک کرتے توعین ممکن تھا کہ جس طرح" امریکی قادیانی" تائب ہو کر امت مسلمہ کا جزء بن گیا ، اسی طرح پاکستانی قادیانی بھی اپنی اعتقادی اصلاح کر کے امت مسلمہ میں شامل ہو جاتا۔
واشنگٹن سے ایک عربی اخبار نکلتا ہے جس کا نام "الأمة " ہے ۔ اس کے چند شمار ےدیکھنے کو ملے ۔ یہاں کے انگریزی اخباروں کے مقابلے میں اس کا معیارِ صحافت بہت کم تھا۔ اس کےشمارہ 12 دسمبر 1988 میں صفحۂ اول پر خلیل جبران کے چند اقوال درج تھے ۔ ایک قول یہ تھا :
وَيل لأمة مقسّمة إلى أجزاء وكل جزء يَحْسَبُ نَفْسَهُ فِيهَا أُمَّة
اس قوم کے لیے خرابی ہے جو بہت سے حصوں میں بٹ جائے اور ہر جزء یہ سمجھے کہ وہی قوم ہے۔
مغربی ملکوں میں بڑی تعداد میں ہندستان اور پاکستان کے لوگ آباد ہیں۔ یہ لوگ مختلف اسلامی شخصیتوں سے متاثر ہیں اور اس کے مطابق اپنے اجتماعات کرتے رہتے ہیں۔ انھوں نےمختلف ناموں سے الگ الگ تنظیمیں بھی قائم کر رکھی ہیں ۔
اسی قسم کی ایک تنظیم کا اجتماع امریکہ میں جولائی 1988میں ہوا۔ اس کی روداد میں نے پڑھی۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ ہماری تنظیم نے مختلف مقامات پر "دعوتی اجتماعات" کیے ۔ اسی کے ساتھ درج تھا کہ " افغانستان، فلسطین اور ہندستانی مسلمانوں کے حق میں مختلف شہروں میں مظاہرے اور جہاد کا نفرنسیں منعقد کی گئیں"۔ میں اس اندازِ کار کو عملاً بے فائدہ سمجھتا ہوں۔ قومی احتجاج اور دعوتِ حق کا کام ، دونوں ساتھ ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔
رپورٹ کے مطابق، تنظیم کے جولائی 1988 کے اجتماع میں اس کے صدر نے جو تقریرکی ۔ اس کا خلاصہ یہ تھاکہ ہمارا نصب العین اسلامی نظام حکومت کا قیام ہے، اس میں دنیا کے تمام مسائل کا حل ہے ، انھوں نے گرجدار آواز میں کہا کہ مسلم نوجوان خالد و طارق کو اپنا آئیڈیل بنائیں اور انسان کو انسان کی غلامی سے نکالنے کے لیے مجاہد بن کر اٹھ کھڑے ہوں۔ ان کی جذباتی تقریر کے دوران بار بار اللہ اکبر کے نعرے لگتے رہے ۔
اس اجتماع میں مشہور انگریز نومسلم یوسف اسلام ، سابق کیٹ اسٹونس (Cat Stevens) کو بھی بلایا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق، یوسف اسلام کی تقریر کے دوران آڈیٹوریم پر مکمل سنّاٹہ چھایا رہا۔ سا معین مبہوت ہو کر ان کی گفتگو سنتے رہے ۔ ان کی تقریر کا عنوان تھا۔" روشنی کی طرف سفر"۔
انھوں نے اپنے قبول اسلام کا قصہ بتاتے ہوئے کہا کہ دولت ، شہرت ، عزت سب کچھ میرے پاس موجود تھی ، مگر دل کا سکون نہ تھا۔ ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ شراب اور منشیات کے ذریعہ سکون حاصل کرو۔ اسی دوران مجھے قرآن کا انگریزی ترجمہ مل گیا۔ اس کو پڑھ کر میرے دل کی دنیا ہی بدل گئی۔ اب مجھے معلوم ہوا کہ سکون کا اصل ماخذ کیا ہے ، قرآن نے میرے دل کے آخری گوشہ تک اپنی جگہ بنالی۔
ہندستان اور پاکستان کے" اسلام پسند" جو اپنے ملکوں کو چھوڑ کر امریکہ گئے ہیں۔ وہ وہاں بھی سیاست اور جہاد کی تقریریں کرتے رہتے ہیں ، مگر اس قسم کی تقریروں میں وہاں کے باشندوں کے لیے کوئی کشش نہیں۔ البتہ یوسف اسلام جیسے لوگوں کی آواز میں ان کے لیے بے پناہ کشش ہے ۔ مغرب کے سامنے سیاسی انداز میں اسلام کو پیش کرنا مغرب کو اسلام سے دور کرنا ہے۔ البتہ اگر مغرب کے سامنے فطرت کے انداز میں اسلام کو پیش کیا جائے تو وہاں کاانسان اس کے اندر اپنے لیے بے پناہ کشش پائے گا۔
امریکہ میں اب خدا کے فضل سے بہت سے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو الرسالہ کو خود پڑھتے ہیں اور دوسروں کو پڑھاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ابراہیم مامون صاحب نیو یارک میں مقیم ہیں۔ وہ عرصہ سے الرسالہ کے قاری ہیں۔ اب انھوں نے پانچ کی تعداد سے الرسالہ کی ایجنسی شروع کر دی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ امریکی پروفیسر ٹامس (Prof. Thomas) ان کے ملاقاتیوں میں تھے، ان کو انھوں نے الرسالہ انگریزی دیا اور مرکز کی چھپی ہوئی انگریزی کتابیں پڑھائیں پروفیسرٹامس کو یہ کتاب میں بہت پسند آئیں۔ اب وہ اسلام سے مانوس نظر آرہے ہیں ۔
اسی طرح امریکہ کے مختلف مقامات پر لوگ الرسالہ ( اردو یا انگریزی ) منگاتے ہیں۔ وہ ان کو خود پڑھتے ہیں اور دوسروں کو پڑھاتے ہیں۔
ہلٹن ہوٹل کے ایک بہت بڑے ہال کے باہر ایک خوبصورت بورڈ لگا ہوا تھا ۔ جس پر انگریزی میں لکھا ہو ا تھا : بازار۔ اس کے اندر مختلف "اسلامی "چیزوں کی دکانیں تھیں۔ اس کے زیادہ بڑے حصہ میں کتابوں کے اسٹال تھے ۔ دو بڑی میزوں پر اسلامی مرکز (دہلی) کا بھی اسٹال تھا جس پر تمام کتابیں اور الرسالہ (ار دو ، انگریزی ) رکھے گئے تھے۔ بڑی تعداد میں لوگوں نے اسے آکر دیکھا اور کتابیں حاصل کیں۔ کئی لوگوں نے پورے پورے سٹ حاصل کیے۔
صغیر احمداسلم صاحب یہاں کے ایک بڑے تاجر ہیں۔ ان کو تذکیر القرآن بہت زیادہ پسند آئی ۔ انھوں نے بار بار اصرار کیا کہ پوری تفسیر کو آڈیو کیسٹ پر لے آئیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں امریکہ میں لوگوں کے پاس پڑھنے کا وقت نہیں ، البتہ سننے کا وقت انھیں مل جاتا ہے ۔ اور یہ وقت وہ ہے جب کہ وہ کار پر سفر کر رہے ہوتے ہیں۔ یہاں کے آدمی کے پاس اگر کوئی "خالی وقت "ہے تو وہی ہے جب کہ وہ کار سے سفر کر رہا ہوتا ہے۔ اور یہ وقت روزانہ اس کو کافی مقدار میں ملتا ہے ۔ اگر تذکیر القرآن کو کیسٹ پر منتقل کر دیا جائے تو ہر آدمی اس کو اپنی کار میں رکھے گا اور سفر کے وقت روزانہ اس کو سنتا رہے گا۔
31 دسمبر 1988 کو واپسی ہوئی۔ پین ایم کی فلائٹ نمبر 120 کے ذریعہ لاس اینجلیس سے روانہ ہوا۔ دن کے بارہ بجے جہاز کے اندر داخل ہوا تو بڑے جہاز کی بیشتر سیٹیں خالی تھیں ۔ یہ غالباً اس حادثہ کا اثر تھا جو 21دسمبر کو پین ایم کے جہاز کے ساتھ پیش آیا۔ انسان زندگی کے بعد پیش آنے والی موت سے ڈرتا ہے۔ مگر موت کے بعد پیش آنے والی موت سے کسی کو اندیشہ نہیں۔
اناؤنسر نے اعلان کیا کہ ہمارا جہاز33ہزار فٹ کی بلندی پر اڑتا ہوا لندن کی طرف جارہا ہے۔ سطح زمین پر بادل چھائے ہوئے تھے ، مگر 33 ہزار فٹ اوپر پہنچ کر ماحول بدل چکا تھا۔ اب جہاز نیلے رنگ کے کھلے آسمان میں اڑ رہا تھا ۔ میں نے سوچا کہ زندگی کے تمام جھگڑ ے نچلی سطح پر پیدا ہوتے ہیں۔ اگر آپ اپنے کو اٹھا کر بلندی پر لے جاسکیں تو تمام جھگڑے اور فساداپنے آپ ختم ہو جائیں گے۔
فرینکفرٹ سے دہلی کے لیے پین ایم کی فلائٹ نمبر66 کے ذریعہ سفر ہوا۔ یہ یکم جنوری1989 کی تاریخ تھی۔ جہاز میں بیشتر ہندستانی مسافر تھے۔ چناں چہ اناؤنسر کی زبان بدل گئی۔ اس سے پہلے انگلش اور جرمن میں اعلانات کیے جارہے تھے۔ اب جہاز کے اناؤنسر نے انگلش کےساتھ ہندی میں اعلان شروع کر دیا :
ہمیں آشا ہے کہ ہمارے ساتھ آپ کی یا ترا سکھت رہے گی۔ یدی آپ کسی قسم کی سہائتا چاہیں تو ہم آپ کی سیوا میں اُپستت ہیں۔ ہم اپنے سب یاتریوں کونئے سال کی شبہ کا منائیں دیتے ہیں۔
ایک تاجر کو معلوم ہے کہ اسے اپنے گاہک سے وہی زبان بولناہے جو گاہک کی اپنی زبان ہے۔ مگر موجودہ زمانے کے داعی اس راز کو نہیں جانتے کہ وہ اپنے مدعو سے خود مد عو کی زبان میں کلام کریں۔ اگر کوئی شخص بظا ہر مدعو کی زبان میں بولنے والا ہو تو وہ بھی صرف حروف تہجی کے اعتبار سے ہوگا۔ اسلوب کلام اور انداز بیان کے اعتبار سے دیکھئے تو مدعو کے آشنا اسلوب اور اس کے مانوس انداز میں بولنے والے داعی سرے سے دنیا میں موجود ہی نہیں ۔
فرینکفرٹ سے دہلی کا سفر مغرب سے مشرق کی طرف تھا۔ یعنی سورج کے الٹی طرف۔ چناں چہ دن بہت تیزی سے ختم ہوا۔ فرینکفرٹ سے روانگی ہوئی تو دن کے ساڑھے بارہ بجے تھے۔ آٹھ گھنٹے کا سفر طے کر کے جب دہلی پہونچے تو یہاں رات کے ڈیڑھ بج رہے تھے۔ یعنی" آٹھ گھنٹہ" میں" تیرہ گھنٹہ" کا سفر طے ہوا۔
2 جنوری 1989 کو رات کے ڈیڑھ بجے جہاز دہلی پہنچا ۔ آٹھ گھنٹے کی لمبی اڑان کے بعد جب جہاز حفاظت کے ساتھ زمین پر اتر اتو مسافروں نے خوشی سے تالیاں بجائیں۔ لیکن اگر اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے کہ ہم جس زمین پر اتر ے وہ خود بھی ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے خلا میں دوڑ رہی ہے تو یہ کہنا صحیح ہو گا کہ ہم ایک جہاز سے اتر کر دوسرے جہاز پر سوار ہوئے۔ہم انسانی سواری سے نکل کر خدائی سواری میں بیٹھ گئے ۔
انسانی سفر مسلسل جاری ہے ۔ انسانی سفر کی منزل موت ہے نہ کہ کوئی ایر پورٹ۔ یہی بات حدیث میں اس طرح کہی گئی ہے کہ دنیا میں اس طرح رہو گویا کہ تم مسافر ہو (كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ عَابِرُ سَبِيلٍ )( صحيح البخاري، حدیث نمبر 6424)
21 دسمبر1988 کو ہندستان سے امریکہ کے لیے روانگی ہوئی تھی ۔ یکم جنوری اور 2 جنوری 1989 کی درمیانی رات کو دوبارہ میں نے ہندستان کی زمین پر قدم رکھا۔ یہ سفر اگر چہ بہت محدود مدت کے لیے تھا، مگر اس مدت میں پورا کیلنڈر تبدیل ہو گیا۔ تاریخ کے صفحہ پر1988 کے بجائے1989کےلکھاجا چکا تھا۔ میں "حال" سے نکل کر" مستقبل "میں داخل ہو گیا۔
دہلی سے کیلی فورنیا کے سفر میں میں نے کرۂ ارض کے آدھے سے زیادہ حصہ کا سفر کیاجانے اور آنے کو ملاکر مجموعی طور پر تقریباً ۳۰ ہزار میل کا فاصلہ طے ہوا۔ دس دن کے بعد جب میں اس لمبےسفر سے واپس ہو کر اپنے ٹھکانے پر پہنچا تو میں نے سوچا کہ دنیا کے سفر میں آدمی بہر حال ایک روز اپنے ٹھکا نے پر واپس آجاتا ہے۔ مگر ایک اور سفر ہے جس کا معاملہ بالکل مختلف ہے ۔
یہ موت کا سفر ہے جو ہر ایک کو لازمی طور پر کرنا ہے۔ موت کے سفر کے بعد نہ واپسی کا کوئی امکان ہے اور نہ تلافیٔ مافات کی کوئی صورت ہر آدمی کو لازما ً ایک ایسی سواری پر بیٹھنا ہے جو کبھی اس کو واپس لے کر نہیں آئے گی کہ وہ اپنی کوتاہی اور اپنی سرکشی کی تلافی کر سکے۔ آہ، کیسا سخت معاملہ انسان کے ساتھ پیش آنے والا ہے اور وہ کتنا زیادہ اس سے غافل پڑا ہوا ہے۔ دنیا کی تمام عجیب باتوں میں سب سے زیادہ عجیب بات بلا شبہ یہی ہے۔