مردہ سے زندہ
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل جب مصر سے نکل کر صحرائے سینا میں پہونچے تو اللہ تعالیٰ نے ارض مقدس (شام و فلسطین) کو ان کے لیے لکھ دیا۔ حضرت موسیٰ کے ذریعہ بنی اسرائیل سے کہا گیا کہ تم لوگ اس سرزمین میں داخل ہو جاؤ ،تم کو خدا کی مددملے گی اور تم وہاں کے لوگوں پر غالب آجاؤ گے (المائدہ: 21)
وہاں جو قوم اس وقت آبا د تھی، وہ بظاہر ایک طاقتور قوم تھی ۔ چناں چہ بنی اسرائیل ان کا نام سن کر ڈر گئے ۔ ان پر ایسا خوف طاری ہوا کہ وہ خدا اور خدا کے رسول کی ہدایت کے باوجود ان کے خلاف اقدام کے لیے تیار نہ ہوئے (المائدہ: 22) بائبل میں ہے کہ : "تب ساری جماعت زور زور سے چیخنے لگی۔ اور وہ لوگ اس رات روتے ہی رہے ۔ اور کُل بنی اسرائیل موسٰی اور ہارون کی شکایت کرنے لگے ۔ اور ساری جماعت ان سے کہنے لگی، ہائے کاش ہم مصر ہی میں مرجاتے یا کاش اس بیابان ہی میں مرتے۔ خداوند کیوں ہم کو اس ملک میں لے جاکر تلوار سے قتل کرانا چاہتا ہے۔ پھر تو ہماری بیویاں اور بال بچے لوٹ کا مال ٹھہریں گے۔ کیا ہمارےلیے بہتر نہ ہو گا کہ ہم مصر کو واپس چلے جائیں "( گنتی 14: 1-4)
اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوا کہ بنی اسرائیل چالیس سال (1400-1440ق م ) تک فاران اور شرق اردن کے درمیان صحرا میں بھٹکتے ر ہیں گے ۔ یہاں تک کہ ان میں جو 20 سال سے نیچے ہیں ، صرف وہی زندہ بچیں گے۔20 سال سے اوپر کی عمر کے تمام لوگ ختم ہو جائیں گے۔ چناں چہ 40 سال کی صحرائی زندگی میں ان کے تمام بڑی عمر والے مرکرختم ہو گئے ۔ اس دوران ان کے بچے نئے صحرائی حالات میں پرورش پاکر نئی طاقت کے ساتھ اٹھے ۔ اس نئی نسل نے یوشع بن نون کی قیادت میں ارض مقدس کو فتح کیا ۔
بنی اسرائیل نے ابتداء ً حضرت موسیٰ سے کہا تھا کہ اگر ہم اس ملک پر حملہ کریں تو ان کے مقابلے میں ہم ہار جائیں گے ۔ اور پھر" ہمارے بچے لوٹ کا مال ٹھہریں گے" ۔ مگر یہی بچے بعد کو بڑے ہو کر شام و فلسطین کے علاقے میں داخل ہو گئے اور وہاں کے حکمراں (عمالقہ) سے لڑکراس پر قبضہ حاصل کر لیا۔
بنی اسرائیل کے بچوں میں یہ طاقت کیسے پیدا ہوئی۔ وہ بے حوصلہ سے باحوصلہ کیونکر بن گئے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے اپنے باپ دادا کے برعکس، لمبی مدت تک صحرائی زندگی کی مشقتوں کو برداشت کیا۔ بچوں کے باپ جن سخت حالات کو اپنے بچوں کے حق میں موت سمجھتے تھے، انھیں سخت حالات کے اندر داخل ہونے میں ان بچوں کے لیے نئی زندگی کا رازچھپا ہوا تھا ۔
موافق حالات میں زندگی گزارنا بظاہر اچھا معلوم ہوتا ہے ۔ مگر موافق حالات ہمیشہ جمود پیدا کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی کے اندر تمام اعلیٰ خصوصیتیں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب کہ اس کو حالات کا مقابلہ کر کے زندہ رہنا پڑے۔ مصر میں بنی اسرائیل صدیوں تک عافیت کی زندگی گزارتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایک مردہ قوم بن گئے ۔ مگر مصر سے خروج کے بعد ان کو غیر آبا د صحرا میں زندگی گزارنی پڑی۔ یہ صحرائی زندگی ان کے لیے سراپا چیلنج تھی۔ ان پُر مشقت حالات میں جو لوگ بچپن سے جوانی کی عمر کو پہونچے وہ قدرتی طور پر بالکل دوسری قسم کے انسان تھے ۔
بنی اسرائیل کی یہ نسل اخلاق و کردار کے اعتبار سے اپنے باپ دادا سے بالکل مختلف تھی ۔ صحرائی حالات نے ان کے اندر سادگی، جفاکشی ، حوصلہ اور حقیقت پسندی جیسی خصوصیات پیدا کر دی تھیں۔ اور بلاشبہ یہی وہ اوصاف ہیں جو کسی قوم کے افراد کو زندہ افراد بناتے ہیں۔ کوئی قوم اگر طولِ امد( الحدید16:) کے نتیجے میں مردہ قوم بن جائے تو اس کو دوبارہ زندہ قوم بنانے کی تدبیر یہی ہے کہ اس کو غیر معمولی حالات میں ڈالا جائے۔ اور اس کو ایسے شدید عمل سے گزارا جائے جس کے دوران اس کی سابقہ غیر مطلوب شخصیت ختم ہو اور نئی مطلوب شخصیت ابھر آئے ۔