مشرک کا حکم
قرآن میں ہے کہ خنزیر کا گوشت ناپاک ہےاَولَحْمَ خِنْزِيْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ (6:145)اسی طرح قرآن میں ہے کہ مشرک ناپاک ہیں اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ (9:28)اس لفظی اشتراک کی بنا پر کچھ لوگوں نے سمجھ لیا کہ جس طرح خنز یر باعتبار جسم ناپاک ہے ، اسی طرح مشرک بھی باعتبار جسم ناپاک ہے۔ چناں چہ مشرک کا برتن ، کھانا، کپڑا اور اس کی تمام چھوئی ہوئی چیزوں کو ناپاک سمجھ لیا گیا۔ حتی کہ کہا گیا کہ کوئی مسلمان اگر مشرک سے مصافحہ کر لے تو اس کے بعد وہ اپنے ہاتھ کو دھوئے اور وضو کر کے اپنے کو پاک کرے (وَقَالَ أَشْعَثُ، عَنِ الْحَسَنِ: مَنْ صَافَحَهُمْ فَلْيَتَوَضَّأْ، تفسیر ابن كثير، الجزء الثانی، صفحہ ۳۴۶)
یہ صحیح نہیں۔ اگر چہ مذکورہ دونوں آیتوں میں بظاہر یکساں لفظ ہے ، مگر دونوں کا مطلب یکساں نہیں۔ "خنزیرنجس ہے " کا مطلب یہ ہے کہ خنزیر کا جسم نجس ہے ۔ اس کے برعکس "مشرک نجس ہے " کا مطلب یہ ہے کہ مشرک کا عقیدہ نجس ہے ۔ جہاں تک مشرک کے بدن کی نجاست کا تعلق ہے ، جمہور کی رائے یہ ہے کہ مشرک کا بدن اور اس کا وجود نجس نہیں ۔ اسی بنا پر اہل کتاب کے کھانے کو جائز ٹھہرایا گیا ہے (وَأَمَّا نَجَاسَةُ بَدَنِهِ فَالْجُمْهُورُ عَلَى أَنَّهُ لَيْسَ بِنَجِسِ الْبَدَنِ وَالذَّاتِ؛ لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَحَلَّ طَعَامَ أَهْلِ الْكِتَابِ تفسیر ابن کثیر، الجز الثانی ، صفحہ ۳۴۶) عبدالرحمن الجزیری لکھتے ہیں :
أما قوله تعالىٰ {إنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ} فَالْمُرَادُ بِهِ النَّجَاسَةُ الْمَعْنَوِيَّةُ الَّتِي حَكَمَ بِهَا الشَّارِعُ، وَلَيْسَ الْمُرَادُ أَنَّ ذَاتَ الْمُشْرِكِ نَجَسُهُ كَنَجَاسَةٍ الْخِنْزِيرِ . (الفقه على المذاهب الاربعہ ، الجزء الاول ، صفحہ ۶)
اللہ تعالیٰ کا قول کہ مشرکین نجس ہیں، اس سے مراد معنوی نجاست ہے جس کا حکم شارع نے بیان کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مشرک کا وجود ناپاک ہے جس طرح خنزیر کا وجود ناپاک ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے تمام مسائل مسلمانوں میں دعوتی ذہن ختم ہونے کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ دوسری قوموں کو مدعو سمجھنا انھیں قابلِ التفات بناتا ہے ۔ مگر جب دوسری قومیں مدعو نہ سمجھی جائیں تو وہ قابلِ اجتناب بن کر رہ جائیں گی۔