مواقع کو پہچاننے میں ناکامی

بیسویں صدی میں وہ وقت پوری طرح آچکا تھا، جب کہ امت مسلمہ سے مطلوب تھا کہ وہ نئے پیدا شدہ حالات کو پہچانیں، اور نئے مواقع کو اویل کرتے ہوئے اس کام کو انجام دیں، جس کو قرآن میں آفاق و انفس کی سطح پر اعلیٰ تبیین حق (فصلت53:) کا رول کہا گیا ہے۔ بظاہر یہی وہ رول تھا جس کو حدیث میں اخوان رسول کا رول بتایا گیا تھا۔ لیکن عین اسی وقت ایک برعکس واقعہ ظاہر ہوا۔ یہ واقعہ غالباً وہی تھا جس کو حدیث میں فتنۂ دھیماء کہا گیا ہے۔ یہ فتنۂ دھیماء (سیاہ فتنہ) ایک ایسا عمومی فتنہ ہوگا جس کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:ثم فتنة الدہیماء، لا تدع أحدا من ہذہ الأمة إلا لطمتہ لطمة (سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 4242)۔ یعنی پھردہیماء کا فتنہ ہوگا، اور وہ اس امت میں سے کسی ایک فرد کو بھی نہیں چھوڑے گا مگر وہ اس کو ہٹ (hit)کرے گا۔اس حدیث میں لطمۃ سے مراد غالباًلطمۂ نفرت ہے۔ یعنی اس فتنہ کا پھیلاؤ اتنا زیادہ ہوگا کہ امت کا ہر فرد اس سے شدید طور پر متاثر ہوجائے گا۔ وہ ہر فرد امت کو نفرت کا کیس بنا دے گا۔

یہ حادثہ اس طرح پیش آئے گا کہ جو مغربی قومیں حدیث کے الفاظ میں موید دین بن کر ابھریں گی، ان کے ساتھ ایک اور اتفاقی پہلو شامل ہوگا۔ وہ یہ کہ یہ مغربی قومیں ایک طرف موید دین تہذیب لے کر ظاہر ہوں گی، لیکن اسی کے ساتھ ان کی دوسری حیثیت یہ ہوگی کہ وہ اس سیاسی کلچر کی حامل ہوں گی، جس کو نو آبادیاتی نظام(colonialism) کہا جاتا ہے۔ نو آبادیاتی نظام ایک اتفاقی سبب (chance factor) کی بنا پر اس تائیدی تہذیب کا حصہ ہوگا۔ مگر مسلم رہنما دو چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی پالیسی (delinking policy) اختیار نہ کرسکیں گے، اور سیاسی اختلاف کی بنا پر خود تائیدی تہذیب کے دشمن بن جائیں گے۔ مسلمانوں کایہ مزاج اتنا زیادہ بڑھے گا کہ امت کا کوئی فرد اس کی زد میں آنےسے محفوظ نہ رہے گا۔

اس کیفیت کو اگر نئے اصطلاح میں بیان کیا جائے تو اس کو ویسٹو فوبیا کہا جاسکتا ہے۔ یہی مغربی قومیں تھیں، جنھوں نے ایک طرف ماڈرن تہذیب کو وجود دیا، اور دوسری طرف یہی وہ قومیں تھیں، جو بعد کو نو آبادیاتی طاقتوں (colonial powers) کے نام سے ابھریں۔ انھوں نے ایک کے بعد ایک تمام مسلم سلطنتوں کو ختم کردیا۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ مسلمان عمومی پیمانے پر سیاسی محرومی کا شکار ہوگئے۔ قدیم زمانے میں اس طرح کا واقعہ مقامی خبر (local event) بن کر رہ جاتا تھا۔ لیکن موجودہ زمانے میں جدید میڈیا کی بنا پر یہ سیاسی واقعہ اتنا پھیلا کہ کوئی مسلمان اس "حادثہ" سے بے خبر نہ رہا۔ چنانچہ ہر مسلم مرد اور عورت مغرب سے متنفر ہوگیا۔

اگر مسلم رہنما بروقت ڈی لنکنگ (delinking)کی حکمت کو اختیار کرتے، جیسا کہ اسلام کے دور اول میں پیغمبر اسلام نے کیا تھا۔ پیغمبر اسلام نے کعبہ کے اصنام اور ان کے لیے روزانہ اکٹھا ہونے والے زائرین (audience) کو ایک دوسرے سے الگ کیا تھا۔ اس طرح آپ نے ایسا دانش مندانہ طریقہ اختیار کیا، جو آخر کار فتح مبین (الفتح 1:) کا باب بن گیا۔ اگر وقت کے مسلم رہنما اس ڈی لنکنگ پالیسی کو اختیار کرتے تو مسلم امت عمومی نفرت کے فتنہ سے بچ جاتی، اور مغربی تہذیب کے ذریعہ پیدا ہونے والے تائیدی مواقع کو بھر پور طور پر اویل (avail) کرکے اس کارنامے کو انجام دیتی جس کو ایک برٹش مورخ ای ای کلیٹ (Ernest Edward Kellett) نے پیغمبر اسلام کی نسبت سے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ انھوں نے ناموافق حالات کا مقابلہ اس عزم کے ساتھ کیا کہ ناکامی سے کامیابی کو نچوڑلیا:

He faced adversity with the determination to wring success out of failure. (A Short History of Religions by E.E. Kellet, pp. 331-32, Middlesex)

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom