جنت انسان کا اصلی ہیبیٹاٹ (habitat)
انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ایک ایسی دنیا کا طالب ہے، جہاں وہ پر امن (peaceful) انداز میں رہ سکے۔ انسان کی پوری تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انسان ہمیشہ ایک ایسی دنیا کی تلاش میں رہا ہے۔ لیکن عملاً وہ اس دنیا کو کبھی پا نہ سکا۔ موجودہ زمانے میں جدید ٹکنالوجی کے ذریعہ یہ ممکن ہوا کہ انسان مکمل تہذیب (civilization) کو وجود میں لائے۔ چناں چہ ساری کوششوں کے بعدیہ ممکن ہوگیا کہ انسان ایک کامل تہذیب کو وجود میں لائے۔ مگر جب یہ تہذیب عملاً بن چکی تو معلوم ہوا کہ وہ انسان کے لیے صرف ایک ناقص تہذیب ہے۔ قرآن کا یہ بیان تجرباتی سطح پر ایک ثابت شدہ واقعہ بن گیا :وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَشْتَہِی أَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَدَّعُونَ (41:31)۔
پہلے زمانے میں انسان صرف ضرورت (necessity) پر زندگی گزارتا تھا۔ پھر سہولت (comfort) کا دور آیا۔ اس کے بعد تہذیب نے لگزری (luxury) کے بے شمار سامان انسان کے لیے فراہم کردیے۔ لیکن کوئی بھی چیز انسان کے لیے ذہنی سکون (peace of mind) کا ذریعہ نہ بن سکا۔ انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے ایک آئڈیل دنیا (perfect world) کی تلاش میں ہے۔ مگر تجربے نے یہ بتایا کہ موجودہ دنیا کی محدودیت کی بنا پر یہاں کامل دنیا کی تعمیر ممکن نہیں۔ عام تصور کے مطابق، تہذیب کا یہ سفر ابھی جاری تھا۔ امریکا کے رائٹر الوین ٹافلر (Alvin Toffler) نے ایک کتاب چھاپی۔ اس کتاب کا ٹائٹل تھا:
Future Shock (1970)
اس کتاب میں انھوں نے یہ پیشین گوئی کی کہ انڈسٹریل ایج(industrial age)اب سپر انڈسٹریل ایج (super-industrial age)کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مستقبل میں ایک نئی ترقی یافتہ دنیا وجود میں آئے گی، جب کہ انسان کے لیے اس کی طلب کو حاصل کرنا ممکن ہوجائے۔ لیکن اس کے بعد ہی سائنسدانوں نے یہ دریافت کیا کہ موجودہ زمین اپنے کاؤنٹ ڈاؤن (countdown)کے آخری مرحلے میں پہنچ رہی ہے۔ا کیسویں صدی کے آخر تک موجودہ زمین انسان کے لیے قابل رہائش (habitable) نہیں رہے گی۔ اس دریافت کے بعد اب یہ ناممکن ہوگیا کہ زمین کی بنیاد پر کوئی جنت جیسی اعلیٰ دنیا تعمیر کی جاسکے۔
مشہور برطانی سائنسداں، اسٹیفن ہاکنگ نے اس کا حل یہ بتایا ہے کہ اب انسان کو اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے اسپیس کالونی (space colony) بنانا چاہیے۔ مگر ہر شخص جانتا ہے کہ یہ تجویز ایک سائنس فکشن سے زیادہ کچھ نہیں۔
اسی طرح سائنس نے دریافت کیا کہ انسان اپنے پورے وجود کے ساتھ ایک کامل دنیا کا متلاشی ہے، لیکن موجودہ دنیا میں یہ کامل دنیا بننا ممکن نہیں۔ یہ دریافت بالواسطہ طور پر جنت جیسی ایک دنیا کی موجودگی کا ثبوت ہے۔ کیوں کہ جس دنیا میں ہر چیز اپنے فائنل ماڈل پر پائی جاتی ہو، وہاں جنت جیسی ایک دنیا کا ہونا، اپنے آپ میں ایک ثابت شدہ بات ہے۔ جنت اگر دکھائی نہیں دیتی تو اس کو نہ دکھائی دینے والی دنیا میں موجود ہونا چاہیے۔ جنت انسان کی طلب کا مطلوب ہے، اور کائنات کا مطالعہ جس بامعنی دنیا (meaningful world) کی نشاندہی کررہا ہے، اس میں علمی طور پر یہ ناممکن ہے کہ طلب تو پائی جائے، لیکن مطلوب موجود نہ ہو۔ یہ دریافت جنت کی موجودگی کا ایک استنباطی ثبوت (inferential proof) ہے۔