قرآن کی سائنسی تفسیر
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:أَوَلَمْ یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاہُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُونَ (21:30)۔ یعنی کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں بند تھے، پھر ہم نے ان کو کھول دیا۔ اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیز کو بنایا۔ کیا پھر بھی وہ ایمان نہیں لاتے۔
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کائنات میں خود تخلیق کے اعتبار سے ایسی کھلی شہادت موجود ہیں، جو اس حقیقت کو ثابت کرتی ہیں کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں جب کہ قرآن نازل ہوا، یہ آیت ایک پیشین گوئی کی حیثیت رکھتی تھی۔ مگر اب یہ آیت سائنسی طور پر ایک ثابت شدہ واقعہ بن چکی ہے۔ اس سائنسی دریافت کا معروف نام بگ بینگ (Big Bang) ہے۔ بیسویں صدی عیسوی کے ربع اول میں پہلی بار اس حقیقت کی دریافت ہوئی، اور پھر سائنسداں اس دریافت کی مزید تحقیق کرتے رہے، یہاں تک کہ اب بگ بینگ کا واقعہ سائنسی طور پر ایک ثابت شدہ واقعہ بن چکا ہے۔
اس دریافت کے مطابق، تقریبا تیرہ بلین سال پہلے خلا میں ایک بہت بڑا کاسمک بال (cosmic ball) ظاہر ہوا۔ اس کاسمک بال میں وہ تمام پارٹکل (particle)موجود تھے، جن کے مجموعے سے موجودہ کائنات بنی ہے۔ اس کاسمک بال میں ایک زبردست انفجار (explosion) ہوا۔ اس انفجار کے بعد ایک لمبی مدت کے دوران وہ پوری دنیا بنی، جس کو آج ہم کائنات کے نام سے جانتے ہیں۔بگ بینگ کا نظریہ اب ایک سائنسی واقعہ (scientific fact) کے طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔ اس موضوع پر ہر انسائیکلوپیڈیا میں مواد موجود ہے۔ اس کے بارے میں بڑی تعداد میں کتابیں اور مقالات شائع ہوچکی ہیں۔ یہاں بطور مثال صرف ایک کتاب کا حوالہ دیا جاتا ہے:
Big Bang: The Origin of the Universe by Simon Singh (Harper Collins, 2005)