اہل علم کی شہادت
زیر نظر موضوع سے متعلق قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: شَہِدَ اللَّہُ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ وَالْمَلَائِکَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ (3:18)۔ یعنی اللہ گواہی دیتا ہے کہ یقیناً اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور فرشتے اور اہل علم میں سےجو انصاف پر قائم ہیں (وہ بھی یہی گواہی دیتے ہیں کہ) اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں، وہ غالب ہے حکمت والا ۔
اللہ شہادت دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی الہ نہیں— اس کا مطلب یہ ہے کہ تخلیق کے ہر جزء پر خالق کی اسٹیمپ (stamp) لگی ہوئی ہے۔ تخلیق (creation) کا مطالعہ باعتبار حقیقت خالق کے عمل (act) کا مطالعہ ہے۔ تاہم اس معاملے میں سائنس کے آغاز پر ایک نا موافق حادثہ پیش آیا۔ وہ سائنٹفک کمیونٹی اور کرشچن چرچ کے درمیان ٹکراؤ تھا۔ اس کی تفصیل درج ذیل کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے:
History of the Conflict Between Religion and Science by John William Draper (1874)
یہ تصادم سائنٹفک کمیونٹی اور کرسچن چرچ کے درمیان تھا۔ اس کے نتیجے میں یہ واقعہ پیش آیا کہ سائنٹفک کمیونٹی نے نیچر کے مطالعہ (باعتبار حقیقت تخلیق کےمطالعہ) میں تخلیق اور خالق کو ایک دوسرے سے ڈی لنک (delink) کردیا۔ وہ تخلیق کا مطالعہ خالق کے ریفرنس کے بغیر کرنے لگے۔ اس طرح سائنس بظاہر ایک سیکولر سبجکٹ بن گیا۔ حالاں کہ باعتبار حقیقت وہ مکمل طور پر ایک مذہبی سبجکٹ کی حیثیت رکھتی تھی۔
اس کے بعد دوسری غلطی مسلم علماء نے کی۔ انھوں نے سائنس کو ایک مادی سبجکٹ کا درجہ دے دیا، جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہ ہو۔ حالاں کہ مسلم علماء کو کرنا یہ تھا کہ وہ اس ڈی لنکنگ کو ختم کردیں۔ وہ دنیا کو یہ بتائیں کہ سائنس جس مطالعے کو نیچر کا مطالعہ کہہ رہی ہے، وہ در اصل تخلیق کا مطالعہ ہے، اور تخلیق کا مطالعہ اپنے آپ تخلیق کے خالق کامطالعہ ہے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ آیت میں اولو العلم سے مراددین کے علماء نہیں ہیں، بلکہ طبیعیاتی سائنس کے علماء ہیں۔اٹلی کے سائنس داں گلیلیو گلیلی کے بعد دنیا میں ایک نیا دور آیا۔ اس کو سائنس کا دور (age of science) کہا جاتا ہے۔ اس دور میں خالص عقلی اصولوں کی روشنی میں مادی دنیا کا مطالعہ شروع ہوا۔ یہ مطالعہ تیزی سے بڑھا، یہاں تک کہ سائنس سب سے بڑا علمی شعبہ بن گیا۔ اس سائنسی مطالعے نے فطرت کے بہت سے وہ اسرار دریافت کیے، جو اب تک غیر دریافت شدہ حالت میں پڑے ہوئے تھے۔ یہ دریافتیں تخلیقی دنیا سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس بنا پر ان کا تعلق براہ راست طور پرخالق کی معرفت سے تھا۔
سائنسی علوم کا مطالعہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے خالق کی معرفت کا مطالعہ تھا۔ مگر سائنسدانوں نے اس مطالعے کو مکمل طور پر ایک سیکولر سبجکٹ کے طور پر کیا۔ تقریباً چار سو سال کے سائنسی مطالعے کے نتیجے میں جو سائنسی معلومات انسان کے علم میں آئی ہیں، وہ سب کی سب معرفت خداوندی کا دفتر ہیں۔ لیکن سائنسی دریافتوںکا یہ پہلو ابھی تک چھپا ہوا تھا۔ اس معاملے میں اب اہل اسلام کا رول یہ ہےکہ وہ اس کے ریفرنس(reference) کو بدلیں۔علوم فطرت کی جو دریافتیں اب تک سیکولر دریافتوں کی حیثیت سے سمجھی جاتی رہی ہیں، ان کو رب العالمین کی دریافت کا درجہ دے دیں۔ وہ سائنس کو اسلام کے علم کلام کی حیثیت سے لوگوں کے سامنےلائیں۔ان دریافتوں کی بنیاد پر وہ اسلام کا نیا علم کلام مدون کریں۔