مادی تہذیب
موجودہ زمانے میں ہم اپنے آپ کوجس تہذیب کے دور میں پاتے ہیں، اس تہذیب کو عام طور پرمغربی تہذیب (western civilization) کہا جاتا ہے۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک مادی تہذیب (material civilization) ہے۔ یہ مادی تہذیب خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق ایک مقدرتہذیب تھی۔یہ تہذیب اپنی حقیقت کے اعتبار سے دین خداوندی کے لیےپوری طرح ایک موافق تہذیب ہے۔تاہم ہر دوسری چیز کی طرح اس تہذیب کے بھی مختلف پہلو ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس تہذیب کے غیر متعلق پہلو (irrelevant part) کو نظر انداز کرکے اس کے متعلق پہلو (relevant part) کو دیکھا جائے۔
اس مادی تہذیب کا بالواسطہ حوالہ قرآن کی ایک آیت میں ملتا ہے، وہ آیت یہ ہے:سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقّ أَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ أَنَّہُ عَلَى کُلِّ شَیْءٍ شَہِیدٌ ُ (41:53)۔یعنی مستقبل میں ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے کہ یہ حق ہے۔ کیا یہ بات کافی نہیں کہ تیرا رب ہر چیز کا گواہ ہے۔ یہاں آیات سے مراد وہ قوانین فطرت ہیں جو تخلیقی طور پر اس دنیا میں ہمیشہ سے موجود تھے۔ ’’ہم نشانیاں دکھائیں گے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کچھ انسانوں کو توفیق دے گا کہ وہ فطرت کے مخفی قوانین (hidden laws of nature) کو دریافت کریں، اور اس طرح دین خداوندی کی تائید (support) کے لیے ایک عقلی بنیاد (rational base)فراہم ہو۔ اس تہذیب نے انسانی دنیا اور مادی دنیا میں چھپی ہوئی جن حقیقتوں کو دریافت کیا ہے، وہ سب بلاشبہ دینِ حق کی فکری تصدیق کرنے والی ہیں۔
موجودہ دنیا میں انسان کو آباد کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ معرفت (realization) کا سفر کرے، اور اپنی شخصیت کو اعلی ارتقاء کے درجے تک پہنچائے۔ اس تہذیب نے انسان کے لیے غور و فکر کا ایک نیا فریم ورک (framework) دیا۔ اس نے غورو فکر کے لیے انسان کو نئی معلومات (data) فراہم کیں۔ اس نے انسان کو نئے وسائل (resources) دیے۔ یہ تمام چیزیں اہل دین کے لیےتائیدی عنصر (supporting factor)کی حیثیت رکھتی ہیں، وہ اس لیے ہیں کہ انسان اپنے سفر معرفت کو زیادہ کامیابی کے ساتھ جاری رکھے، وہ اپنے آپ کومطلوبِ الٰہی کے مطابقـ ایک سیلف میڈ مین (self-made man) کی حیثیت سے ڈیولپ کرے۔