اہل اسلام کا کنٹری بیوشن
اب اہل ایمان کے لیے جو کرنے کا کام تھا ، وہ یہ تھا کہ وہ سائنٹفک معلومات کو اسلام کے لیے استعمال کریں۔وہ سائنٹفک معلومات (scientific knowledge) کو استعمال کرکے اپنی معرفت کو نئی مطلوب سطح تک پہنچا دیں، اور دوسروں کے لیے بھی اس معاملے میں رہنمائی کا رول ادا کریں۔ مگر تاریخ دیکھتی ہے کہ اہل اسلام اس معاملے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئے۔ بیسویں صدی کے پورے دور میں پوری مسلم دنیا میں بظاہر ایک شخص بھی نظر نہیں آتا جس کو اس کام کا واضح شعور ہو، اور اس نے اس کام کو مطلوب صورت میں انجام دیا ہو۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مسلمان اس عظیم امکان سے مکمل طور پر بے خبر رہے۔ انھوں نے اس حقیقت کو جانا ہی نہیں کہ اللہ نے تاریخ کو مینج کرکے اس درجہ تک پہنچایا ہے کہ فطرت میں چھپی ہوئی آیات اللہ (signs of God) دریافت ہوکر سامنے آگئی ہیں۔ اس دریافت کا کام اہل مغرب نے نہایت اعلیٰ سطح پر انجام دے دیا ہے۔ اب مسلمانوں کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اس سائنسی دریافت کوبھر پور طور پر دین خداوندی کی تائید کے لیے استعمال کریں۔ اس معاملے میں اب عملاً مسلمانوں کا کام بنیادی طور پر سیکنڈری ہے، نہ کہ پرائمری۔
اس معاملے میں غالباًامت کی سطح پر مسلمانوں کے کسی براہ راست کنٹری بیوشن کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی۔ بظاہر چند افراد نے اس موضوع پر کچھ کام کیا ہے، لیکن وہ اصل مطلوب کی حیثیت سے کوئی قابل ذکر کام نہیں نظر آتا ہے۔ البتہ کچھ مسلم مترجمین نے مسیحی اہل علم کی کتابوں کے ترجمے کیے ہیں، جو یقینا اس معاملے میں اہمیت رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک قابل ذکر کتاب وہ ہے جو چالیس مغربی سائنس دانوں کے مقالات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب انگریزی میں مندرجہ ذیل ٹائٹل کے ساتھ شائع ہوئی ہے:
The Evidence of God in an Expanding Universe (G. P. Putnam's Sons, 1958)
یہ کتاب اس موضوع پر ایک اہم کتاب ہے۔ اس کتاب کا عربی زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے۔اس کا عربی ٹائٹل یہ ہے:اللہ یتجلی فی عصر العلم (مترجم: الدمرداش عبد المجید سرحان، مؤسسة الحلبى وشرکاہ للنشر والتوزیع، 1968)۔راقم الحروف اپنے بارے میں یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے اسی کام کو اپنا اصل موضوع بنایا۔ وسیع مطالعے کے بعد میں نے اس موضوع پر بہت سے مقالے اور کتابیں شائع کیں۔ ان میں سے ایک بڑی کتاب وہ ہے جو اردو زبان میں مذہب اور جدید چیلنج کے نام سے1966 میں شائع ہوئی۔اس کتاب کا عربی ترجمہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے کیا، وہ پہلی بار قاہرہ سے 1976میں چھپی ۔ یہ 196 صفحات پر مشتمل تھی۔اس کے بعد اس کے بہت سے ایڈیشن بار بار شائع ہوتے رہے ۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ، گاڈ ارائزز (God Arises)کے نام سےڈاکٹر فریدہ خانم نے کیا۔ یہ کتاب 1987 میں پہلی بار دہلی سے چھپی۔
مسیحی اہل علم نے اس موضوع پر بلاشبہ قابل قدر کام کیا ہے۔ انھوں نے اس موضوع پر بڑی تعداد میں مقالے اور کتابیں شائع کی ہیں، جو بلاشبہ ہمارے لیے تائیدی سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان میں سے چند کتابوں کے نام یہاں لکھے جاتے ہیں:
The Intelligent Universe by Fred Hoyle, (Holt, Rinehart, and Winston, 1984)
The Cosmic Detective: Exploring the Mysteries of Our Universe by Mani Bhaumik, Mani (Penguin Books India, 2008)
Science And The Unseen World by Arthur Stanley Eddington (Kessinger Publishing, 2004)
New Proofs for the Existence of God: Contributions of Contemporary Physics and Philosophy by Robert J. Spitzer, (2010)
How to Know God Exists: Scientific Proof of God, by Sr Ray Comfort (2008)
اس معاملے کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی اس بے خبری کا سبب وہی عمومی فتنہ تھا جس کو حدیث میں فتنۃ الدہیما ء (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر4242) کہا گیا ہے۔ فتنۃ الدُہیماء سے مراد نفرتِ مغرب کا عمومی فتنہ ہے۔ اس فتنہ کو زیادہ صحیح طور پر ویسٹو فوبیا (westophobia) کہا جاسکتا ہے۔ یہ پوری اسلامی تاریخ کی سب سے زیادہ تعجب خیز حقیقت ہے کہ اللہ رب العالمین نے جب سائنسی ترقی کے ذریعہ اعلیٰ معرفت کا دروازہ کھولا تو مسلمان اس حقیقت سے پوری طرح بے خبر ہو کر رہ گئے۔
حدیث میں آیا ہے :حبک الشیء یعمی ویصم (سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 5130)۔ اس قول کو توسیع دے کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ بغضک الشیء یعمی ویصم یعنی تمھارا کسی چیز سے نفرت کرنا تم کو اندھا اور بہرا بنادیتا ہے۔موجود ہ زمانے کے مسلمانوں میں بعض سیاسی اسباب سے اہل مغرب سے نفرت پیدا ہو گئی۔ اس بغض کے نتیجہ میں وہ اہل مغرب کے کنٹری بیوشن کو مثبت طور پر جاننے سے محروم ہوگئے۔ انھوں نے حالات کے دباؤ کے تحت مغربی تہذیب سے مادی فائدہ اٹھایا، لیکن وہ مغربی تہذیب کے اس پہلو سے بے خبر ہوگئے کہ مغربی تہذیب حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق اسلام کے لیے ایک تائیدی تہذیب (supporting civilization) ہے۔ اس عمومی نفرت کا سب سے بڑا نقصان خود مسلمانوں کو ہوا۔ کیوں کہ اس بنا پر وہ اپنے اس اہم رول سے بے خبر ہوگئے کہ مغرب کی دریافت کردہ تائیدات کو لے کر وہ اسلام کی تبیین اعلیٰ عقلی سطح پر کرسکیں، اور اس طرح وہ اہم رول ادا کرسکیں جس کو حدیث میں شہادت اعظم کہا گیا ہے۔