ملت مسلمہ کی غفلت

سائنس (physical science) اپنی حقیقت کے اعتبار سے گویا اسلام کا علم کلام تھا۔ یہ اسلامی علم کلام کو قیاسی فلسفہ کے بجائے برہانیات پر قائم کرنا تھا، یعنی دلائل عقلیہ کی بنیاد پر۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ سائنس کو سیکولر گروہ نے ہائی جیک کرلیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ مسلمان اپنی منفی سوچ کی بنا پر سائنس کی حقیقت کو سمجھ نہ سکے۔ وہ انتہائی بے بنیاد طور پر مغرب کی ہر چیز کے خلاف ہوگئے۔ یہاں تک کہ سائنس کے بھی۔ اگر مسلمانوں کا پڑھا لکھا طبقہ بر وقت اپنا رول ادا کرتا تو سائنس ربانی حقیقتوں کی دریافت کا علم بن جاتا۔ مگر مسلمانوں کی کوتاہی کی بنا پر ایسا نہ ہوسکا۔

اس معاملے میں ایک واقعہ یہاں بطور مثال نقل کیا جاتا ہے۔ یہ واقعہ عنایت اللہ خاں مشرقی (1888-1963) نے بیان کیا ہے۔ عنایت اللہ خان مشرقی اعلیٰ تعلیم کے لیےانگلینڈ گئے تھے۔ وہاں انھوں نے کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ جس زمانے میں وہ وہاں تھے، اس وقت سر جیمز جینس کیمبرج یونیورسٹی میں اپلائڈ ریاضیات ( applied mathematics) کے پروفیسر تھے۔ عنایت اللہ خاں مشرقی نے سر جیمز جینس کے ساتھ اپنے طالب علمی کے زمانے کے ایک واقعہ کا ذکر ان الفاظ میںکیا ہے:

’’1909ء کاذکرہے، اتوارکادن تھا،اورزورکی بارش ہورہی تھی، میں کسی کام سے باہر نکلا تو جامعہ کیمبرج کے مشہورماہرفلکیات سرجیمزجینس(James Jeans) پرنظرپڑی جوبغل میں انجیل دبائے چرچ کی طرف جارہے تھے، میں نے قریب ہوکر سلام کیا،انھوں نے کوئی جواب نہ دیا،دوبارہ سلام کیاتووہ متوجہ ہوئے اورکہنے لگے، ’’تم کیاچاہتے ہو‘‘میں نے کہا،دوباتیں اول یہ کہ زورسے بارش ہورہی ہے اور آپ نے چھاتابغل میں داب رکھاہے،سرجیمزاپنی بدحواسی پرمسکرائے اور چھاتا کھول لیا،دوم یہ کہ آپ جیساشہرۂ آفاق آدمی گرجاگھرمیںعبادت کے لئے جارہاہے ،یہ کیا؟میرے اس سوال پرپروفیسرجیمزلمحہ بھرکے لئے رک گئے اورپھرمیری طرف متوجہ ہوکرفرمایا’’آج شام کوچائے میرے ساتھ پیو‘‘چنانچہ میںشام کو ان کی رہائش گاہ پہنچاٹھیک 4بجے لیڈی جیمزباہرآکرکہنے لگیں’’سرجیمزتمہارے منتظر ہیں‘‘ اندر گیا توایک چھو ٹی سی میزپرچائے لگی ہوئی تھی،پروفیسرصاحب تصورات میں کھوئے ہوئے تھے ،کہنے لگے’’تمہاراسوال کیاتھا‘‘ اورمیرے جواب کاانتظارکئے بغیراجرام آسمانی کی تخلیق،ان کے حیرت انگیزنظام، بے انتہا پہنائیوں اورفاصلوں ،ان کی پیچیدہ راہوں اورمداروں نیزباہمی کشش اورطوفان ہائے نورپروہ ایمان افروز تفصیلات پیش کیں کہ میرادل اﷲکی اس داستانِ کبریاوجبروت پردہلنے لگا، اوران کی اپنی کیفیت یہ تھی سرکے بال سیدھے اٹھے ہوئے تھے، آنکھوں سے حیرت وخشیت کی دوگونہ کیفیتیں عیاں تھیں ،اﷲ کی حکمت ودانش کی ہیبت سے ان کے ہاتھ قدرے کانپ رہے تھے ،اورآوازلرزرہی تھی، فرمانے لگے ’’عنایت اﷲ خاں!جب میںخداکے تخلیقی کارناموں پرنظرڈالتاہوں تومیری تمام ہستی کاہرذرہ میراہم نوابن جاتاہے ،مجھے بیحدسکون اورخوشی نصیب ہوتی ہے،مجھے دوسروں کی نسبت عبادت میں ہزارگنازیادہ کیف ملتاہے،کہوعنایت اﷲ خاں!تمہاری سمجھ میں آیاکہ میں گرجے کیوں جاتاہوں۔‘‘

علامہ مشرقی کہتے ہیں کہ پروفیسرجیمزکی اس تقریر نے میرے دماغ میں عجیب کہرام پیدا کردیا َیں نے کہا’’جناب والا!میں آپ کی روح افروزتفصیلات سے بے حد متاثر ہوا ہوں،اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یادآگئی اگراجازت ہوتوپیش کروں ، فرمایا ’’ضرور‘‘ چنانچہ میں نے یہ آیت پڑھی:وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِیضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہَا وَغَرَابِیبُ سُودٌ۔ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ کَذَلِکَ إِنَّمَا یَخْشَى اللَّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاءُ (35:27-28)۔

یہ آیت سنتے ہی پروفیسرجیمزبولے:’’کیاکہا،اﷲ سے صرف اہل علم ڈرتے ہیں ،حیرت انگیز،بہت عجیب، یہ بات جومجھے پچاس برس مسلسل مطالعہ ومشاہدہ کے بعدمعلوم ہوئی،محمد کوکس نے بتائی،کیاقرآن میں واقعی یہ آیت موجودہے، اگرہے تومیری شہادت لکھ لوکہ قرآن ایک الہامی کتاب ہے ،محمد ان پڑھ تھا ،اسے یہ عظیم حقیقت خودبخودمعلوم نہیں ہوسکتی ، اسے یقیناًاﷲ نے بتائی تھی،بہت خوب ،بہت عجیب۔ (نقوش شخصیات نمبر،صفحات9۔1208)

اصل یہ ہے کہ سائنسی علوم کو ایکزیکٹ سائنسز (exact sciences ) کہا جاتا ہے۔اس لیے کہ سائنسی علوم تمام تر ریاضیات (mathematics) پر مبنی ہوتے ہیں۔ یورپ میں جب سائنسی علوم پھیلے تو اس کے نتیجے میں اہل یورپ کے درمیان مبنی بر واقعیت سوچ (exact thinking) پیدا ہوئی۔ یہ طرز فکر اسلام اور قرآن کے عین موافق تھا۔ اس طرز فکر کی بنا پر اہل یورپ اسلام اور قرآن کی دعوت کے لیے بہترین مدعو بن گئے۔ اس وقت اگر اہل یورپ کو اسلام اور قرآن کی دعوت پہنچائی جاتی تو یقینی طور پر وہ اسلام اور قرآن کے لیے نہایت مثبت جواب (positive response) دیتے۔ مثالیں بتاتی ہیں کہ یورپ کے بہت سے افراد نے اس قسم کا رسپانس دیا۔ مگر عین اسی زمانے میں ساری دنیا کے مسلمان نفرت مغرب کی نفسیات میں مبتلا ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں وہ اس دعوتی امکان کو اویل کرنے کےلیے ناکام ثابت ہوگئے۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو مغربی سائنس بلاشبہ اسلام کے لیے ایک تائیدی سائنس (supporting science) بن جاتا۔

اسی قسم کا ایک اور واقعہ یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ یہ واقعہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر رشید احمد صدیقی نے بیا ن کیا ہے۔ انھوں نے یہ واقعہ مضامین رشید میں نقل کیا ہے:

18 ءیا 19ء کا واقعہ ہے۔ یونین میں ام الالسنہ عربی پر خواجہ کمال الدین (1870-1932) کی اردو میںتقریر تھی۔ انھوں نے بڑی قابلیت اور اعتماد کے ساتھ تقریر شروع کی۔ مولانا سہیل کی آنکھوں میں تکلیف تھی۔ سردیوں کا زمانہ تھا، مولانا کو احباب اسپتال لائے تھے۔ یونین میں مجمع دیکھا تو کہا مولانا تکلیف نہ ہو تو ذرا تقریرسنتے چلیں۔ مولانا نے کہا اچھی بات ہے، لیکن آنکھوں میں تکلیف زیادہ ہے، جلد اٹھ آئیں گے۔ سب لوگ یونین میں آئے۔ مولانا سر سے پاؤں تک بڑے وزنی لبادے میں ملفوف تھے، سر پر اونی کنٹوپ تھا۔ آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی، اور اس پر ہرے رنگ کا چھجا (شیڈ) لگا ہوا تھا۔ خواجہ صاحب نے کم و بیش دو گھنٹے تک تقریر کی۔ حاضرین محو حیرت تھے۔ تقریر ختم ہوئی تو وائس پریسیڈنٹ نے اعلان کیا کہ مولانا سہیل، فاضل مقرر کا طلبائے کالج کی طرف سے شکریہ ادا کریں گے۔ مولانا کے خلاف سازش کامیاب ہوئی۔ دوستوں اور ساتھیوں نے مولانا کو ہاتھوں ہاتھ ڈائس پر پہنچادیا۔ مولانا کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی، میز کے پاس کھڑے کیے گئے۔ تھوڑی سی ناک، اس سے ذرا بڑی اور ہاتھ کی صرف انگلیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ مولانا نے بےتکلف تقریر شروع کردی، اس اعتماد سے گویا تمام عمر اسی مبحث پر تیاری کی تھی۔ جو لوگ یونین کے مجمع سے واقف ہیں، وہ جانتے ہوں گے کہ اچھے مقرر کے بعد کسی اور کی تقریر سننے کے لیے کوئی نہیں ٹھیرتا، اور صدر کا شکریہ بھی اسی بدنظمی کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ مولانا نے بھی ام الالسنہ عربی پر تقریر شروع کی۔ پون گھنٹہ تک تقریر کی، نئے نئے پہلوؤں سے موضوع پر روشنی ڈالی، نئی نئی مثالیں پیش کیں۔ تقریر اس درجہ دلنشیں اور کہیں کہیں اتنا شگفتہ بنادیا کہ خواجہ صاحب نے بے اختیار ہو کر مولانا کو گلے لگا لیا، اور فرمایا تمھارے ایسا جامع کمالات ساتھ کام کرنے والا مل جائے تو اسلام کا جھنڈا یورپ کی سب سے بلند چوٹی پر نصب کردوں۔ (مضامین رشید،علی گڑھ،1964 صفحہ 42-43)

مولانا اقبال احمد سہیل (1884-1955) اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم اے، ایل ایل بی تک تعلیم حاصل کی۔ وہ نہایت ذہین آدمی تھے۔ لیکن اس زمانے کے دوسرے مسلمانوں کی طرح وہ بھی انگریز سے اور یورپ سے نفرت کرتے تھے۔ ان کو اسلام دشمن سمجھتے تھے۔ اس بنا پر وہ خواجہ کمال الدین کی پیش کش کی اہمیت کو سمجھ نہ سکے۔ تعلیم کے بعد وہ علی گڑھ سے اعظم گڑھ چلے گئے، اور وہاں ضلع کی عدالت میں پریکٹس کرنے لگے۔ اسی حالت میں ان کا انتقال ہوگیا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom